پاکستان میں صحت اور تعلیم کے شعبوں کو سب سے زیادہ نظرانداز کیے جانے والے شعبے سمجھا جاتا ہے، اور یہ بات زیادہ غلط بھی نہیں ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں صحت کی ابتر صورتِ حال ہر روز میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے آتی رہتی ہے۔ البتہ تعلیم کی زبوں حالی کا اتنا تذکرہ نہیں ہوتا کہ اس میدان میں سیٹھوں کی سرمایہ کاری بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ تاہم چند سال بعد یہ تباہی ایسے دھماکے کی صورت میں سامنے آئے گی کہ سب سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ ایسے میں اس شعبے کی ساری ذمہ داری اساتذہ پر آپڑتی ہے۔ ان کے بھی بے پناہ مسائل ہیں، لیکن پھر بھی اس شعبے سے وابستہ لوگ فکرمند بھی ہیں اور اپنی سی کوششیں بھی کررہے ہیں۔ اساتذہ میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں لیکن اسے قومی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنے والے اساتذہ کی بھی کمی نہیں۔ تنظیم اساتذہ پاکستان ایسے ہی محب وطن اور ذمہ دار اساتذہ کی تنظیم ہے۔ یہ لوگ حُبِّ وطن کے جذبے سے سرشار ہیں، اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں، بچوںکو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی و اخلاقی تربیت اور کردار سازی بھی کرتے ہیں۔ یہ اساتذہ نئی نسل کو ایک اچھی قوم میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ تنظیم گزشتہ 38 سال سے پرائمری سے یونیورسٹی کی سطح تک کے اساتذہ میں کام کررہی ہے۔ اس کے موجودہ صدر پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم ایک متحرک اور دردِ دل رکھنے والے استاد ہیں۔ ان کے ساتھی بھی اس میدان کے قابلِ فخر ستارے ہیں۔ تنظیم اساتذہ نے گزشتہ دنوں لاہور میں ایک تعلیمی قومی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ یہ کانفرنس ایوانِ اقبال لاہور میں منعقد ہوئی، جس میں ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا سے بھی اساتذہ کی کثیر تعداد لاہور پہنچی۔ ایوانِ اقبال کا وسیع ہال شرکاء اساتذہ سے صبح کے وقت ہی بھر گیا۔ کانفرنس صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوئی۔ کانفرنس کے کُل تین سیشن رکھے گئے تھے۔ پہلے سیشن کے مہمان خصوصی اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال تھے۔ صدر تنظیم ڈاکٹر میاں محمد اکرم نے اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد منصوری، پروفیسر عبدالرئوف ظفر، پروفیسر رضوان الحق، پروفیسر رائو جلیل احمد، پروفیسر سرسعید اختر نے مختلف موضوعات پر خطاب کیا۔ مہمانِ خصوصی رانا محمد اقبال نے تسلیم کیا کہ اردو کو عملی طور پر قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی کی ساری کارروائی اردو میں ہوتی ہے۔ ؎دوسرے سیشن میں ڈاکٹر انیس احمد نے کلیدی خطاب کیا۔ جبکہ تیسرے سیشن میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید نے بڑی گہرائی کے ساتھ امتحانی نظام کی خوبیوں اور خرابیوں پر روشنی ڈالی۔ مختصر سے کھانے اور نماز کے وقفے کے بعد یہ کانفرنس تسلسل کے ساتھ شام چار بجے تک چلی اور قومی ترانے پر کانفرنس کا اختتام ہوا۔ کانفرنس کے انتظامات کے لیے مختلف کمیٹیوں نے بھرپور کام کیا۔ مقررین اور اہم مہمانوں کو شیلڈز پیش کی گئیں۔ میڈیا کمیٹی نے فوری طور پر ٹکرز اور خبریں اخبارات اور چینلز کو جاری رکھیں۔ کانفرنس میں مختلف قراردادیں اور سفارشات بھی منظور کی گئیں۔ کانفرنس کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ:
وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ مادی اور انسانی وسائل عطا کیے ہیں، جبکہ آزمائش کی ہر گھڑی میں ہماری قوم نے حیران کن اور بے مثال کردار ادا کیا ہے، لیکن افسوس کہ اس کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جو مسائل اور بحران کا شکار نہ ہو۔ بحیثیتِ مجموعی ہماری قوم اور خصوصاً نوجوان نسل فکری، اخلاقی اور عملی انحطاط و انتشار کا شکار ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ایسا ناقص اور فرسودہ ہے کہ نہ تو قومی و ملکی ضروریات کو پورا کررہا ہے اور نہ ہی آئینی و نظریاتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ یہ بے سمت بھی ہے اور طبقاتی بھی۔ یہ ہمارے نوجوانوں میں یکجہتی، ہم آہنگی، محبت و اخوت، ایمان و یقین، دیانت داری، حب الوطنی، شرافت و اخلاق اور رواداری جیسے اعلیٰ اوصاف پیدا نہیں کررہا، اور پیشہ ورانہ اہلیت و کمال کو بھی اس درجے پر نہیں لارہا جس کی اِس وقت اشد ضرورت ہے۔
70 سال گزارنے اور آدھا ملک گنوانے کے بعد بھی ہم سنبھلنے اور اپنے حالات کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ نہ تو ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھا کر فکر و نظر میں یکسوئی و اتحاد پیدا کررہے ہیں اور نہ قومی زبان کو یکجہتی و رابطے کا ذریعہ بنارہے ہیں۔ نہ ہمیں شرح خواندگی کو بڑھانے اور تعلیم کو ہر بچے تک پہنچانے کی فکر ہے، اور نہ ہم اپنے تربیتی اداروں کو مضبوط اور مؤثر بنارہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے تعلیمی مقاصد اور تعلیمی معاملات کو ایسے ماہرینِ تعلیم کے ذریعے درست کرنے کی کوشش کریں جو پیشہ ورانہ اہلیت و صلاحیت اور تجربے کے ساتھ قومی سوچ، ملّی جذبے، حب الوطنی، اچھی شہرت اور مضبوط اخلاق و کردار کے حامل ہوں۔
آٹھویں تعلیمی کانفرنس نے ماہرینِ تعلیم کی آراء کی روشنی میں تیار کی گئی قومی دھارے کا رخ تبدیل کرنے کے قابل سفارشات پیش و منظور کیں۔ اس کانفرنس میں درج ذیل قراردادیں پیش کی گئیں جنہیں ملک بھر سے آئے ہوئے اساتذہ نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ ایک قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان قرآنِ حکیم کی تعلیم لازمی قرار دینے پر حکومتِ وقت کو مبارکباد پیش کرتا ہے اور اس امر پر گہرے امتنا و اطمینان کا اظہار کرتا ہے اور اس سلسلے میں وفاقی وزیر تعلیم جناب انجینئر میاں بلیغ الرحمن کی مساعی کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور دعاگو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے اور ان کے لیے توشۂ آخرت بنائے، آمین۔ تاہم تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ تذکرہ کرنا فائدے سے خالی نہیں سمجھتا کہ قرآن حکیم کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کا مطالبہ تنظیم اساتذہ پاکستان کا دیرینہ مطالبہ تھا اور اس سلسلے میں قرآن حکیم کے ایک ترجمے پر قوم کے تمام مسالک کے علماء کو متفق کرنے کا کام بھی وفاقی سطح پر تنظیم اساتذہ کے ذمہ داران کی ذاتی دلچسپی اور کوشش کے نتیجے میں انجام پذیر ہوا تھا۔ اب یہ ایوان حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ایک تو قرآن حکیم کی تدریس کے لیے قابل، اہل اور راسخ العقیدہ مسلمان اساتذہ کے تقرر اور تربیت کے لیے مستقل بنیادوں پر سنجیدگی سے اقدامات کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ڈر ہے کہ یہ اہم ترین اقدام کہیں بازیچہ اطفال نہ بن کر رہ جائے، اور جیسا کہ قوم جانتی ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کا بنیادی باعث یہ تھا کہ وہاں اسلامیات کا مضمون ہندو اساتذہ پڑھاتے تھے جنہوں نے طلبہ کے ذہنوں کو پراگندہ کیا۔ چنانچہ قرآن حکیم کی تدریس میں ابھی سے یہ بنیادی اقدام اٹھانا ازبس ضروری ہے۔ دوسرے قرآن حکیم کی تدریس کے اس مستحسن اقدام کو گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں کے نصابِ تعلیم کا حصہ بنا کر رائج اور نافذ کیا جائے۔
ایوان نے مطالبہ کیا کہ تعلیم کو ترجیح اوّل بناکر کُل قومی آمدنی کا 5 فیصد تعلیمی بجٹ کے طور پر مختص کیا جائے۔ سرکاری اداروں میں تعلیمی سہولیات اور انفرااسٹرکچر بہتر بناکر ان کو عالمی معیار کے برابر لایا جائے۔
ایوان کا کہنا تھا کہ تعلیم ایک مقدس فریضہ اور انسانی اخلاق، رویوں اور سوچ کی اصلاح کا عظیم مشن ہے۔ بدقسمتی سے اٹھارویں ترمیم میں اس عظیم مشن اور مقدس فریضے کا قبلہ تبدیل کرکے، اسے انڈسٹری اور مال کمانے کا ذریعہ بنادیاگیا ہے۔ چنانچہ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ ایک نئی ترمیم لاکر اسے انسانیت کی اصلاح اور فلاح و بہبود کا ذریعہ بنایا جائے۔ دوسرے اسی اٹھارویں ترمیم میں تعلیم کو مرکز سے لے کر صوبوں کے حوالے کرکے قومی سوچ اور یکجہتی کو شدید خطرات سے دوچار کردیا گیا ہے، جس کے عملی مظاہر صوبائیت اور لسانیت کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ چنانچہ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ تعلیم کو ایک اور ترمیم لاکر، وفاق کی ذمہ داری قرار دیا جائے اور اسے صوبوں سے لے کر مرکز کے کنٹرول میں پھر سے دیا جائے، اور اس طرح قومی وحدت اور یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔