پاک بھارت سفارتی پنجہ آزمائی

صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان ایک منجھے ہوئے سفارت کار ہیں۔ اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر میں وہ اسلام آباد سے اقوام متحدہ کے ایوانوں تک سفارتی پنجہ آزمائیوں، دائو پیچ، دانۂ دام اور پھندوں کی سیاست کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اپنے کیرئیرکے سفر میں ہر مقام اور ہر ذمہ داری کے دوران انہوں نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ جرأت کے ساتھ بات کی ہے۔ جب وہ آزادکشمیر کے صدر منتخب ہوئے تو اس کی سب سے زیادہ پریشانی بھارتی حلقوں میں محسوس کی گئی۔ انہوں نے یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ پاکستان نے کشمیریوں پر اپنا ایک سابق سفارت کار مسلط کردیا ہے۔ حالانکہ وہ یہ جانتے تھے کہ مسعود خان پاکستان کے سابق سفارت کار ہونے کے ساتھ ساتھ فرزندِ زمین بھی ہیں۔ اس پس منظر کے باعث سردار مسعود خان بھارتی لابی کے مستقل نشانے پر ہیں۔
بھارت سی پیک کو روکنے، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو اپنا ہدف بنانے کے لیے آزاد کشمیر پر خصوصی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اس کام کے لیے اسے آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے کئی مہرے بھی دستیاب ہیں۔ آزادکشمیر کے عمومی مزاج کو مقبوضہ وادی کشمیر سے کاٹنے کے لیے کبھی مہاراجا ہری سنگھ کو قومی لیڈر بناکر پیش کیا جاتا ہے اور کبھی پہاڑی اور میدانی علاقوں اور قوموں، قبیلوں اور زبانوں کی بنیاد پر نئے فتنے کھڑے کیے جارہے ہیں۔ ایک ایسا بیانیہ گھڑا جارہا ہے جس میں ہری سنگھ ہیرو اور1931ء کے شہدائے کشمیر باغی قرار پاتے ہیں، اور یہ بیانیہ آزاد کشمیر اور بیرونی دنیا میں بسنے والے آزادکشمیر کے باشندوں میں پوری قوت سے فروخت کیا جاتا ہے۔ آزادکشمیر کے حکمرانوں کے لیے یہ بارودی سرنگوں کا سفر ہے جہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہمہ وقت رہتی ہے۔
صدرِ آزادکشمیر سردار مسعود خان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے دورے کے دوران انگلستان میں ایک ایسے ہی غیر مناسب تنازعے اور اسکینڈل کا شکار ہوگئے ہیں جو بظاہر دنیا میں جاری پاک بھارت سفارتی پنجہ آزمائی کا ہی ایک رنگ اور رخ معلوم ہوتا ہے۔ میڈیا میں سامنے آنے والی تفصیل کے مطابق لندن کی کشمیری کمیونٹی نے ایک اسکول کے چیریٹی شو میں صدرِ آزادکشمیر سردار مسعود خان کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا تھا۔ شو کے اختتام پر منتظمین نے ایک ایسا آئٹم پیش کیا جس میں مقامی بھارتی رقاصائیں ایک نغمے پر تھرک رہی تھیں۔ یہ آئٹم پیش ہوتے ہی صدر آزادکشمیر نے تین بار اُٹھنا چاہا مگر انہیں روک دیا گیا۔ اس سے صدر آزاد کشمیر کبیدہ خاطر ہوئے اور وہ تقریب ختم ہوتے ہی کھانا کھائے بغیر چلے گئے۔ اس تقریب کی ساری کارروائی پس منظر میں چلی گئی اور تھرکتے جسموں والی حسینائوں کے آخری آئٹم پر ساری توجہ مبذول ہوکر رہ گئی۔ فیس بک، ٹویٹر اور الیکٹرونک میڈیا میں یہی تصاویر اور وڈیو مخالفانہ اور تند وتیز تبصروں کے ساتھ گردش کرنے لگیں۔ اکثر تبصرے یہی تھے کہ
’’صدرِ آزادکشمیر حسیناؤں کے جلو میں مسئلہ کشمیر اُجاگر کررہے ہیں‘‘۔
اس طرح صدرِ آزاد کشمیر ایک ایسے تنازعے میں اُلجھا دئیے گئے جو اب خاصی مدت تک اُن کا پیچھا کرتا رہے گا۔ اب بھارتی میڈیا نمک مرچ لگا کر اس واقعے کو وادیٔ کشمیر کے سراپا احتجاج عوام کے حوصلوں کو توڑنے کے لیے استعمال کررہا ہے کہ کس طرح کشمیر کے نام پر آزادکشمیر کے عوام اور حکمران یورپ کے عشرت کدوں میں دل بہلا اور غم غلط کررہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کی سفارتی پنجہ آزمائی نیویارک اور لندن تک جاری ہے اور کشمیر اس کا محور ہے۔ عین ممکن ہے کہ صدرِ آزادکشمیر اپنوں ہی کے ذریعے ایک غیر ضروری تنازعے کا شکار کردئیے گئے ہوں۔ کوئی سیاسی کارکن بطور صدر اس دام میں پھنسا ہوتا تو اچنبھا نہ تھا، مگر ایک ماہر سفارت کار جس کا سارا کیرئیر ہی کشمکش میں گزرا ہے، اس قدر آسانی سے جال میں پھنس گیا، یہ انتہائی حیرت کا باعث ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے یہ وضاحت کردی ہے کہ رقص کا آئٹم شروع ہوتے ہی انہوں نے باقی کارروائی میں شریک رہنے کے بجائے احتجاجاً تقریب سے واک آئوٹ کیا۔ اسی سے خبر دینے والوں کی بدنیتی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس واقعے میں ایک سبق ضرور ہے کہ آزادکشمیر کے حکمران جب مسئلہ کشمیر کے نام پر بیرونِ ملک جائیں تو انہیں اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے چاہئیں۔ انہیں قدم قدم پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُن لوگوں کی مدد اور حمایت کا دم بھرنے آئے ہیں جن کا ہر روز روزِ قیامت اور ہر شب شبِ غم اور زندگی رنج والم ہے۔ جن کے ہاں ہر روز کئی رستے ہوئے زخموں کے حامل جنازے اُٹھائے اور دفنائے جاتے ہیں۔ صدرِ آزادکشمیر سردار مسعود خان کو سوشل میڈیا میں اشارتاً وضاحت پر اکتفا کرنے کے بجائے اس صورتِ حال پر کھل کر اپنا مؤقف بیان کرنا چاہیے۔ اگر کمیونٹی کے اندر سے کوئی شخص اور تنظیم اس مقصد کے لیے استعمال ہوئی ہے تو اس کا بھی برملا اظہار کردینا چاہیے، اور اگر لندن کا بھارتی ہائی کمیشن اس کے پیچھے ہے تو بھی بات کھل کر سامنے آنی چاہیے۔ بظاہر تو یہ ’’رائی کا پہاڑ‘‘ ہی معلوم ہوتا ہے۔ لندن جیسے شہر میں اس طرح کی تقریبات غیر معمولی نہیں ہوتیں۔ یہ کسی قحبہ خانے یا خفیہ مقام کی نہیں بلکہ ایک کھلی اور عوامی تقریب تھی جس میں اور بہت سے ایشیائی، پاکستانی اور کشمیری افراد فیملیز کے ساتھ شریک دکھائی دے رہے ہیں اور میڈیا اس کی باقاعدہ کوریج بھی کررہا تھا۔ لیکن جب کوئی عوامی ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والی شخصیت اور عوامی ٹیکسوں سے چلنے والی کسی مہم کے دوران موضوع سے ہٹ کر کسی سرگرمی میں شریک پایا جائے تو پھر سوال اُٹھانا ہر ٹیکس دہندہ کا حق بھی بنتا ہے۔