نواز شریف کی سیاست میں ’’ٹکرائو‘‘ کی پالیسی

سابق وزیراعظم نوازشریف نے ایبٹ آباد کے جلسے سے ایک بار پھر اپنی دھواں دھار سیاست کو آگے بڑھایا ہے، اور لگتا ہے کہ ان کے اندر نااہلی کا دکھ بڑا واضح ہے۔ یہ امر فطری ہے، اور یقینی طور پر ایک طاقتور حکمران کے طور پر نوازشریف کے لیے اپنی نااہلی کو قبول کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس جلسے میں نوازشریف کا لب و لہجہ بتارہا ہے کہ وہ آسانی سے گھر نہیں بیٹھیں گے اور اُن لوگوں یا پسِ پردہ قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے جنہوں نے ان کے خلاف سازش کی ہے۔ نوازشریف عدالتی فیصلے کے بجائے عوامی فیصلے پر زیادہ زور دے رہے ہیں، اور ان کے بقول اب بھی وہ عوام کے ایک مقبول لیڈر ہیں۔ ان کے مطابق اس کا ثبوت وہ آنے والے انتخابات میں دیں گے کہ عوام عدالتی فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں یا ان کے ساتھ؟ ایبٹ آباد کے جلسے میں ان کا غصہ بھی نمایاں تھا اور ان کے لہجے کی تلخی بھی ظاہر کررہی تھی کہ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
بنیادی طور پر سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن)کے سربراہ ابھی تک اپنے خلاف نااہلی کے عدالتی فیصلے سے باہر نہیں نکل سکے۔ نوازشریف کا لب ولہجہ بتارہا ہے کہ وہ نہ صرف صدمے کی حالت میں ہیں بلکہ اس کو سیاسی و قانونی طور پر بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کے لہجے میں تلخی بڑھ رہی ہے۔ یہ تلخی محض فیصلے تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ براہِ راست فیصلہ کرنے والے فریقین کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ان کے بقول ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناکر دیوار سے لگانا مقصود ہے۔ اگرچہ انہوں نے قانونی محاذ پر اپنے بچائو کے لیے کچھ راستے بھی اختیار کیے، لیکن ان کو کوئی قانونی ریلیف نہیں مل پایا۔ وہ یقینی طور پر ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار ہیں اور یہ مشکل ان کو ماضی کی مشکلات سے زیادہ بڑی نظر آتی ہے جہاں ان کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ ماضی میں بھی ان پر الزامات لگتے رہے ہیں لیکن اس طرح سے عدالتی اور سیاسی محاذ پر ان کی ساکھ کو ٹھیس نہیں پہنچی جس طرح اب پہنچی ہے۔ یہ معاملہ محض ان کی ذات تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کا پورا خاندان عتاب میں نظر آتا ہے۔
ایک حالیہ بیان میں انہوں نے ایک دفعہ پھر اپنی نااہلی اور جاری مقدمات کے حوالے سے خاصی تلخ باتیں کی ہیں۔ اول، انہوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت اور ججوں پر دہرے معیار کا الزام لگایا ہے۔ نوازشریف کے بقول ان کے ساتھ عدالت اور جج انصاف نہیں کررہے بلکہ انتقام لے رہے ہیں۔ دوئم، ان کے بقول عدالتی فیصلوں اور ریمارکس میں جج جو کچھ کہہ رہے ہیں یا جو زبان استعمال کی جارہی ہے وہ وہی زبان ہے جو ان کے سیاسی مخالفین ان کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ سوئم، ان کے خلاف احتساب کا جو عمل جاری ہے وہ ڈراما ہے، اور اس کا مقصد جبری بنیادوں پر ان کو سزا دلوانا ہے۔ چہارم! ان کے بقول یہ جو کچھ ان کے خلاف ہورہا ہے یا جو سزا دی جارہی ہے وہ سزا عدالت نہیں دے رہی بلکہ ان سے جبری بنیادوں پر کوئی اور دلوا رہا ہے، یقینی طور پر ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔ پنجم، ان کو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر عمل نہ کرنے یا ان کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ ششم، وہ عدالتی فیصلے کو رد کرکے سیاسی فیصلے یا عوامی حمایت کی بات کرکے پورے عدالتی نظام کو ہی چیلنج کررہے ہیں۔
نوازشریف اور مریم نواز بنیادی طور پر اسی بیانیہ کو بنیاد بناکر ملکی اور غیر ملکی دونوں سطحوں پر اپنا مقدمہ سیاسی مخالفین، اداروں، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف پیش کررہے ہیں۔ نوازشریف کی بیٹی مریم نواز جو خود بھی جارحانہ مزاج رکھتی ہیں، کے بقول ہم ابھی خاموش ہیں اور اگر ہماری زبان کھلی تو کئی پس پردہ قوتیں یا ادارے بے نقاب ہوں گے، اور ہماری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ نوازشریف اور مریم نواز کو اپنے سیاسی مخالفین اور اداروں سے تو گلہ ہے ہی، لیکن اب بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ ان کی اپنی جماعت ان کی مزاحمت میں اس انداز سے ان کے ساتھ نہیں کھڑی جیسے وہ دیکھنا چاہتے تھے۔ نوازشریف کو پارٹی کی مجموعی طاقت سے یہی پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ اپنی نااہلی کے اس فیصلے کو قبول کرکے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ لیکن نوازشریف مفاہمت کی اس سیاست سے انکاری ہیں اور جو لوگ ان کو مفاہمت کا مشورہ دے رہے ہیں ان کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی، بلکہ ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے جس سے مفاہمت کی سیاست کا عمل پیچھے رہ گیا ہے۔
لیکن نوازشریف سمجھتے ہیں کہ اگر وہ خاموش رہتے ہیں تو ان کو اور زیادہ نہ صرف قانونی سختیوں کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ سیاسی طور پر بھی ان کی سیاسی نظام اور جماعت پر گرفت کمزور ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف نااہلی کے بعد دوبارہ پارٹی کے صدر بنے ہیں بلکہ ایک سطح پر حکومتی نظام سمیت وزیراعظم کو بھی کنٹرول میں کیے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اگر حکومتی نظام یا وزیراعظم مضبوط ہوئے تو اس سے ان کو سیاسی نقصان ہوگا۔ نوازشریف سیاسی محاذ پر کوئی معمولی انسان نہیں۔ وہ تین بار وزیراعظم رہے اور دو بار وزیراعلیٰ پنجاب۔ اور خود ان کے بھائی تواتر سے پنجاب کی حکمرانی پر کنٹرول کیے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا معمولی واقعہ نہیں۔ نوازشریف نہ صرف سیاسی کنٹرول رکھتے تھے بلکہ انتظامی اور ادارہ جاتی کنٹرول کو بنیاد بناکر وہ ایک طاقتور حکمران سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کو اپنی نااہلی کا یقین نہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ اداروں میں اتنی جرأت کہاں کہ وہ یہ فیصلے کرسکیں! کیونکہ اداروں کو جس انداز سے نوازشریف کی حکمرانی نے کنٹرول کیا ہوا تھا اُس میں قانون کی حکمرانی کم اور فرد کی حکمرانی کا تصور زیادہ مضبوط تھا۔
اب حکمران جماعت اور خود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں نوازشریف کو بھی راضی رکھا جائے اور اداروں کو بھی یہ پیغام دیا جائے کہ ہم ان سے ٹکرائو نہیں چاہتے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں۔کیونکہ اس وقت حکومت عملی طور پر نوازشریف کے دبائو کی وجہ سے ایک بڑی سیاسی الجھن کا شکار ہے کہ وہ کیا ایسا کرے کہ دونوں کو راضی رکھا جاسکے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کا لہجہ بدستور روزانہ کی بنیاد پر خود حکومت کو بھی اداروں کے سامنے ایک کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز نے جو انداز اختیار کیا ہوا ہے اُس سے خود اداروں کے اپنے اندر بھی ان کے خلاف سخت ردعمل پایا جاتا ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اداروں کے طرزعمل میں بھی تلخی ہے اُن سے عرض ہے کہ اس کی وجہ بھی جوابی ردعمل کی سیاست ہے۔
مسلم لیگ (ن) میں چودھری نثار علی خان اور شہبازشریف سمیت جنہوں نے بھی نوازشریف کو مفاہمت کا مشورہ دیا اُن پر اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی ہونے کا الزام لگایا گیا۔ چودھری نثار کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ہے، لیکن یہی چودھری نثار جب اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کے درمیان ایک مفاہمت کار کا کردار ادا کرتے تھے تو نوازشریف کے لاڈلے سمجھے جاتے تھے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز بغیر کسی تفریق کے براہِ راست عدلیہ، ججوں، نیب، اداروں کے سربراہان اور اسٹیبلشمنٹ پر کھل کر تنقید کررہے ہیں تو اس سے اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی سے کیسے گریز کیا جائے گا! جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ نوازشریف اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی نہیں اختیار کریں گے، ان کو بھی ناکامی کا سامنا ہے۔
اگرچہ مسلم لیگ (ن) ابھی نوازشریف کی قیادت میں متحد ہے، لیکن اس متحد ہونے کے پیچھے بھی کئی کہانیاں سیاسی محاذ پر زیربحث ہیں۔ ایک تقسیم تو بظاہر سب دیکھ رہے ہیں۔ یہ جو تقسیم کے عمل سے بچے ہوئے ہیں اس کی وجہ بھی اس جماعت کی حکومت میں موجودگی ہے۔ نوازشریف کے ساتھ ان کا اقتدار بھی ختم ہوتا تو صورت حال خاصی مختلف ہوسکتی تھی۔ اداروں کی خودمختاری کے حوالے سے بھی ایک مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف اس بیانیہ کی مدد سے خود قومی اداروں جن میں خاص طور پر عدلیہ، جج صاحبان اور فوج شامل ہے، کو ملکی اور غیر ملکی دونوں سطحوں پر متنازع بنارہے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک نوازشریف کے بیانیہ یا لب و لہجے کا عدلیہ، ججوں یا فوج نے براہِ راست جواب نہیں دیا، لیکن اب جو صورتِ حال بن رہی ہے اُس میں اس امکان کو بھی خارج نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ادارے بھی جوابی ردعمل دیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا اس جمہوری سیاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
نوازشریف کو اگر لگتا ہے کہ قانون اور قانونی ادارے اُن کے ساتھ انصاف نہیں کررہے تو اس کا راستہ بھی قانون کے اندر ہی تلاش کرنا ہوگا۔ یہ حکمتِ عملی درست نہیں کہ قانونی اداروں کی ساکھ کو بنیاد بناکر ایسا بحران پیدا کیا جائے جو ایک بڑے قانونی اور سیاسی بحران کو پیدا کرنے کا سبب بنے۔ نوازشریف کے وہ ساتھی جو ان کو بار بار مزاحمت کی طرف لارہے ہیں، وہ نہ تو ان کے خیرخواہ ہیں اور نہ ہی اس موجودہ حکومت یا سیاسی نظام کے۔ یہ جو فردِ واحد کو بنیاد بناکر سیاسی نظام کو جانچنے یا کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس میں بعض اوقات سیاسی نظام کو کمزور اور فرد کو طاقتور بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ نوازشریف اگر اپنی موجودہ سیاسی حکمت عملی پر کاربند رہے اور اسی تلخ انداز میں اپنے خیالات پیش کرتے رہے تو اس سے اُن کی موجودہ مشکلات کم نہیں ہوں گی بلکہ مزید بڑھیں گی۔
نوازشریف یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اس ناانصافی کے خلاف بڑی جدوجہد کریں گے۔ یقینی طور پر یہ اُن کا سیاسی حق ہے۔ لیکن اس جدوجہد یا لڑائی کو وہ سیاسی تنہائی میں نہیں لڑسکیں گے۔ اس کے لیے انھیں اپنا اور اپنی جماعت کا داخلی جائزہ بھی لینا چاہیے اور جانچنا چاہیے کہ اصل میں وہ کہاں کھڑے ہیں اور کون ان کے ساتھ کھڑا ہے۔کیونکہ وہ اپنے ہی سیاسی محاذ پر زیادہ تنہا نظر آتے ہیں اور ان کے جلسوں میں ان کی جماعت کے اہم افراد بھی منظر سے غائب نظر آتے ہیں۔ اس لیے اگر وہ مزاحمت چاہتے ہیں تو ان کو اپنی سیاسی جماعت کو بھی اپنے ساتھ کھڑا کرنا ہوگا، جو اس وقت ان کی مزاحمت کی سیاست سے زیادہ ایک محفوظ راستے کی تلاش میں ہے، لیکن نوازشریف اس میں خود رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔