وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی مختلف طلبہ تنظیموںکے نمائندوں پر مشتمل فاٹا یوتھ فورم کے عہدیداران سے ملاقات میں کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان قبائلی علاقوں کے، بندوبستی علاقوں میں انضمام پر مکمل اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے اور اس ضمن میں کسی ابہام کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نوجوانوں کا معاشرے میں ایک خاص اور نمایاں مقام ہے۔ اس حوالے سے ان پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ فاٹا یوتھ فورم کے نوجوان عہدیداران نے اس موقع پر وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ حکومتی اعلان کے مطابق قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ان کا خیبر پختون خوا میں جلد از جلد انضمام ناگزیر ہے۔ اس ملاقات کے اگلے روز فاٹا یوتھ فورم کے عہدیداران نے ایک جرگے کی صورت میں اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق سے بھی ملاقات کی جس میں انہوں نے بھی فاٹا انضمام کا عمل جلد از جلد مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس مطالبے کو قبائلی عوام کے دلوں کی آواز اور ان کی امنگوں کا ترجمان قرار دیا۔ دریں اثناء جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے امیر مشتاق احمد خان نے فاٹا کے امیر حاجی سردار خان اور ان کی کابینہ کے ہمراہ پشاور میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے 10دسمبر کو بابِ خیبر جمرود سے پارلیمنٹ ہائوس تک لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے اس مارچ میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور طلبہ، صحافیوں، وکلا، تاجروں، اساتذہ کرام اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں قبائل کو شریک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام تمام قبائلیوں کے دلوں کی آواز ہے اور کسی کو بھی قبائل کے اس بنیادی حق پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائل بھی اتنے ہی محبِ وطن ہیں جتنا اس ملک کا کوئی اور شہری یا علاقہ محبِ وطن ہے۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں قیام امن کے بعد یہ ایک اچھا موقع ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے پہلے فاٹا کے، بندوبستی علاقوں میں فوری انضمام کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی انضمام سے کم کسی بھی دوسرے متبادل حل پر متفق نہیں ہوگی اور اس ضمن میں جماعت اسلامی جہاں تمام قبائلی ایجنسیوں میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام کے ساتھ رابطہ کرے گی وہیں تمام ایجنسی ہیڈ کوارٹرز میں انضمام کے حوالے سے قبائلی عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے انضمام کانفرنسوں کا الگ سے انعقاد بھی کیا جائے گا۔ انہوں نے توقع ظاہرکی کہ انضمام کے عمل کو 10دسمبر سے پہلے پہلے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے گا، بصورتِ دیگر جماعت اسلامی انضمام کی حامی جماعتوں اور خاص کر نوجوانوں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہائوس تک مارچ کے علاوہ وہاں دھرنا بھی دے گی۔
فاٹا انضمام کے سلسلے میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر کی متذکرہ پریس کانفرنس اور اس میں اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک جانب وزیراعظم قبائلی نوجوانوں کو بہت خوشگوار ماحول میں انضمام اور اس حوالے سے ایک بہتر مستقبل کی امید دلا چکے ہیں، لیکن دوسری جانب عملی صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی حکمران یہ بھاری بھرکم پتھر اٹھانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ فاٹا انضمام کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے جوں جوں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں توں توں قبائل کے غم و غصے اور ان کی ناراضی و مایوسی میں فطری طور پر مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ قبائل بالخصوص قبائلی نوجوان جب قبائلی علاقوں میں جاری لوٹ مار اور وہاں رائج ایف سی آر کے سیاہ قانون اور اس کے تحت قبائل کے ساتھ ریاستی اداروں کی جانب سے روا رکھے جانے والے متعصبانہ اور امتیازی سلوک اور خاص کر زندگی کے ہر شعبے میں اپنی زبوں حالی کو دیکھتے ہیں تو ان کے اندر ایک فطری ردعمل اور نفرت وانتقام پر مبنی جذبات کا فروغ قابلِ فہم معلوم ہوتا ہے۔ قبائل کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ جب دنیا چاند پر پہنچ کر مریخ پر کمندیں ڈالنے کی تیاری کررہی ہے ایسے میں ہمارے قبائلی علاقوں میں آج بھی سو سال پرانا فرسودہ نظام زندگی نہ صرف نافذ ہے بلکہ حکمرانوں سمیت بعض روایتی سیاسی قوتیں بھی اس فرسودہ، باطل اور کرپٹ نظام کو جوں کا توں رکھنے پر مُصر ہیں۔ قبائلی علاقوں میں خواتین کے ساتھ تعلیم کے حصول کے ضمن میں جو امتیازی سلوک کیا جارہا ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ ایسے میں چند مٹھی بھر عناصر کی جانب سے قبائلی علاقوں کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھتے ہوئے اور یہاں کی لاکھوں آبادی کو صحت وتعلیم اور صاف پانی جیسے زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے میں جس طرح بعض قوتیں پیش پیش ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ان عناصر کا ہر محاذ اور ہر مورچے پر مقابلہ کیا جائے۔ شاید یہی سوچ کر جماعت اسلامی کی صوبائی قیادت نے دسمبر میں قبائل کو ساتھ لے کر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کوئی مطالبہ منوانے کے لیے لانگ مار چ نہ صرف پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کیے جاتے رہے ہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں بھی اپنے حقوق کے لیے لانگ مارچ کو ایک مروجہ طاقتور سیاسی حربہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ سیاسی جمہوری اداروں کے ساتھ ساتھ نہ تو میڈیا آزاد ہے اور نہ ہی قبائلی علاقوں میں تعلیم کی شرح اتنی بہتر ہے جس کی بنیاد پر قبائل سے یہ توقع کی جاسکے کہ وہ اپنے اجتماعی حقوق کے لیے اسی طرح اٹھ کھڑے ہوں گے جس طرح ترقی یافتہ اور منظم معاشروں میں تعلیم اور شعور کی فراوانی، نیز میڈیا اور عدل وانصاف کے اداروں کی موجودگی میں وہاں کے عوام منظم انداز میں اپنے غصب شدہ حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی جانب سے انضمام کے لیے 10دسمبر کو کیا جانے والا لانگ مارچ اس حوالے سے منفرد اہمیت کا حامل ہے کہ اس مارچ کا اعلان جماعت اسلامی کے صوبائی امیر نے حلقہ قبائل کے امیر اور اُن کی کابینہ کی موجودگی اور اُن کی رضامندی و منصوبہ بندی کی روشنی میں کیا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ جماعت اسلامی نے مذکورہ ڈیڈلائن سے پہلے اپنے کارکنان اور عام قبائل کو متذکرہ لانگ مارچ کے لیے تیاری اور منظم کرنے کی غرض سے تمام قبائلی ایجنسیوں میں احتجاجی اور دعوتی مظاہروں، پریس کانفرنسوں، سیمینارز اور تشہیری سرگرمیوں کے ذریعے قبائلی عوام تک اپنا پیغام پہنچانے اور انہیں 10دسمبر کے لانگ مارچ میں شامل کرنے کا ٹاسک دیا ہے جو یقینا ایک بہتر فیصلہ ہے۔ لیکن اگر اس عمل میں جماعت اسلامی فاٹا انضمام کی حامی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی کریڈٹ اور عارضی سیاسی مفادات کی سوچ سے بالاتر ہوکر اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرے تو اس کے نتیجے میں توقع کی جاسکتی ہے کہ قبائلی عوام فاٹا انضمام کی صورت میں اپنے بہتر مستقبل کی جانب ایک مزید تیز تر قدم اٹھانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔