فرائیڈے اسپیشل:کراچی نظریاتی‘ علمی‘ ادبی و سیاسی قیادت کا مرکزتھا لیکن ایم کیو ایم کے ظہور کے بعد صورت حال تبدیل ہوگئی، تاہم کراچی کے بارے میں اب بھی یہ خیال موجود ہے کہ یہ قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ کراچی نے پاکستان کی سیاست میں بہت اہم اور کلیدی کردار ادا کیا، تحریکیں بھی چلتی رہیں، ان کی قیادت بھی کراچی ہی کرتا تھا، بلکہ تحریکیں شروع بھی یہیں سے ہوتی تھیں۔ تحریکیں اپنے عروج پر اُس وقت پہنچتی تھیں جب پنجاب میں ہلچل ہوتی تھی، لیکن تحریکوں کا اصل مرکز کراچی ہوتا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ کراچی منی پاکستان ہے اور پورے پاکستان کے رہنے بسنے والے لوگ یہاں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ سب مل جل کر کراچی کی تعمیر و ترقی میں بھی حصہ لیتے تھے اور اسی میں ملک کی بھی ترقی تھی۔ ایم کیو ایم کے آنے کے بعد کراچی آئیسولیشن میں چلا گیا۔ میں اس بات کو نظرانداز نہیںکرسکتا کہ کراچی اور کراچی کے اپنے مسائل تھے۔ کراچی کے لوگوں کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ اپنا سب کچھ لٹا کر یہاں پہنچے تھے۔ جس کا اپنا خطۂ زمین نہ ہو اسے احساس ہوتا ہے کہ ہم جائیں گے کہاں؟ بہت بڑا قدم تھا جو یوپی، بہار، بنگال اور اس طرح کی تمام جگہوں کے لوگوں نے اٹھایا، جنہوں نے پاکستان بنانے کے لیے اپنی تمام تر چیزیں قربان کردیں۔ یہاں انہیں خوش آمدید بھی کہا گیا۔ لیکن یہاں محرومیاں موجود تھیں، کوٹا سسٹم کراچی کا بڑا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے تعلیم اور ملازمتوں میں میرٹ کے باوجود ترجیح نہیں تھی، بلکہ محروم کردیا جاتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ابتدا میں بیوروکریسی میں زیادہ تر مہاجر تھے جنہوں نے اردو بولنے والوں کا کبھی بحیثیت کمیونٹی کام نہیں کیا، جبکہ دوسری کمیونٹی میں یہ ہوتا ہے کہ جب وہ کوئی کام کرتے ہیں اپنے گائوں کے لوگوں کو، اپنے خاندان کے لوگوں کو فیور دیتے ہیں۔ اس کو آپ اچھا کہیں یا برا سمجھیں، مہاجروں میں یہ چیز نہیں رہی، جس کی وجہ سے بحیثیت کمیونٹی نہیں اٹھ سکے۔ پھر کوٹا سسٹم تھا اور فوج میں بھی یہاں کے لوگوں کو نہیں لیا جاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں ایک لاوا تو پک رہا تھا، اس کا فائدہ اٹھایاگیا۔ اگرکوئی غلطی تھی تو حکمرانوں کی تھی جنہیں اس کا سدباب کرنا چاہیے تھا۔ باقی سندھ کا مسئلہ یہ تھا کہ وہاں سہولتیں نہیں تھیں، اس لیے انہیں کوٹا دے دیا گیا، اور انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے کوٹے کا محتاج بنادیا گیا۔ جن لوگوں نے یہ کام کیا، بہت سوچ سمجھ کر کیا۔ اس کے نتیجے میں لوگ تقسیم ہوئے۔ اور جب لوگ تقسیم ہوتے ہیں تو حکمرانوں کو حکومت کا موقع ملتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کراچی کے حکمرانوں نے تو کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا؟
حافظ نعیم الرحمٰن: جب ہم کسی شہر کی بات کرتے ہیں تو لوگ اپنے ماضی کی بات اس طرح کرتے ہیں کہ پہلے ہمارے ہاں تانگے چلا کرتے تھے اب یہاں ریل چل رہی ہے، گاڑیاں چل رہی ہیں اور بہترین سڑکیں ہیں۔ مثلاً لاہور کی بات کریں تو 90 کی دہائی میں مینارِ پاکستان کے سامنے والی سڑک پر تانگے چلاکرتے تھے، ایک گندگی تھی۔ بیس پچیس سال میں آج لاہور ایسا ہے کہ آپ وہاں سے گزریں تو لگتا ہے ایک جدید شہر سے آپ گزر رہے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس کام کراچی میں ہوا ہے۔ ہم اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ یہاں پر کے ٹی سی کی بسیں چلاکرتی تھیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہاں سرکلر ریلوے چلا کرتی تھی۔ کینٹ اسٹیشن کے لیے اسپیشل سروس ہوتی تھی۔ اسی طرح ایکسپریس بسوں کی سروس تھی۔ بڑی بڑی بسیں ہوتی تھیں، لوگ دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ ایک ایک کرکے تمام چیزیں ختم ہوتی چلی گئیں، ہر طرح کی سہولت اور ضرورت کے حوالے سے ہم پیچھے کی طرف گئے آگے نہیں بڑھے۔ یہ تو اس شہر کا نیٹ نقصان ہوا۔
تین بنیادی چیزیں تھیں جن پر ایم کیو ایم بنی تھی: ایک کوٹا سسٹم، دوسرا مہاجروں کو پانچویں قومیت دلانا، تیسرا محصورینِ پاکستان کو واپس لانا۔ تینوں چیزوں سے ایم کیو ایم پیچھے ہٹ گئی، اس کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ لیکن ان مسائل کے حل کے دعویدار ان مسائل اور ایشوز کو حل نہیں کرنا چاہتے بلکہ انہیں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ کراچی میں یہی کھیل ہوا، مسائل برقرار رکھے گئے، اس کی بنیاد پر تعصب کی ایک لہر بھی پیدا ہوئی، ایم کیو ایم نے بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل کی۔ الطاف حسین کا آئیڈیل مسولینی اور ہٹلر تھا، انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے اس فاشزم کے طریقے کی کاپی کرنے کی کوشش کی، اس کے نتیجے میں جو حالات بنے وہ سب کے سامنے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:لوگ کیا کریں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: اگر کراچی کے لوگ کسی ایک قوم میں پناہ لینے کی کوشش کریں گے تو کبھی بھی کراچی میں امن قائم نہیں ہوگا اور کامیابی بھی نہیں ملے گی۔ کامیابی صرف ایک صورت میں ملے گی کہ ایسی پارٹی ہو جو سب کو ساتھ لے کر چلے۔
فرائیڈے اسپیشل: قتل و دہشت گردی سے جہاں جانی و مالی نقصان ہوا ہے، وہیں علمی اور تہذیبی نقصان بھی ہوا ہے۔ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: جی، سب سے بڑا یہی نقصان ہوا ہے۔ پڑھی لکھی، مہذب، امن پسند کہلانے والی اردو کمیونٹی کی تہذیبی، علمی، سماجی اور معاشرتی شناخت ہی تبدیل ہوگئی۔ تعلیم اور قلم کے عنوان سے پہچانے جانے والے شہر اور شہر کے لوگ کانے، لولے، لنگڑوں کے نام سے مشہور ہوگئے، چند برسوں میں سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ رفتہ رفتہ علم کے چراغ بجھنے لگے اور جہل کے چراغ جلنے لگے۔ ایم کیو ایم نے مقابلہ کیا تو اس بات پر کیا کہ سندھی نقل کرتا ہے، مہاجر کیوں نقل نہ کرے!
فرائیڈے اسپیشل: آپ جب حال میں رہ کر ماضی کے کراچی کو دیکھتے ہیں تو آپ کو لگتا ہے کہ سحر ٹوٹا ہے؟ کراچی کے لوگوں کی سوچ اور عمل میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: بہت فرق آیا ہے، وہ لوگ جو کمبل کو نہیں چھوڑتے تھے، اب کمبل انہیں نہیں چھوڑ رہا۔ پہلے تو لوگوں نے یہ سمجھا ہوا تھا کہ یہی ہمارا ملجا و ماوا بن جائے گا اور ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ مسائل تھے اور ان مسائل کے اسباب بھی تھے، لیکن جب وہ مسائل حل نہیں ہوئے اور ایک دوسری طرف ہم چل پڑے تو ایک بڑی تعداد مہاجروں کی ایسی تھی جنہوں نے رجوع کرنا چاہا۔ دو سوال ان کے سامنے پھر آگئے کیونکہ ایم کیو ایم نے یہ تاثر دیا کہ مہاجروں کا تحفظ ایم کیو ایم ہی کرسکتی ہے۔ اس کی دہشت گردی، اس کی غنڈہ گردی مہاجروں کو تحفظ دے سکتی ہے۔ لوگوں نے ان دہشت گردوں سے تحفظ حاصل کیا، اور یہ دنیا میں ہوتا ہے کہ محلے میں جو غنڈہ ہوتا ہے لوگ اُس سے اپنا تعلق جوڑ لیتے ہیں، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ طاقتور ہے ہمیں بچاسکتا ہے، غنڈہ ہوگا یہ دوسروں کے لیے، ہمیں تو یہ تحفظ دیتا ہے۔ لیکن ایم کیو ایم نے محلے کے اس بدمعاش سے آگے بڑھ کر کام کیا۔ ایم کیو ایم نے محلے والوں پر ہی وار کرنا شروع کردیا۔ لیکن اب لوگوں کے پاس نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ دوسری بات یہ کہ بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوگئی جن کے سامنے ایم کیو ایم کی ساری چیزیں آگئیں۔ لیکن ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ دوسروں کے پاس کیسے جائیں! اس لیے مہاجروں کی وہ آبادیاں جنہیں ڈینسلی پاپولیٹڈ کہتے ہیں ان آبادیوں میں کوئی پارٹی باقی نہیں رہی۔ مہاجروں میں ایک مقبول پارٹی جے یو پی ہوا کرتی تھی، صاف ہوگئی۔ پیپلزپارٹی بھی کسی نہ کسی حد تک نظریاتی کارکن کی سطح پر موجود تھی، ختم ہوگئی۔ صرف جماعت اسلامی تھی جس کا کارکن موجود رہا، لیکن خوف بہت تھا اور اتنی کلنگ کی گئی کہ جو سیاسی اور سماجی طور پر اٹھنے لگا اس کو ختم کردیا گیا۔ لوگ کسی بھی پارٹی کے ساتھ اپنا تعلق رکھنے میں خوف محسوس کرنے لگے۔ ظاہر ہے جب سیاسی ماحول نہیں ہوگا، سیاسی ورکر نہیں ہوگا، سماجی کارکن نہیں ہوگا تو لوگ کہاں جائیں گے؟ پھر لوگ اسی بدمعاش کے پاس جائیں گے جو ان کو دستیاب ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد اس لیے ایم کیو ایم سے وابستہ ہے کہ ان کے پاس کوئی چوائس ہی نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ انہیں رہنا ہے۔ اچھا ہے تو اُن کے ساتھ ہیں، برا ہے تو اُن کے ساتھ ہیں۔ اس کا سبب اسٹیبلشمنٹ تھی جو ایم کیو ایم کو یہ طاقت فراہم کرتی رہی۔ ان 30 برسوں میں کم از کم تین مواقع ایسے آئے جب ایم کیو ایم فطری طور پر ختم ہوگئی تھی۔ ایک تو یہ طریقہ ہے کہ ایم کیو ایم میں حقیقی، مجازی بنادو، پی ایس پی بنادو۔ لیکن یہ پائیدار حل نہیں، بلکہ یہ چیزیں ایم کیو ایم کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان موقعوں میں ایک موقع 2002ء میں آیا جب امریکہ مخالف لہر بنی۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، اُس وقت کے حالات میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد بھی ہوگیا، اور ایم کیو ایم کا سحر ٹوت گیا تھا۔ پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کی قیادت نے ایگریسو ہوکر ایم کیو ایم کو ٹارگٹ کیا۔ لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ اگر آپ نے ایم کیو ایم کو ٹارگٹ کیا تو مہاجر آپ سے ناراض ہوجائیں گے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ مہاجروں نے تو بھر بھر کے ووٹ ڈالے۔ کیمپوں میں وہ ایم کیو ایم کے گئے اور ووٹ انہوں نے جماعت اسلامی کو دیے۔ چونکہ ایم ایم اے میں مہاجر آبادیوں میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی تھا ہی نہیں تو جماعت اسلامی کے لوگوں کو ووٹ ڈالے۔ وہ تو تین بجے کے بعد پرو یزمشرف ایم کیو ایم کو کھلی چھوٹ نہ دیتا تو ایم کیو ایم صرف 8 نشستوں پر نہیں ہارتی بلکہ 16 پر ہارتی، اور ایم کیو ایم اپنے فطری انجام کو صرف16 سے 17 سال میں پہنچ جاتی۔ لیکن پرویزمشرف نے اس کو سہارا فراہم کیا۔ وہ 20 میں سے 12 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ 8 سیٹیں اس کے ہاتھ سے ان کی موجودگی میں نکل گئیں۔ لوگ اس بات کو کوٹ نہیں کرتے کہ 2002ء میں ایم کیو ایم 8 سیٹیں ہار گئی تھی، پرویزمشرف نے ایم کیو ایم کو دوبارہ طاقت فراہم کی اور اداروں میں جگہ دی، اس کو مکمل سپورٹ کیا اور ایم کیو ایم کی دہشت گردی کو پیٹرنائزکیا۔ 2005ء دوسرا موقع تھا جس میں ایک لہر بن گئی کہ نعمت اللہ کو دوبارہ آنا چاہیے۔ ایم کیو ایم کے وہ ووٹر اور سپورٹر جو ایم کیو ایم کو کسی وجہ سے اُس وقت بھی سپورٹ کررہے تھے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک موقع اور نعمت اللہ کو مل گیا تو یہ شہر بدل جائے گا۔ اس لہر میں بلدیاتی انتخاب ہوئے اور لوگوں نے خان صاحب کے نمائندوں کو ووٹ ڈالا تو کسی طرح سے ان کا مینڈیٹ ختم کیا گیا۔ ایک تو دہشت گردی اور جبری طور پر بہت بڑی تعداد میں اداروں میں ایم کیو ایم کے ورکرز بھرتی کیے تھے، ان سب کو استعمال کرکے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کیے گئے، اس کے علاوہ دوسری پارٹیوں، خاص طور پر جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹوں کو نکالا گیا، اور ٹھپے مارے اور ووٹ بھرے گئے، اس کے بعد گنتی ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس کے باوجود وہ ہار گئے ہیں تو پھر نتائج تبدیل کیے گئے۔ اس کے باوجود ایم کیو ایم 25 یونین کونسلیں ہار گئی۔ ایم کیو ایم کے بارے میں اگر یہ تاثر ہے کہ وہ مقبولیت کے لحاظ سے اسی جگہ پر کھڑی ہوئی ہے تو میں اس تاثر کو نہیں مانتا، اور میں حقائق کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس کی وہ پوزیشن نہیں ہے۔ 2013ء میں ایم کیو ایم پی ٹی آئی کی لہر کے نتیجے میں ہار رہی تھی۔ اس میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک تھا اور جماعت اسلامی کا ووٹ بینک تھا جسے اس نے ری چارج کردیا تھا۔ اس کے نتیجے میں لوگ جماعت کو ووٹ ڈال رہے تھے، پی ٹی آئی کی پورے ملک کی لہر تھی جس کا کراچی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ چونکہ عمران ایک سیلبرٹی کے طور پر سیاست میں ابھر کر سامنے آئے اور پورے ملک میں ان کی مقبولیت تھی، لوگوں نے سوچا کہ اب پورے ملک کی تقدیر بدلنے جارہی ہے، اس لیے کراچی کے لوگوں نے اور کراچی کے مہاجروں نے پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالا یا جماعت اسلامی کو ووٹ ڈالا۔ ایم کیو ایم کو بھی ڈالا۔ لیکن وہ اتنا نہیں تھا۔ لیکن کیا ہوا؟ دوپہر میں ایسے حالات ہوگئے کہ جماعت اسلامی نے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔ بائیکاٹ کے پلس مائنس ہوتے ہیں لیکن میں اس پر بات نہیں کرتا، لیکن سیاسی دنیا میں احتجاج کا یہ بھی رائج طریقہ ہے۔ اس کو جماعت نے اختیار کیا۔ پھر شام کو رزلٹ یہ نکلا کہ جہاں لوگوں نے لائنیں لگا لگا کر اور بھر بھر کر ایم کیو ایم کے خلاف ووٹ ڈالے تھے ایم کیو ایم کے ووٹ ان سے چار چار اور پانچ پانچ گنا زیادہ نکلے… ایک لاکھ 87 ہزار، اور ایک لاکھ 49 ہزار۔ بعض جگہ تو رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ووٹ نکل آئے۔ تین مواقع صرف 6 سال کی مدت میں ایسے آئے جب ایم کیو ایم اپنے فطری انجام کی طرف جارہی تھی، اس کو پھر سہارا دے دیا گیا۔ اسی پر بس نہیں کیا جاتا تھا، یعنی اگر واٹر بورڈ میں 14 ہزار لوگ ہیں تو ان میں سے 9 سے 10 ہزار ایم کیو ایم کے بھرتی کیے ہوئے لوگ ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم اس خوف کی نفسیات کے ساتھ سیاست کریں کہ مہاجروں کا سارا ووٹ ایم کیو ایم کا ہے، اور ایسی کوئی بات نہ کریں جس کے نتیجے میں ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے تو ہم کبھی بھی اس شہر میں اپنا مقام حاصل نہیںکرسکیں گے۔ ہمیں کراچی کے لوگوں کا دکھ درد بانٹنا ہوگا۔ کراچی کے حقیقی مسائل پر بات کرنا ہوگی۔ اس شہر کی اونرشپ لینی ہوگی۔
فرائیڈے اسپیشل:کراچی کی سیاسی اونرشپ کا مستقبل کیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: کراچی کی ڈیموگرافی بہت اہم ہے۔ کچھ علاقوں میں پختون آباد ہیں، کچھ سندھی آبادیاں ہیں، کچھ پنجابی آبادیاں ہیں۔ کراچی امیبا کی طرح بڑھ رہا ہے۔ کراچی سمندر میں نہیں جاسکتا، بس سمندر کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ہر طرف پھیل رہا ہے۔ آبادی کا ایک بہت بڑا ٹرسٹ ہے جو یہاں ہے۔ اس آبادی کے ٹرسٹ کو ہر لحاظ سے چینج کرنا ہوتا ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے اور سیاسی اعتبار سے بھی مینج کرنا ہوتا ہے، اور یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کراچی کی اونرشپ کوئی نہیں لیتا، اسی سے ایم کیو ایم کو فائدہ ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کی سیاسی طور پر کامیابی تھی کہ وہ یہ بات منوانے میں کامیاب ہوگئی کہ ایم کیو ایم اور کراچی ایک ہی چیز ہیں۔ اس کا نقصان کراچی کے لوگوں کو ہوا۔ کوئی ایسی پارٹی جو تمام آبادیوں کی نمائندگی کرتی ہو وہ جماعت اسلامی ہے۔ آپ ایم کیو ایم کی بات کررہے ہیں، یہاں سندھ کا وزیراعلیٰ کراچی کو اون نہیں کررہا۔ پرویزمشرف کے زمانے میں وزیراعلیٰ کا کراچی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ طے ہوگیا تھا کہ ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد کے تمام معاملات کو دیکھے گی، بقیہ سندھ کو پرویزمشرف کے نمائندے دیکھیں گے چاہے ارباب رحیم ہو یا مہر ہوں۔ اس طرح گورنر عشرت العباد کے حوالے تھا کراچی اور حیدرآباد انتظامی اعتبار سے۔ الیکشن کمیشن کی میٹنگ تک ان کے دفتر سے ہوتی تھیں۔ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا ان کا اثر رسوخ تھا۔ اسی طرح کوئی وزیراعظم اس کو اون نہیں کرتا۔ وزیراعظم کا شہر لاہور ہے اور وزیراعظم کا شہر کبھی ڈیرہ مراد جمالی ہوتا ہے۔ وزیراعظم اپنے شہروں کو اون کرتے ہیں، کراچی کو اپنا شہر نہیں سمجھتے۔ ساڑھے تین سال میں کتنے دن نوازشریف صاحب نے کراچی کو دیے؟ اور دیے ہیں تو کس طرح دیے ہیں؟ آئے، افتتاح کیا اور چلے گئے۔ ایک دو میٹنگ کیں اور چلے گئے۔ مراد علی شاہ صاحب آئے، لیکن اتنی بیڈ گورننس ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی کراچی کو ٹھیک نہیں کر پا رہے۔ جہاں سڑکیں ٹھیک نہ ہوں، گٹر کا پانی کھڑا ہو، پانی بجلی کے مسائل ہوں، وہاں لوگ منفی بنیادوں پر اپنی رائے قائم کریں گے۔ یہ اونرشپ کیسے لی جائے گی۔ ایم کیو ایم کی طرز سیاست اونر شپ دلا سکتی ہے؟ اگر دلا سکتی تو 30 سال میں دلا چکی ہوتی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ تو ہوگیا فیل، ہاں نعمت اللہ خان نے اونر شپ دلائی، صرف 4 سال کی مدت میں انہوں نے وفاق کو بھی انگیج کرلیا تھا، صوبے کو بھی انگیج کرلیا تھا، جتنے اسٹیک ہولڈر تھے ان سب کو انگیج کرلیا تھا، اور کراچی کی تمام آبادیوں میں چاہے وہ مہاجر، پنجابی، پٹھان یا بلوچ ہوں، تمام یونین کونسلوں میں فنڈ برابر تقسیم کیے۔ جب خان صاحب آئے تھے ان کے پاس تقریباً وہی اختیار تھے جو آج ایم کیو ایم کے میئر کے پاس ہیں۔ اختیار سے سب کچھ نہیں ہوتا، دل سے کام ہوتا ہے۔ اور کام کرنے سے کام ہوتا ہے۔ انہوں نے کام کیا تو اختیار ملے۔
فرائیڈے اسپیشل : ایم کیو ایم کی حقیقت اور اس کی دہشت گردی قیام کے ساتھ ہی سامنے آگئی تھی۔ جماعت اسلامی واحد جماعت تھی جس نے ایم کیو ایم کی دہشت گردی کی مخالفت کی، لیکن تاثر یہ قائم ہوا کہ جماعت اسلامی مہاجر قوم کے خلاف سامنے آئی ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: یہ تاثر شکست خوردہ ذہنوں کا تاثر تھا۔ دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ ہیں جنہوں نے ہر طرح کے حالات میں کام کیا ہے اور شکست کو کبھی ذہنی طور پر قبول نہیں کیا، اپنے آپ کو حق پر سمجھا ہے اور کھڑے رہے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو تاثر کی بنیاد پر رائے قائم کرلیتے ہیں۔ 2002ء میں ہم نے ایم کیو ایم کے خلاف 5 سیٹیں جیتی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم نے بہت کھل کر ایم کیو ایم کے خلاف مہم چلائی تھی۔ مہاجر آبادیوں سے ہمیں ووٹ ملے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مہاجر اس پر ناراض نہیں تھے کہ آپ نے ایم کیو ایم کی مخالفت کی۔ ان کو جب بھی امید کا پیغام یا جیتی ہوئی پارٹی نظر آئی ہے انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف ووٹ ڈالا ہے۔ اگر آپ تسلیم کریں گے کہ سارے مہاجر ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں تو کچھ نہیں کرسکیں گے۔ دوسری بات یہ کہ ہماری کوئی بات بھی بلاجواز نہیں ہے۔ ہم نے لاجک کی بنیاد پر مخالفت کی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ایم کیو ایم تعصب کی بنیاد پرکھڑی ہورہی ہو اور جماعت اسلامی یہ کہے کہ ایم کیو ایم کو کام کرنے دیا جائے۔ جبکہ حقائق یہ ہیں کہ جب ایم کیو ایم جیت گئی تو جماعت اسلامی کی قیادت نے اس کو پورے تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔ لیکن ایم کیوایم نے تعاون قبول نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا کہ آپ اپنا کام ختم کردیں۔ اس لیے یہ بھی درست نہیں کہ جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کی ایسی مخالفت کی ہے کہ کبھی ان سے بات نہیں کی۔ ایم کیو ایم لسانیت کی بنیاد پر سیاست کررہی تھی اس لیے اس نے یہ تاثر دیا تھا کہ جماعت اسلامی مہاجر دشمن ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: پہلے یہ بات اشاروں کنایوں میں کہی جاتی تھی کہ ایم کیو ایم کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے، لیکن گزشتہ دنوں ٹی وی کے ذریعے، متعلقہ فریقوں نے جو ’’انکشافات‘‘ کیے ہیں اُن سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو برقرار رکھنے کے لیے کام کررہی ہے۔ جماعت اسلامی اس صورت حال میں کیا سوچ رہی ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: جس طرح تمام چیزیں کھل کر سامنے آگئی ہیں اس کے نتیجے میں ایک بڑا سوال عوام اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آگیا ہے۔ یہ تاثر قائم ہوجانا اور اس کا ٹی وی پر اعلان ہوجانا کہ اسٹیبلشمنٹ ان پارٹیوں کو کھڑا کررہی ہے، اکٹھا کررہی ہے، یہ پاکستان کی فوج کے لیے بھی نقصان دہ ہے، قوم کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس حوالے سے نہ صرف اپنی پوزیشن کو واضح کرنا ہوگا بلکہ اپنے عمل کے ذریعے اس بات کا اظہار کرنا ہوگا کہ وہ مجرموں کے ساتھ نہیں۔ اور وہ مجرموں کو دھونے کی کوئی فیکٹری قائم نہیں کررہی۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ اس لیے تو نہیں ہورہا کہ قومی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ایم کیو ایم کی طرح کی پارٹیوں کو اسٹیبلشمنٹ کے لیے کنٹرول کرنا زیادہ آسان ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: اس طرزعمل سے یہی تاثر جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا چاہیے کہ نقصان کس کا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس ساری صورت حال میں جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہے اور کیا کررہی ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: جس طرح میڈیا میں آپ کو حصہ مل رہا ہے ایسی صورت حال میں اپنے آپ کو برقرار رکھنا اور اپنے وجود کا اظہار مشکل کام ہوتا ہے۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کے پاس جو سب سے بڑی طاقت ہے وہ اس کا نظریہ ہے، اس کی تنظیم ہے۔ اپنے نظریے کی بنیاد پر طوفانوں کا مقابلہ کیا اور الحمدللہ موجود ہیں، اور تنظیم نے استقامت دکھائی ہے۔ اب مرحلہ ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اور اس کے کارکن اپنے مؤقف میں بھی ثابت قدمی دکھائیں اور اپنے کام میں بھی تیزی لائیں۔ اس وقت ہماری رابطہ عوام مہم میں اچھا رسپانس مل رہا ہے اور میڈیا میں کچھ نظر نہیں آرہا۔ ہم اپنی اس مہم کے ذریعے چاہتے ہیں کہ لوگوں کے پاس واضح ہوکر چوائس آئے کہ اس شہر کے مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔یہ بات میں حقائق کی بنیاد پر کررہا ہوں۔ پیپلزپارٹی کا ماضی سب کے سامنے ہے، یہ کبھی کراچی کے شہریوں کی چوائس نہیں بن سکتی۔ مسلم لیگ (ن) نے کبھی کوشش ہی نہیں کی حالانکہ اس کو مواقع ملے تھے۔ پی ٹی آئی سے لوگوں کو امید ہوئی تھی کہ شاید پی ٹی آئی ایم کیو ایم کا متبادل بنے گی۔ لیکن پی ٹی آئی نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ کراچی سے اس کا بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ الیکشن میں انہوں نے کامیابی حاصل کی لیکن اس کے بعد پلٹ کر بھی نہیں پوچھا۔ بلدیاتی الیکشن میں ہم نے ان سے ایڈجسٹمنٹ کی لیکن اپنی مقبولیت سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ہم نے یہ دروازہ بند نہیں کیا ہے، اگر کوئی بات چیت ہوسکتی ہے تو ہم بات آگے بڑھا سکتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کراچی کے مسائل کا نہ ادراک رکھتی ہے اور نہ حل کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی ہی وہ پارٹی ہے جو سب کو ساتھ لے کر چل سکتی ہے اور کراچی کے مسائل کا ادراک بھی رکھتی ہے اور انہیں حل بھی کرسکتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایم ایم اے کی ممکنہ بحالی کو کراچی کی سیاست اور جماعت اسلامی کے لیے کس طرح دیکھ رہے ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: مذہبی جماعتوں اور اکائیوں کے ساتھ جماعت اسلامی نے کراچی میں ہمیشہ بہت اچھی ایکویشن بنائی ہے۔ تمام مسلکی اختلافات سے بالاتر ہوکر تمام علماء سے ہم نے سرپرستی حاصل کی ہے اور مشترکات پر مل کر کام بھی کیا ہے۔ ہمارا علماء کنونشن کسی مسلک کا کنونشن نہیں تھا۔ تمام مذہبی جماعتیں اور اکائیاں اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ اتحاد اس کو مزید بڑھائے گا۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے بہت سارے سوالات رہے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات دینے بھی ہوں گے اور ان کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی بات کہنے کے لیے مسجد و محراب میں ایکسس ملتا ہے۔ بہت بڑا مذہبی طبقہ ایسا ہے جو سیاسی عمل سے لاتعلق رہتا ہے۔ کوئی اتحاد سامنے آتا ہے تو یہ مذہبی طبقہ اپنا متحرک کردار ادا کرتا ہے۔ اختلاف بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود جب مجموعی طور پر دیکھا جاتا ہے تو کرپشن کے حوالے سے ایک آدمی بھی مذہبی جماعتوں کا سامنے نہیں آتا۔ پاناما پیپرز میں مذہبی جماعتوں کا کوئی فرد نہیں ہے۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں کے لوگوں نے پارلیمنٹ میں بہترکردار ادا کیاہے۔ میرے خیال میں کراچی میں اس کا اثر پڑے گا اور شہر کو اس کا فائدہ ہوگا۔ ہم دونوں حوالوں سے تیاری کررہے ہیں کہ جماعت اسلامی کو تنہا الیکشن لڑنا پڑا تو عوام میں اتنا نفوذ ہونا چاہیے کہ ہم اچھے نتائج حاصل کرسکیں۔ اس میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد شامل ہوجائے گا تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل:موجودہ حالات میں کراچی کے عوام سے کیا توقع رکھتے ہیں اور انہیں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: کراچی کے عوام کو ہمارا پیغام یہ ہے کہ اپنے آپ کو تنہا کردینا، دنیا سے، امت سے، پاکستان سے کٹ جانا… اس نے ہمیں فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ نقصان پہنچایا ہے۔ بند گلی کی سیاست نے ہمیں برباد کردیا ہے۔ کراچی کے عوام اس سوچ کو تبدیل کریں، اس سے باہر نکلیں اور سیاسی، سماجی اور تہذیبی اعتبار سے اُن لوگوںکا ساتھ دیں اور اُن لوگوں کو مضبوط کریں جو آپ میں وسعت پیدا کرتے ہیں۔ اس سے بڑی تبدیلی آئے گی۔ یہ جماعت کا بھی چیلنج ہے کہ وہ لوگوں کے نقطہ نظر کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کراچی کے شہری تنہا ہیں اور ان کو سہارا دینے والا کوئی نہیں۔ میں جماعت اسلامی کے کارکن اور ذمے دار کی حیثیت سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کراچی کے لوگوں کو تنہا نہیں ہونے دیں گے۔ اگر کراچی کے لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا اور جتنا بھی کیا تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم ان کی آواز بنیں گے اور ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلائیں گے۔ ہم دل سے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کراچی نے اپنا بہت نقصان کرلیا ہے۔ ہم کراچی کی آواز ہیں اور بننا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس شہر کی خدمت کی ہے۔ ہم یہ بات ہوائوں میں نہیں کررہے، میدان میں رہتے ہوئے یہ بات کررہے ہیں۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ لوگوں کو بھی اپنے رویوں کو بدلنا چاہیے، انہیں بھی سوچنا ہوگا کہ 33 سال کے اس سارے عمل میں کیا کھویا، یا کیا پایا؟ اب جبر کا وہ دور نہیں کہ دہشت گردی کی بنیاد پر کوئی ووٹ لے لے۔ 30 سال کے خوف نے ایک نفسیات بنادی ہے۔ اب بھی بہت ساری آبادیاں ایسی ہیں جہاں خوف کا ماحول ہے۔ یہ خوف بھی ہم کو توڑنا ہے۔ عوام کو یہ حوصلہ دینا ہے کہ ایک دن آپ کا ہے اور آپ کو فیصلہ کرنا ہے، اس میں آپ ہی کی بہتری ہوگی۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں سے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ اپنی 30 سال کی جدوجہدکے جو مراحل تھے اس کے تقاضے پورے کیے ہیں اور اس پر ہم اللہ کاشکر ادا کرتے ہیں، اب جو تقاضے ہیں وہ اس سے آگے کے ہیں اور وہ تقاضے یہ ہیں کہ ہم اپنے دلوں کو وسیع کریں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر چلیں، ہمارے تنظیمی دفتر عوامی دفتر ہونے چاہئیں۔ تنظیمی اجتماعات میں عوامی ایجنڈے ہونے چاہئیں، ساتھ ساتھ نظریاتی ایجنڈا بھی ہونا چاہیے۔ گلی محلے کی سطح پر کمیٹیاں بنائیں، کھیل اور تعلیم کے لیے کام کریں۔ ہم یہ کرتے بھی ہیں۔ اس کے ساتھ لوگوں پر مختلف اداروں مثلاً نادرا میں بہت ظلم ہورہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، کے الیکٹرک کا مسئلہ ہے، پانی کا مسئلہ ہے، ان سب اداروں سے بھی اچھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں تاکہ لوگوں کو ریلیف ملے اور عوام کے ساتھ مل کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ ہم نے کے الیکٹرک کا ایشو اٹھایا اور اس پر ہمیں بہت پذیرائی ملی۔ اس پذیرائی کو لوگوں کی سیاسی رائے میں تبدیل ہونا چاہیے۔ ہم اول تا آخر نظریاتی تحریک ہیں، کارکنوں کو نظریاتی طور پر اپنی بنیادوں کے ساتھ جڑنا ہو گا۔