امریکی خواتین مجرمانہ حملوں کا شکار

نیویارک سے ڈیموکریٹک پارٹی کی سینیٹر محترمہ کرسٹن گلبرانڈ(Kristen Gilbrand) اور انھی کی پارٹی کی رکن کانگریس (قومی اسمبلی) محترمہ جیکی اسپیر(Jackey Speier) نے Member and Employee Training and Oversight On Congress یا ME TOO Congress ACT پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس قانون کا مقصد امریکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں یعنی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے ارکان اور وہاں کام کرنے والے افراد کی تربیت اور ان کی نگرانی کو یقینی بنانا ہے۔ اس مسودۂ قانون کا مقصد قانون یا پارلیمانی روایات کی تربیت نہیں بلکہ سینیٹ و ایوانِ زیریں کی صنفِ نازک کا تحفظ ہے، جو تازہ ترین انکشافات کے مطابق ہر شعبۂ زندگی میں مجرمانہ حملوں کا شکار ہیں یا جنسی طور پر ہراساں کی جارہی ہیں۔ کام کی جگہوں پر خواتین کو جنسی طور پر منظم انداز میں ہراساں کرنے کا پہلا بڑا انکشاف اِس سال اکتوبر میں ہوا جب ہالی ووڈ کی بہت سی اداکارائوں اور ماڈلز نے مشہور فلمساز ہاروی وائنسٹین (Harvey Weinstein) پر دست درازی اور پیش دستی سے بڑھ کر آبروریزی کے الزام لگائے، اور اتنی بڑی تعداد میں خواتین سامنے آئیں کہ ہاروی صاحب کے لیے تردید کی گنجائش نہ رہی۔ ہاروی نے نیویارک کے ایک بااثر یہودی خاندان میں جنم لیا۔ ان کے والد ہیرے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ ہاروی نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز اسٹیج ڈراموں سے کیا اور خاندانی اثررسوخ اور دولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت جلد چوٹی کے فلمساز بن گئے۔ موصوف سیاسی طور پر بہت سرگرم اور خواتین کے حقوق کے پُرجوش حامی ہیں۔ انھوں نے محترمہ شرمین عبید چنائے کو ہالی ووڈ میں متعارف کروایا اور دستاویزی فلموں کی تیاری میں چنائے صاحبہ کی مدد کی۔ ہاروی اسکینڈل کے عام ہونے پر سماجی کارکن ترانا برک (Tarana Burke) اور ایکٹریس و گلوگارہ الیسا ملانو (Alyssa Milano) نے ٹویٹ پر #ME TOO کے نام سے تحریک شروع کی اور دنیا بھر کی خواتین کو دعوت دی گئی کہ اگر وہ زندگی میں کبھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنائی گئیں یا ہراساں کی گئی ہیں تو وہ اس Hashtagپر اعتراف کریں کہ ’’میں بھی زیادتی کا نشانہ بنی ہوں یا ہراساں کی جارہی ہوں‘‘۔ ایک اطلاع کے مطابق صرف امریکہ سے لاکھوں خواتین نے کہا کہ وہ اسکول، کالج، جامعات یا آفس کی جگہوں پر کبھی نہ کبھی ضرور ہراساں کی گئی ہیں۔ اسی Me Tooکے وزن پر مجوزہ بل کا نام تجویز کیا گیا ہے۔
امریکہ کے تقریباً ہر شعبے کی خواتین زیادتی کا شکار ہورہی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے کچھ آڈیو ریکارڈ منظرعام پر آئے جس میں موصوف خواتین سے دست درازی اور پیش دستی کا بہت فخر سے ذکر کررہے تھے۔ یہ ریکارڈنگ اتنی شرمناک تھی اور مسٹر ٹرمپ اس بے باکی سے اپنی فتوحات کا ذکر کررہے تھے کہ بش خاندان نے لائونج میں نصب ٹیلی ویژن پر خبر اور سیاسی پروگرام دیکھنا بند کردیا تھا۔ اس انکشاف پر شرمندگی کے بجائے مسٹر ٹرمپ نے بہت ڈھٹائی سے کہا کہ یہ نوجوانی کی گفتگو تھی جو سارے ہی لڑکے آپس میں کرتے ہیں جسے امریکی اصطلاح میں Locker Room Chat کہتے ہیں۔ ان کی اہلیہ میلانیا نے یہی کہہ کر اپنے شوہر کا دفاع کیا کہ بات بری ہے لیکن لڑکے تو لڑکے ہی ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ جس وقت کی بات ہے اُس وقت مسٹر ٹرمپ بالی عمر کے چھوکرے نہیں بلکہ 45 برس کے ادھیڑ تھے۔ اس آڈیو کے ساتھ کئی خواتین بھی سامنے آئیں جنھوں نے مسٹر ٹرمپ پر دست درازی کا الزام لگایا۔ الزامات پر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشتعل ہوکر کہا کہ وہ ان خواتین کے خلاف ازالۂ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ دائر کریں گے، لیکن آج تک وہ عدالت نہیں گئے اور نہ ان دعووں کی تردید میں کوئی ٹھوس ثبوت اُن کی طرف سے سامنے آیا۔
ادھر چند ہفتوں سے ریاست الاباما (Alabama)کی ریاستی عدالت کے سابق چیف جسٹس اور سینیٹ کی نشست کے لیے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار رائے مور (Roy Moore) کے بارے میں کئی خواتین نے سنسنی خیز اور شرمناک انکشافات کیے ہیں۔ سینیٹ کی یہ نشست جیف سیشنز (Jeff Sessions) کے اٹارنی جنرل بننے سے خالی ہوئی ہے۔ رائے مور پرکئی خواتین نے کم عمری میں دست درازی اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ خواتین اُس وقت 14 سے 16 سال کی تھیں۔ دو روز پہلے ایک خاتون نے ان پر مجرمانہ حملے کا الزام لگایا۔ اس خاتون نے ثبوت کے طور پر مسٹر مور کا ہاتھ سے لکھا محبت نامہ بھی پریس کو جاری کردیا جو انھوں نے اُس وقت لکھا تھا جب وہ خاتون 16 برس کی بچی تھی۔ ستم ظریفی کہ مسٹر مور ایک تنگ نظر مسلم مخالف قدامت پسند ہیں جو مسلمانوں میں کم عمری کی شادی پر انتہائی نازیبا تبصرے کیا کرتے ہیں، لیکن اب اُن کے بچپن کے دوستوں نے انکشاف کیا ہے کہ جب موصوف ریاست کے اٹارنی جنرل تھے تو اسکول کی کم سن بچیوں کو بہلا پھسلا کر نازیبا حرکات کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی بچی مزاحمت کرتی تو شیطانی قہقہے کے ساتھ اس کو کہتے کہ ’’تم بچی ہو اور میں سرکاری وکیل، تمھاری بات پر کون یقین کرے گا؟‘‘ اب تک 8 خواتین نے شکایت کی ہے کہ مسٹر مور نے اُن سے اُس وقت دست درازی کی جب وہ 16 سال یا اس سے بھی کم عمر کی تھیں۔
اسی کے ساتھ گزشتہ ہفتے امریکی ایوانِ نمائندگان کی ری پبلکن پارٹی کی رکن کانگریس اور اس بل کی شریک مجوز محترمہ جیکی اسپیئر نے انکشاف کیا کہ موجودہ کانگریس کے دو ارکان خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کررہے ہیں۔67 سالہ جیکی اسپیئر ڈیموکریٹک پارٹی کی سینئر رہنما ہیں جنھوں نے 1986ء میں کیلی فورنیا کی ریاستی اسمبلی کا انتخاب جیت کر سیاسی سرگرمیوں کا آغازکیا۔ وہ 2008ء میں کانگریس کی رکن منتخب ہوئیں اور وہ پانچ بار یہ انتخاب جیت چکی ہیں۔ کانگریس کی انتظامی کمیٹی کے روبرو انھوں نے کہا کہ ملک کے اس سب سے بڑے ادارے میں بھی خواتین محفوظ نہیں۔ محترمہ جیکی نے اصرار کے باوجود اس قبیح واردات میں ملوث ارکان کے نام نہیں بتائے لیکن اس بات کی تصدیق کی کہ یہ دونوں حضرات اس وقت بھی امریکی کانگریس کے رکن ہیں جن میں سے ایک کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے جبکہ دوسرے صاحب صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے رکن ہیں۔ سماعت کے دوران ری پبلکن پارٹی کی رکن کانگریس محترمہ باربرا کومسٹک (Barbara Comstock) نے انکشاف کیا کہ ایک رکن کانگریس نے تو ڈھٹائی کی انتہا کردی اور وہ اپنی سیکریٹری کے سامنے برہنہ ہوگئے۔ باربرا صاحبہ نے بھی اس رکن کا نام اور جماعتی تعلق بتانے سے گریز کیا۔
چند دن پہلے CNNکی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان کے نمائندے نے کانگریس کی ارکان اور وہاں کام کرنے والی خواتین سے بات کی تو 50 خواتین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں ایوانِ زیریں اور سینیٹ کے کئی ارکان نے جنسی طور پر ہراساں کیا ہے۔ ان خواتین نے بتایا کہ ہم خواتین، سینیٹرز کے لیے مخصوص لفٹ میں کبھی بھی اکیلے نہیں جاتیں۔ شام کو دیر تک دفتر میں رکنے سے گریز کرتی ہیں اور خواتین ان پارٹیوں سے دور رہتی ہیں جہاں کثرت سے شراب نوشی ہورہی ہو۔ خواتین کو ہراساں کرنے کی کوششوں میں فحش تبصرے اور دست درازی سے لے کر اُن کے سامنے برہنگی کا مظاہرہ شامل ہیں۔
اسی کے ساتھ ریڈیو کی ایک میزبان نے تصویری ثبوت کے ساتھ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر ایل فرینکن (Al Franken) پر بدتہذیبی اور دست درازی کا الزام لگادیا۔ ایل فرینکن 2008ء سے سینیٹ کے رکن ہیں۔ وہ سیاست میں آنے سے پہلے مشہور ٹیلی ویژن شو Saturday Night Liveکے میزبان تھے۔ شکایت کنندہ لی این ٹویڈن (Leeann Tweeden) کا کہنا ہے کہ وہ 2006ء میں امریکی فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے سینیٹر صاحب کے ساتھ افغانستان گئی تھیں جہاں ان دونوں کو ایک مزاحیہ سا رومانوی خاکہ کرنا تھا۔ اس قسم کے خاکوں کے لیے مشق کی ضرورت نہیں ہوتی کہ یہ محض ہنسنے ہنسانے کے لیے ہوتے ہیں، لیکن فرینکن صاحب نے اصرار کیا کہ شو سے پہلے اس کی مشق یا ریہرسل کی جائے، اور انھوں نے مشق کے بہانے دست درازی کی اور پھر واپسی پر جب لی این فوجی طیارے میں اونگھ رہی تھیں تو ایل فرینکن نے نہ صرف دوبارہ ان سے دست درازی کی بلکہ اس بے ہودہ منظر کی ایک ساتھی سے تصویر بھی بنوائی۔ لی این کا کہنا تھا کہ گزشتہ 11 سال سے وہ اس راز کو سینے میں چھپائے بیٹھی تھیں جس کے افشا کی انھیں ہمت نہ پڑتی تھی، لیکن اب ME TOO تحریک نے انھیں بھی حوصلہ دیا اور وہ چاہتی ہیں کہ سینیٹر صاحب کے خلاف کارروائی کی جائے۔ سینیٹر فرینکن نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں ریہرسل کا واقعہ یاد نہیں، اور جہاں تک تصویر کا سوال ہے وہ محض ایک مذاق تھا۔ انھوں نے کہا کہ جب وہ اور محترمہ لی این ایک غیر سرکاری تنظیم USO کے طائفے کے ساتھ افغانستان گئے تھے اُس وقت وہ میڈیا سے وابستہ تھے اور سینیٹر نہیں تھے۔ سینیٹر صاحب نے کہا کہ وہ کسی خاتون کو ہراساں کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ صدر ٹرمپ اس حساس اور شرمناک معاملے پر بھی جماعتی سیاست سے باز نہ آئے۔ ایل فرینکن کی خبر آتے ہی انھوں نے اپنے ٹویٹ میں ایل فرینکن کا مضحکہ اڑایا لیکن الاباما کے رائے مور کے بارے میں وہ بالکل خاموش ہیں جن کا تعلق ان کی پارٹی سے ہے۔ صحافیوں کے استفسار پر وائٹ ہائوس کی ترجمان نے بس اتنا کہا کہ رائے مور کی قسمت کا فیصلہ الاباما کے عوام کریں گے جنھیں یہ ساری خبر پہنچ چکی ہے۔
شروع میں محترمہ جیکی اسپیئر جو بل لانا چاہتی تھیں وہ ارکانِ کانگریس اور سینیٹرز سمیت منتخب ارکان کے دفاتر میں کام کرنے والے تمام افراد پر زبانی و عملی پیش دستی (Sexual Harassment) سے آگاہی کی لازمی تربیت کے لیے تھا، جس کے جواب میں کانگریس کے اسپیکر پال رائن نے کہا کہ قانون سازی کی ضرورت نہیں اس لیے کہ وہ بہت جلد ایک مؤثر تربیتی پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم سینیٹر گلبرانڈ کاکہنا تھا کہ محض تربیت کافی نہیں بلکہ قبیح حرکت کے مرتکب افراد کو قانون کی گرفت اور عدالت کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر صاحبہ کا کہنا تھا کہ سماجی دبائو کے تحت خواتین بدسلوکی کو معمول سمجھ کر برداشت کرتی رہتی ہیں اور بدنامی کے خوف سے ایسے معاملات کو سامنے لانے سے ہچکچاتی ہیں۔ اس کے علاوہ قانون میں ہراساں کرنے کی تعریف بھی واضح نہیں، اور صرف صریح زیادتی ہی قابلِ دخل اندازیٔ پولیس سمجھی جاتی ہے، حالانکہ فحش گفتگو، نازیبا تبصرہ، خاتون کو اُس کے نام کے بجائے گرل کہہ کر پکارنا، پُرجوش مصافحہ، شاباشی کے نام پر پیٹھ اور کندھا تھپتھپانا سبھی ہراساں کرنے کی کوشش شمار ہونی چاہیے۔ مجوزہ قانون میں ان تمام حرکات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اسی کے ساتھ امریکہ کی بعض مؤقر جامعات سے بھی خواتین اساتذہ، غیر تدریسی عملے اور طالبات کو ہراساں کرنے کی واردات کا انکشاف ہوا ہے۔ بعض تعلیمی اداروں سے ایسی خبریں بھی آئیں کہ طالبات کو امتحان میں اچھے نمبروں کے لیے ہراساں کیا جارہا ہے۔ اسی کے ساتھ امریکی فوج کے Sexual Assault Prevention and Response Office نے18 نومبر کو جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں اس کے مطابق گزشتہ 4 برسوں کے دوران خاتون سپاہیوں پر مجرمانہ حملوں اور انھیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی بیس ہزار شکایتیں موصول ہوئیں۔ اعلامیے کے مطابق برّی فوج کی 8294، بحریہ کی 4788، امریکی میرین کی 3400 اور فضائیہ کی 8876 اہلکاروں نے زیادتی اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایت کی۔ ہمارے روشن خیال دانشوروں کا خیال ہے کہ مسلم معاشروں میں پردے اور مرد و خواتین کے درمیان خلیج سے جو ’گھٹن‘ پیدا ہوتی ہے وہی ہمارے یہاں خواتین کے اغوا اور کم عمر بچیو ں سے بدسلوکی کی بنیادی وجہ ہے۔ اس کے مقابلے میں مغربی معاشرت کھلی ڈلی ہے جہاں لڑکے لڑکیوں کے ملنے ملانے پر کوئی پابندی نہیں، جس کی وجہ سے وہاں اغوا اور بالجبر کی نوبت نہیں آتی۔ معلوم نہیں امریکہ میں تعلیم، ایوانِ سیاست و اقتدار اور فوج سمیت ہر شعبۂ زندگی کی خواتین کے ساتھ زیادتی کے جو واقعات سامنے آرہے ہیں اس کے حق میں ہمارے سیکولر احباب کیا دلیل دیں گے!
مجبوریوں کے نام پہ لٹتی ہے ہر گھڑی
حوا کی بیٹیوں کے مقدر عجیب ہیں

کیا افغان مُلاّ اب اندھیرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں
گزشتہ دنوں طالبان نے فرح صوبے کے پشتون آبادی والے شہر پشت رود کی کئی چیک پوسٹوں پر بیک وقت حملے کرکے 6 سپاہیوں کو ہلاک اور 8 اہلکاروں کو زخمی کردیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب طالبان نے رات کی تاریکی میں کسی اڈے پر حملہ کیا ہے۔ اس سے پہلے رات کے وقت سڑک سے گزرتے سرکاری فوج کے قافلے کے بارودی سرنگ سے ٹکرانے کے واقعات تو پیش آئے ہیں لیکن طالبان نے کسی اڈے پر رات کی تاریکی میں حملہ نہیں کیا۔ وہ خودکش دھماکے اور چھاپہ مار حملے صرف دن کے وقت کرتے ہیں۔ اس دفعہ رات کو ان جان لیوا حملوں نے کابل انتظامیہ کے ساتھ امریکہ کو بھی فکرمند کردیا ہے۔ فرح پولیس کے ترجمان اقبال بہیر نے حملے کی جو تفصیلات بیان کی ہیں اس کے مطابق طالبان دستوں نے پولیس چوکیوں پر دیر تک فائرنگ کی۔ افغان حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حملہ آوروں نے اپنی آنکھوں پر تاریکی میں دیکھنے والی عینکیں چڑھا رکھی تھیں جس کی وجہ سے گھپ اندھیرے میں بھی وہ ہدف کو تاک تاک کر نشانہ بناتے رہے۔ رات کو تقریباً سارا افغانستان طالبان کے زیراثر آجاتا ہے اور افغان و نیٹو سپاہی اپنے اڈوں میں قلعہ بند ہوکر باہر کی روشنیاں گل کردیتے ہیں۔ اندھیرے کی وجہ سے طالبان کے لیے درست نشانہ بازی ممکن نہیں، لیکن اب اگر اندھیرے میں دیکھنے والی عینکیں ان کے پاس آگئی ہیں تو مستقبل میں ایسے مزید حملوں کا خطرہ ہے۔ یہاں یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ یہ عینکیں ان کے پاس کیسے آئیں؟ کیا طبیعیات کے ماہر ملاُئوں نے انھیں خود تیار کیا ہے یا کوئی دوسری قوت انھیں یہ ٹیکنالوجی فراہم کررہی ہے؟ طالبان کے ترجمان ملا ذبیح اللہ مجاہد کا دعویٰ ہے کہ یہ عینکیں طالبان نے افغان فوج سے چھینی ہیں۔ افغان فوج کے بعض افسران کا خیال ہے کہ افغان فوجی اپنے مال خانوں سے چراکر یہ عینکیں طالبان کو فروخت کررہے ہیں۔ جبکہ افغان وزارتِ دفاع کے کچھ حلقے ان عینکوں کی فراہمی کا الزام روس پر لگارہے ہیں، جس کی کابل کے روسی سفارت خانے نے سختی سے تردید کی ہے۔ (بشکریہ مسعود ابدالی)