سندھی پریس

ابراہیم کنبھر؍ ترجمہ: اسامہ تنولی
’’ٹیکنوکریٹ حکومت، ریٹائرڈ یا حاضر سروس جنرلوں اور ججوں پر مشتمل سیٹ اَپ، بنگلہ دیش ماڈل، شفافیت کے سرٹیفکیٹس سے لیس من پسند افراد پر مبنی طویل نگران یا پھر قومی حکومت کی باتیں روزانہ کی بنیاد پر سننے میں آرہی ہیں۔ یہاں تک کہ وفاق، آئین، پارلیمنٹ یا قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے کئی اہم سیاسی رہنما بذاتِ خود ایسی باتیں سن سن کر ایک ایسی غیر یقینی کیفیت سے گزر رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی ملک کے سیاسی مستقبل کے متعلق کئی سوالات کے جوابات دینے کے لیے الفاظ ڈھونڈنے کے باوجود نہیں مل پارہے ہیں۔ حکومت کس کی بنے گی؟ سیاسی صورت حال کس نہج پر استوار ہوگی؟ امریکہ، بھارت، افغانستان سے تعلقات سمیت متعدد پالیسی معاملات پر سیاسی حلقوں کے ہاں اب ماسوائے اپنی رائے پیش کرنے کے، کوئی شے بھی باقی نہیں رہی ہے۔ اس صورتِ حال میں منتخب کے بجائے مسلط کردہ حکومت کی باتیں انہیں اور زیادہ الجھن میں ڈالنے کا باعث بن رہی ہیں۔
آئینی اور عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر تشکیل پانے والی حکومتوں کے علی الرغم ایڈہاک ازم کی طرز پر استوار کی جانے والی حکومت کی باتیں نوازشریف کو وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیے جانے اور انہیں عدالت کے سامنے جاکھڑا کرنے کے بعد تیز ہوگئی ہیں اور ان میں شدت آگئی ہے۔ محض اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے ملتی جلتی اور کئی باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی نوازشریف سے منحرف ہوگئے ہیں اور انہیں آج نہیں تو کل اس کا اعلان کرنا ہی پڑے گا۔ اور یہ بھی کہ وہ نواز لیگ سے نئی پارٹی بنانے کے لیے تیار و آمادہ ہیں۔ بے چارے صدر صاحب کے لیے بھی اس طرح کا قدم اٹھانے کے لیے باتیں چلائی جارہی ہیں، حالانکہ اس نوع کا کوئی قدم اٹھانا اُن کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔ نواز لیگ سے تیس چالیس ارکان کے اڑان بھرنے کی بات تو سچی بھی ہوسکتی ہے لیکن حکومت کو راتوں رات چلتا کرنے اور سسٹم کو ملیامیٹ کرنے وغیرہ سے متعلق اب صورتِ حال ’’جتنے منہ، اتنی باتیں‘‘کے مترادف ہوچکی ہے۔ ٹیکنوکریٹ حکومتی تجربے والی باتیں، موجودہ نہیں بلکہ یہ بھی بہت عرصے سے چلی آرہی ہیں۔ ماضیٔ قریب میں جب پرویزمشرف کمزور ہوئے تو ان کے آخری ایام میں بنگلہ دیش ماڈل کی باتیں چلیں۔ ٹیکنوکریٹ یا بنگلہ دیش ماڈل والی حکومت دراصل غیر سیاسی قوتوں کا ایک ایسا فارمولا ہے جس کا ہم پر اپنی پرچھائیں یا سایہ دینے کی اہم وجہ ان سیاست دانوں کی بھی ناکامی ہے جو اقتدار پاتے ہی عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کے بجائے خود بھی اپنے اندر ایک عدد آمر کو بٹھالیا کرتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ٹیکنوکریٹس حکومت، طویل المیعاد نگراں سیٹ اَپ، یا پھر بنگلہ دیش ماڈل کی ہمارے آئین میں ذرہ برابر بھی کوئی گنجائش موجود ہے؟ اگر اس نوع کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے تو پھر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ایسی خبریں پھیلانے والا آخر کون ہے؟ یہ بات تو اطمینان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ غیر آئینی حکومتی جوڑتوڑ یا سازشی تھیوریز کے پسِ پردہ جو بھی ہاتھ ہے وہ ہاتھ آئین کو توڑ مروڑ کر پھینکنے یا پھر پامال کرنے کا آرزومند ہے۔ پھر خودساختہ دفاعی تجزیہ نگاروں کے ذریعے عوام میں منتخب حکومتوں کے بجائے دیگر غیر آئینی آپشنز پر بحث کا سلسلہ شروع کرادیا جاتا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کے بارے میں معروف صحافی محمد حنیف کا کہنا ہے کہ ہمارے دفاعی تجزیہ نگار ماسوائے ملکی دفاع کے ہر معاملے پر گفتگو کیا کرتے ہیں۔ ایسے پگھاردار اور خودساختہ دانشوروں کی ہمارے ملک میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اس وقت غیرآئینی حکومت یا اس سے وابستہ دیگر امور کے پسِ پردہ نوازشریف دشمنی کا عنصر قدرے زیادہ ہے۔ ایسے حلقوں کے من میں یہ بات ہے کہ نواز لیگ ملک کے کسی بھی ایوان میں موجود نہ ہو تو اچھا ہوگا۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے، سینیٹ کے الیکشن سے پہلے ہی اس سارے نظام کا اگر بوریا بستر گول کردیا جائے تو اس سے بڑھ کر بہتر بات اور کوئی بھی نہ ہوگی۔ سینیٹ کے انتخاب سے پیشتر نظام کا بوریا بستر گول کرنے کی بات کرنے والوں میں پھر ون مین پارٹی شیخ رشید ٹائپ افراد شامل ہیں یا کرایہ خرچ کرکے ملک پہنچنے کے بعد حکومت کو دھمکیاں اور بھبھکیاں دینے والے ایسے افراد ہیں جو اپنا یہ کام کرکے پھر سے چلے جاتے ہیں، نیز کچھ وہ حلقے بھی ہیں جن کے ایک ہی ضرب کے ساتھ سارے ہی سینیٹر ریٹائر ہوجائیں گے۔
مثلاً قاف لیگ کے چاروں سینیٹر ریٹائر ہورہے ہیں۔ فنکشنل لیگ کا بھی واحد سینیٹر رخصت ہوجائے گا۔ ہر دو کو سینیٹ کے آئندہ الیکشن میں کسی نوع کا کوئی آسرا بھی نہیں ہے۔ مارچ میں 104 میں سے 52 سینیٹر ریٹائر ہوجائیں گے جن میں ایک بڑی تعداد پیپلز پارٹی کے سینیٹروں کی ہے جس کے 19 سینیٹر ریٹائر ہونے والے ہیں۔ باقی کہیں جاکر 8 سینیٹر بچیں گے۔ مسلم لیگ نواز کے 27 سینیٹروں میں سے 9 سینیٹر ریٹائر ہوجائیں گے۔ اس طرح سے اس کے 18 سینیٹر باقی رہ جائیں گے۔ تحریک انصاف کے 7میں سے 6 سینیٹر باقی رہیں گے، ایک ریٹائر ہوجائے گا۔ ایم کیو ایم کے 4 سینیٹر ریٹائر ہونے جارہے ہیں۔4 رہ پائیں گے۔ ایک سادہ فارمولے کے تحت لگائے گئے اندازے کے مطابق دونوں بڑی پارٹیوں میں سے آئندہ پیپلزپارٹی اپنے 8سینیٹر منتخب کرواسکے گی، جبکہ اسی طرح سے آئندہ سینیٹ کے الیکشن میں نواز لیگ کے حصے میں 18 سینیٹر آئیں گے۔ اس حساب سے تحریک انصاف 6 نئے سینیٹر منتخب کرواسکے گی جبکہ ایم کیو ایم 4 نئے سینیٹر منتخب کروانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ سینیٹ کے آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ نواز 36 سینیٹروں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہوگی اور اپنے اتحادیوں کو ملا کر سینیٹ میں سادہ اکثریت حاصل کرلے گی۔ جبکہ پیپلزپارٹی لگ بھگ سولہ سترہ سیٹوں کی اکثریت کے باعث سینیٹ میں دوسری پوزیشن رکھنے والی جماعت بن جائے گی۔ تحریک انصاف اگر اپنے 8 نئے سینیٹر منتخب کروانے میں کامیاب ہوگئی تو اس کے سینیٹروں کی کُل تعداد 14ہوجائے گی۔ اس طرح ایوانِ بالا میں تحریک انصاف تیسری پوزیشن پر آجائے گی۔ سینیٹ کی یہ امکانی پوزیشن بھی اسمبلیوں کی میعاد پوری ہونے یا کم سے کم مارچ کے مہینے تک چلنے کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس سے قبل ہی اسمبلیاں چلی گئیں تو پھر ساری صورت حال میں تغیر کا در آنا ضروری ہوجائے گا۔ اب سینیٹ کی اس اپوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے پھر سے کمزور پارلیمنٹ، مشترکہ یا کثیرالجماعتی قومی حکومت کی بحث کو یہاں سے شروع کیا جائے۔ اب آتے ہیں آئندہ انتخابات پر۔
آئینی میعاد کی تکمیل کے بعد یہ الیکشن آئندہ برس ماہ ستمبر میں ممکن ہیں۔ عام انتخابات خواہ کوئی بھی نتائج دیں، لیکن رائے عامہ یہ تشکیل پاچکی ہے کہ اب کی مرتبہ الیکشن میں کوئی سیاسی پارٹی بھی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ نہ صرف عام افراد بلکہ آصف زرداری سے لے کر تحریک انصاف کی ہائی کمان بھی یہ سمجھ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین نے تو اپنی بھری پریس کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ آزاد امیدوار کامیاب ہوکر پارلیمنٹ میں آئیں گے۔ کسی سیاسی لیڈر کا یہ مؤقف کسی بڑی ناکامی کا اعتراف نہیں تو پھر بھلا اور کیا ہے؟ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کا بھی یہی خیال ہے کہ آئندہ الیکشن میں کوئی بھی سیاسی جماعت واضح طور پر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ ہزاروں افراد کے جلسہ ہائے عام، کے پی کے میں واضح اکثریت ملنے کے امکان کے باوجود تحریک انصاف اتحادی حکومت بنانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے۔ رہی مسلم لیگ نواز، تو اس کا تو ہر ایک ہی کو علم ہے کہ حالیہ سیاسی مارکیٹ میں یہ پارٹی مندی کا شکار ہے۔ اب تو شاید نواز لیگ کی قیادت کو بھی یہ بات سمجھ میں آچکی ہے کہ خواہ وہ کتنے بھی جتن کرلے، لیکن آئندہ الیکشن اس کے ہاتھوں میں سے نکلتے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز اِس وقت ایک ایسے چوراہے پر کھڑی ہے جہاں سے نکلنے والا ہر راستہ آگے چل کر کہیں گم ہوجاتا ہے۔ حکومت ہے تو اختیار نہیں ہے، پارٹی ہے تو قیادت نہیں ہے، اور اگر قیادت ہے تو وہ متنازع بنتی جارہی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ چودھری نثار اور شہبازشریف اندرونِ خانہ پارٹی میں نقب لگانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کی جو لائن ہے اُس پر میاں صاحب کو اطمینان نہیں ہے۔ اوپر سے ادھار پر لیے گئے پارلیمنٹیرین پارٹی کو چھوڑنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں نوازشریف کا عام انتخابات میں کلین سوئپ کرنے کا خواب چکناچور ہوچکا۔ اگر میاں نوازشریف احتساب کیسوں میں پیشی سے انکار کرتے کرتے خود کو گرفتار کرا لیں، جیل میں رہیں، اپنی اقتدار سے بے دخلی، اہلیہ کی بیماری، گرفتاری اور سیاسی مظلومیت کے کارڈ کو استعمال کرکے بھی الیکشن کے میدان میں مریم نواز کی قیادت میں اتریں، تب بھی صرف زیادہ سے زیادہ ان کے وہی اضلاع ساتھ دیں گے جن پر دونوں بھائیوں کی نظرکرم پڑتی رہی ہے۔ باقی سارا پنجاب میاں صاحب کو بہ مشکل پذیرائی دے پائے گا۔ بلوچستان سے تو میاں صاحب کے حق میں نتائج کا آنا مشکل ہے۔ خیبر پختون خوا کے لیے تحریک انصاف ایک بار پھر سے دعویٰ کرکے بیٹھی ہوئی ہے۔ سندھ پر آصف علی زرداری تاحال شہیدوں کے قرض کا کھاتہ کھولے بیٹھے ہیں۔ اس لیے آپ خود ہی یہ حساب لگالیں کہ مرکز یا صوبوں میں کس کس کی اور کون کون سی حکومتیں تشکیل پاسکتی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ واضح اکثریت نہ ہونے کی صورت میں ’’کہیں کی مٹی کہیں کا روڑا… بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ کے مصداق ایک بے اثر حکومت تشکیل پاجائے۔ آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے۔