وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے 14 نومبر 2017ء کو کوئٹہ کا ایک روزہ دورہ کیا۔ یہ دورہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کی دعوت پر کیا گیا۔ اس کا اظہار خود وزیراعظم نے بھی کیا کہ وہ وزیراعلیٰ کی دعوت پر صوبے میں امن و امان کی مجموعی صورتِ حال اور ترقیاتی عمل کا جائزہ لینے آئے ہیں۔ انہیں امن و امان کی صورتِ حال پر بریفنگ دی گئی۔ تاہم جہاں تک امن وامان کی بات ہے تو وزیراعظم کے جانے کے اگلے روز بدھ 15 نومبر کو بلوچستان میں مردم کُشی کے ہوش اڑا دینے والے دو بڑے سانحات رونما ہوئے۔ پہلا واقعہ تربت میں پیش آیا جہاں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 15 افراد تہِ تیغ کیے گئے۔ دوسرا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پیش آیا اور ایس پی انویسٹی گیشن سٹی محمد الیاس اہلِ خانہ سمیت دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ لرزہ خیزی ایسے ایام میں ہوئی کہ ابھی ڈی آئی جی حامد شکیل پر خودکش حملے کو ایک ہفتہ ہی ہوا تھا۔
ضلع تربت کے پہاڑی علاقے گروک میں قتل ہونے والے پندرہ افراد مستقبل کے سہانے خواب سجائے غیر قانونی طریقے سے ایران کے راستے ترکی، یونان اور بعد ازاں دیگر یورپی ممالک جانا چاہتے تھے۔ یقینا اس کے لیے انسانی اسمگلروں کو بھاری رقوم ادا کی گئی ہوں گی جو انہیں خفیہ راستوں کے ذریعے ان کی منزلِ مقصود تک پہنچاتے۔ یہ لوگ تین گاڑیوں میں سوار ہوکر آگے کی جانب پہاڑی علاقوں میں بڑھ رہے تھے (یہ علاقہ ایرانی سرحد کے قریب ہے) کہ بدقسمتی نے انہیں آگھیرا۔ مسلح لوگ موٹر سائیکلوں پر آئے اور سب کو گاڑیوں سے اتار کر بڑے آرام و تسلی سے موت کے گھاٹ اتار دیا اور لاشیں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ سفاکیت کا یہ مظاہرہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو کیاگیا۔ ان افراد کا تعلق پنجاب کے مختلف اضلاع سے تھا۔ دن کے وقت مقامی انتظامیہ کو اس خون آشامی کی اطلاع ہوئی۔ لاشیں تربت کے سرکاری ہسپتال منتقل کی گئیں، وہیں شناخت بھی ہوگئیں، کیونکہ ان افراد کے پاس شناختی کارڈ موجود تھے۔ اگلے دن وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اور صوبائی وزراء تربت پہنچے۔ یہاں نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے میتیں لاہور پہنچا دی گئیں، جہاں لواحقین نے آکر میتیں وصول کیں۔ گویا یہ قلب و روح کو جھنجوڑ دینے والا سانحہ تھا۔ مذکورہ فوجی و حکومتی شخصیات نے تربت پہنچ کر یقینا متاثرہ خاندانوں کی دل جوئی کی۔
اسی شام دوسرا کربناک سانحہ پولیس آفیسر محمد الیاس، اہلیہ فرزانہ اور ان کے نوجوان وکیل بیٹے محمد عادل، چھے سالہ پوتے عبدالوہاب کے ہدفی قتل کا پیش آیا۔ چار سالہ پوتی مروا یوسف بھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئی۔ پولیس آفیسر اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ نواں کلی گئے تھے۔ واپس اپنی رہائش گاہ پولیس لائن آرہے تھے کہ تعاقب کرنے والے افراد نے گاڑی پرگولیاں برسا دیں۔ ملزمان موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ محمد الیاس سٹی سرکل میں ایس پی انویسٹی گیشن تعینات تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی۔ 16 نومبر کو تربت کے علاقے بلیدہ میں الندور کے مقام پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں سیکورٹی فورسز اور مسلح دہشت گردوں میں جھڑپ ہوئی جس میں کالعدم بی ایل ایف کا اہم کمانڈر یونس توکلی مارا گیا۔ یونس توکلی، کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ کے آٹھ سرکردہ کمانڈروں کی فہرست میں شامل تھا اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے پندرہ افراد کے قتل میں ملوث تھا۔ یونس توکلی جس علاقے میں آپریشن کے دوران مارا گیا وہ پندرہ افراد کے قتل کی جگہ سے صرف پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق یونس توکلی نہ صرف نہتے شہریوں کے قتل بلکہ سیکورٹی فورسز پر حملوں اور بم دھماکوں میں بھی ملوث تھا۔ علیحدگی پسند تنظیم بی این ایم کے سرنڈر ہونے والے رحمت اللہ شوہاز، لالہ نذیر کے رشتہ دار غلام جان اور دیگر شہریوں کے قتل کا بھی مرتکب تھا۔
18 نومبر کو تربت سے ستّر کلومیٹر دور تجابان میں ایک ندی سے مزید پانچ افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ یہ تمام افراد بھی پنجاب کے ضلع گجرات کے رہائشی تھے جو غیر قانونی طور پر ایران جانے والے اُس گروہ کا حصہ تھے جس کے پندرہ افراد تین روز قبل مارے گئے۔ بعض اطلاعات کے مطابق اس گروہ کے مزید بیس افراد بی ایل ایف کی قید میں ہیں۔ نیشنل پارٹی کے صدر اور وفاقی وزیر حاصل خان بزنجو بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’بس اور گاڑیوں سے 40 افراد کو اتارا گیا تھا۔ ان میں سے 20 کی لاشیں مل چکی ہیں۔باقی 20 افراد کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا، تاہم ان کی لاشیں نہیں ملیں، لہٰذا ہمارا اندازہ یہی ہے کہ وہ زندہ ہوں گے‘‘۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو امن سے متعلق کیا بریفنگ دی گئی ہے؟ یہ تو وہ بہتر جانتے ہوں گے، مگر حقیقتِ حال یہ ہے کہ صوبے کے اندر امن وامان کی صورتِ حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ابھی اس تناظر میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید بہت سارے جتن کرنے ہوں گے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل یقینی طور پر بلوچ مسلح جتھوں کا کیا کرایا ہے اور دوسرا واقعہ مذہبی شدت پسندوں یا دہشت گردوں نے کیا۔ یعنی ایک ہی دن میں دو الگ نکتہ نظر و شناخت کی حامل تنظیموں نے ایک ہی صوبے میں وارداتیں کیں۔ گویا بلوچستان کو اس دو طرح کی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس پر فوری طور پر قابو پانا اس لیے مشکل ہے کہ افغانستان ان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والوں سے ریاست بندوق کی زبان میں ہی بات کرتی ہے، لیکن یہاں کچھ تمیز کی ضرورت ہے۔ چونکہ بلوچستان میں ابتری سیاسی و سماجی ناانصافیوں کا نتیجہ ہے اس لیے طاقت کا استعمال ضرور ہو کیونکہ کسی کو نہتے عوام اور فورسز کے قتلِ عام اور تنصیبات کی تباہی و بربادی کی اجازت بھی تو نہیں دی جاسکتی، تاہم ضروری ہے کہ ساتھ بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رکھا جائے۔ البتہ دہشت گردی کا دوسرا عنصر یقینی طور پر مستحق ہے کہ ان سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔
منگل کے روز اسلام آباد میں ایک کانفرنس ہوئی جس سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین اور بھارت میں متعین سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے خطاب کیا۔ جنرل زبیر محمود کا کہنا تھا کہ بھارت نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے خلاف مختلف سطح پر سازشیں شروع کررکھی ہیں اور ’’را‘‘ نے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی خاطر پچاس کروڑ ڈالر یعنی تقریباً55 ارب روپے کی رقم مختص کر رکھی ہے۔ شرکاء نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف روایتی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ تخریبی سرگرمیوں کے لیے رکھی گئی اتنی بڑی رقم یقینا اُن تنظیموں پر بھی خرچ کی جارہی ہے جو پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔ بھارت کے ہاتھوں میں بلوچ شدت پسند اور مذہبی جتھے کھلونا بنے ہوئے ہیں، لہٰذا پاکستان کو اپنی تدبیر بہ احسن کرنی چاہیے۔ اس شدت کو کم کرنے کی خاطر بلوچستان پر کماحقہٗ توجہ کی ضرورت ہے۔ شاہد خاقان عباسی بلوچستان کے لیے دس سالہ ترقیاتی پیکیج لے کر آئے۔ یہ 20 ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ پچاس فیصد فنڈز وفاق اور باقی پچاس فیصد صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔ اس منصوبے کے تحت ہر ضلع میں ایل پی جی گیس، بجلی، پینے کا صاف پانی، تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کی جائیں گی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ صوبہ جو1953ء سے پورے ملک کو صنعتی اور گھریلو ضروریات کے لیے گیس دے رہا ہے، خود اب تک اس نعمتِ خداوندی سے محروم ہے۔ اللہ نے صوبے کو معدنیات سے نوازا ہے جبکہ بالادست انسانوں نے یہاں کے عوام کو اس نعمت اور حق سے محروم کیے رکھا ہے۔ حکومتیں بنتی ہیں مگر کوئی مثالی کام کیے بغیر اپنی مدت پوری کرلیتی ہیں۔ ماضی میں ایسے کئی ترقیاتی پیکیجز کے اعلانات ہوچکے ہیں مگر صوبے کی محرومیاں اور پسماندگی اور عوام کے گلے شکوے جوں کے توں موجود ہیں۔ چنانچہ مقامی سطح پر پائے جانے والے احساسِ محرومی کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ حق، حقدار کو پہنچ جائے اور برق رفتاری سے ترقیاتی عمل آگے بڑھایا جائے۔ اس طرح بلوچ شدت پسندی ٹھنڈی پڑجائے گی، اور بھارت کا تخریبی خواب بھی چکناچور ہوگا۔
نیشنل پارٹی چونکہ خود مسلح گروہوں کے نشانے پر ہے، اس نے بھی تربت کے واقعے کی بڑے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ اچھی بات یہ بھی ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے بھی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مظلوم نوجوانوں کے قتل کی کھلے الفاظ میں مذمت کی۔