اگر سرسید نہ ہوتے

ڈاکٹر معین الدین عقیل
سرسید احمد خان کی پیدائش کی دوصد سالہ تقریبات کے دوران پاکستان میں تین سیمینار منعقد ہوئے، متعدد افراد نے ان میں شرکت کی اور سرسیدکے حالات اور آثار پر اپنے مضامین اور خیالات پیش کیے۔ ان میں جو خیالات سامنے آئے اُن میں ایک دو وہ بھی تھے جن کے مطابق سرسید نے اسلام اور اسلامی عقائد و تعلیمات کو مسخ کیا اور اسلامی عقائد اور تہذیبی تصورات کو اور ان کے توسط سے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ ایسا کہتے یا لکھتے ہوئے کسی نے، میری معلومات کی حد تک، ان نقصانات کی مدلل اور قرار واقعی مثالیں نہ دیں جو اُن کے خیال میں سرسید کے پیش کردہ ان خیالات کے بعد برعظیم کے مسلمانوں میں پھیلیں یا عام ہوئیں، اور جن سے اسلام یا مسلمانوں کو نقصان پہنچا۔ معلوم نہیں ایسے ناقدین کے سامنے وہ کارنامے اور سراسر فائدے کیوں نہیں رہتے جو نقصانات کے مقابلے میں (جو اگر ہوئے ہوں) سرسید سے مسلمانوں کو بحیثیت قوم پہنچے، اور ان کا تناسب اُن نقصانات سے کہیں زیادہ ہے کہ اس تناسب کا مقابلہ بھی شاید نہ ہوسکے۔ سرسید نے علمی، سیاسی اور اصلاحی و مذہبی میدانوں میں جو جو کام کیے یا جتنا کچھ لکھا، ان سب میں ان کی مذہبی حوالوں سے کوششوںکا تناسب کیا ہوگا؟ کیا دس پندرہ فیصد سے زیادہ ہوگا؟ جب کہ سرسید تو اپنے باقی پچاسی نوّے فیصد کاموں کی وجہ سے’’سرسید‘‘ ہیں، اور ان کے سارے کام مسلمانوں کے قومی و سیاسی اور ادبی و علمی فوائد کا سبب بنے۔ جب کہ نقصانات کا تو تعین ہی کچھ آسان نہیں اور جو بہت واضح اور یقینی بھی نہیں، اور جن سے مسلمانوں کی مذہبی زندگی اور ان کے اعمال و اشغال میں کوئی تبدیلی بھی نہ آئی کہ ہم کہہ سکیں کہ یہ عقیدہ و مسلک مسلمانوں میں سرسید کی وجہ سے ہے اور خلاف ِ اسلام ہے۔
سرسید کی علمی و سیاسی اور اصلاحی و تعلیمی خدمات اور ساتھ ہی ان کی مذہبی خدمات کی انفرادیت اور ان کے اثرات پر متعدد مبسوط معیاری مطالعے سامنے آتے رہے ہیں، جنھیں ان مذکورہ سیمینار کے شرکا اور دیگر مصنفین یا سرسید کے ناقدین نے بالعموم ملاحظے میں نہ رکھا، بلکہ زیادہ تر نے صرف ضیاالدین لاہوری کی تصانیف، یا زیادہ سے زیادہ ابوسلمان شاہجہاں پوری کی ایک دو تحریروں کو سامنے رکھ کر اپنے پسندیدہ مطالب اخذ کرلیے اور یہ نہ دیکھاکہ ان حضرات کے ان بیان کردہ خیالات کا پس منظر کیا تھا اور خود ان حضرات کے پیش نظر کون سے مآخذ رہے جن سے ان حضرات نے مطالعے کے اپنے مطالب اخذ کیے ہیں، اور اس طرح کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کا نقطۂ نظر کیا تھا۔ ان حضرات نے تحقیق، دیانت اور ضابطے کا لحاظ کیے بغیر زیادہ تر ضیاالدین لاہوری کے پیش کردہ متون پر انحصار کیا، جب کہ راست سرسید کی تحریروں کو، جو’’مقالاتِ سرسید‘‘ کی 17 جلدوں میں عام دستیاب ہیں اور خطوط، خطبات اور سفرناموں کی جلدیںاس پر مستزاد ہیں اور یہ سب لاہورکی مطبوعہ ہیں اور کمیاب نہیں۔ ضیا الدین لاہوری اپنے ایک مخصوص کانگریسی نقطۂ نظر کے سبب معروف ہیں اس لیے سرسید کے بارے میں ان کی تحریروں میں ان کے جانب دارانہ نقطۂ نظر کو نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے خیالات پر انحصار علمی اعتبار سے یک رُخا اور تحریفانہ سمجھنا کچھ بعداز امکان نہیں ہے۔
معلوم نہیں ان ناقدین کا سرسید کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ کے بارے میں، اور اس کے حوالے سے اس کے مصنف کی اسلام سے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کے بارے میں کیا رائے ہے کہ کیا اسلام کی پوری تاریخ میں سیرتِ طیبہؐ پر، اور وہ بھی غیر مسلموں کی جانب سے کیے جانے والے اعتراضات کے جواب میں، اس سے زیادہ وقیع اور معیاری تصنیف کسی بھی زبان میںکوئی اور ہے یا کسی اور نے لکھی؟ جس کے لکھنے کے لیے سرسید نے کیا کیا جتن نہ کیے! اس ضمن میں ایک راست اور بنیادی ماخذ الطاف حسین حالی کی تصنیف ’’حیاتِ جاوید‘‘ میں درج کردہ معلومات کافی ہیں کہ سرسید نے اس کی تصنیف کے لیے اپنے کس اور کیسے جذبے کے تحت اپنا کیا کیا مال و متاع قربان کردیا اور سارے معمولات ِ زندگی ترک کرکے دور دراز کا سفر اختیار کیا، اور وہاں بھی عیش و آرام سے زندگی گزارکر نہیں… صعوبتوں اور مشکلات میں رہ کر وہ کتاب لکھی جو اپنے موضوع پر بلا کسی اختلاف بے مثال اور لاجواب تصنیف ہے۔ بعد میں شبلی نعمانی کی تصنیف ’’سیرت النبیؐ‘‘ بھی سرسید کی ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ کے انداز میں ایک مستشرق کی تصنیف کے جواب ہی میں لکھی گئی تھی اور سرسید ہی کی پیروی کا اس میں اثر موجود ہے۔ کیوںکہ سرسیدکی تصنیف ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ سر ولیم میور(Sir William Muir 1840ء۔1900ء) کی تصنیف Life of Mohamed and the History of Islam in the era of Hejira مطبوعہ لندن، 1861ء کی غلط بیانیوں اور غلط نتائج کی تردید اور تصحیح پر مشتمل تھی۔ جب کہ شبلی کی معرکۃ الآرا تصنیف کا ایک محرک بھی دراصل ایک مستشرق ڈیوڈ سیموئل مارگولیوتھ (David Samuel Morgoliouth،1856ء۔1940ء) کی تصنیف: Mohmmed and the Rise of Islamکی کمزوریوں اور خامیوں کی تصحیح و تردید پر مشتمل تھا، جو شبلی کے لیے ایک وجہ اضطراب بنی تھی۔ غالباً سرسید کی تصنیف ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ سے تو کسی کو اختلاف نہ ہوا ہو، یا کم از کم میرے علم میں اس کے بارے میں کسی اختلاف کا واقعہ نہیں، لیکن سرسید کی تفسیر: ’’تفسیر القرآن و ہُدیٰ و الفرقان‘‘ اور تفسیری مضامین، جو متنوع اور بکثرت ہیں، وجۂ اعتراض بنے ہیں، جب کہ اختلاف و تنقید کرنے والوںکی نظر سے شاید ایسی سب تحریریں گزری بھی نہ ہوں، لیکن انھوں نے بعض معروف حکایات سن کر ہی سرسید کی جانب سے رائے زنی شروع کردی، کیوںکہ اکابر کے بارے میں اختلافی رائے اور اعتراض کرنے والوںکو توجہ اور شہرت حاصل ہوجاتی ہے۔
یقینا عامۃ المسلمین کو سرسید کے بعض مذہبی خیالات سے اتفاق نہیں ہوسکتا اور نہ سب ہی نے ان سے اتفاق کیا ہے، یہاں تک کہ ان کے انتہائی قریبی رفقا اور دوست، جو سرسید پر جان چھڑکتے تھے، سرسید کے بعض مذہبی خیالات سے متفق اورخوش نہ تھے اور برملا اپنی نااتفاقی کا اظہار بھی کرتے رہے۔ لیکن وہ دیکھتے تھے اور سب ہی دیکھ سکتے تھے کہ سرسید کے قلب و نظر میں مسلمانوں اور اسلام سے کس حد تک دردمندی اور عملی اخلاص شامل تھا۔ سرسید نے جو خیالات پیش کیے وہ بڑی حد تک ان کے ذاتی اور طبع زاد خیالات تھے، لیکن اُن خیالات میں، جو تنقید و اعتراض کا نشانہ بنے، واقعتا ان کے پیش کرنے میں سرسید تنہا نہ تھے، ماضی میںکئی نامور علما و مفسرین ان جیسے خیالات پہلے پیش کرچکے تھے۔ سرسید سے اختلاف ایک اور بات تھی لیکن سرسید کی مخالفت خود مسلمانوں میں اُس وقت سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے جب سے سرسید نے اپنی ایک الگ دنیا تعمیر کرنے یا ہندوؤں سے اپنی راہ کو الگ کرنے اور ’انڈین نیشنل کانگریس‘ کے قیام کے بعد مسلمانوں کی نمائندگی اور ان کے قومی وسیاسی تحفظ کے لیے الگ مسلم انجمنوں اور جماعتوںکے قیام کو عملی جامہ پہنایا۔ اُس وقت کے بعد سے سرسید ایک طبقے میں ایک مخالفانہ زاویۂ نظر سے بھی دیکھے جانے لگے۔ ان سے اختلاف کرنے والوں نے مذہبی حوالوں سے سرسید کو نشانہ بنایا، جن میں علما بھی تھے اور عام مسلمان بھی۔ عام مسلمان تو کچھ کر نہ سکتے تھے لیکن جن علما نے مخالفت کی اور سرسید کو کافر تک قرار دے دیا اور اگرچہ خود روایتی نوعیت کے مخلصانہ تعلیمی ادارے قائم کیے، بلکہ عیسائی مبلغین کے ساتھ مناظرے بھی کیے لیکن انھوں نے نہ ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ جیسی کوئی کوشش کی اور نہ سر ولیم ہنٹر کی مسلمانوں کے خلاف کتاب:”Our Indian Musalmans…..” پر سرسید کی طرح کسی ردعمل کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کے حق میں، ان کے اُس وقت کے حالات میں ان کے تحفظ اور ان کی بھلائی و بہتری اورترقی کے لیے جو کچھ سرسید نے کیا اس کا محور یہ رہاکہ خود کے اور مسلمانوںکے سر پر ’لا الٰہ الااللہ کا تاج سجا رہے‘۔ اس سطح اور اس زور و اثر کا کوئی کام کسی اور سے اس وقت انجام نہ دیا جاسکا۔
مذہبی عقائد و نظریات سے قطع نظر سرسید کے سیاسی و قومی نقطۂ نظر سے بھی مسلمانوں کے ایک طبقے کو اختلاف رہا ہے، یا وہ طبقہ سرسید کے ان خیالات پر معترض رہا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ سرسید نے مذہبی خیالات سے ہٹ کر جو کچھ کیا،کیا وہ کسی اور مسلمان نے اُس وقت کیا؟ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب سارے مسلمان انگریزوں کے باغی اور’’غدار‘‘ قرار دیے جانے کے بعد حکومت کے اس حد تک شدید ظلم وستم کا شکار ہوئے کہ ان کا قومی وجود تک خطرے میں پڑ گیا، اور مستقبل مخدوش اور غیر یقینی ہوگیا تو یہ سرسید ہی تھے جنھوں نے، سرکاری ملازم ہونے اور قانونی پابندی کے باوجود، اپنی کتاب: ’’رسالہ اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر انگریزوںکے رویّے اور ظلم و ستم پر ان پر برملا تنقید کی اور اس جنگ یا بغاوت کا سبب مسلمانوں کے عزائم کے بجائے خود انگریزوں کی غلطیوں اور زیادتیوں کو قرار دیا، اور اس طرح دراصل مسلمانوں کو بے قصور ٹھیرایا۔ ان کی اس تصنیف کا اثر ہی تھا کہ حکام بالاکے رویوں میں مسلمانوں کے بارے میں نرمی پیدا ہوئی، ظلم و زیادتی کا زور کم ہوا اور وہ ہندوستانی ایوان ِ نمائندگان میں نمائندگی کے حق سے بہرہ مند ہوئے۔ اگر سرسید یہ کتاب نہ لکھتے تو یہ یقین کیا جاسکتا تھا کہ مسلمان ہر طرح پس ماندہ رہ جاتے اور ان کی کہیںکوئی شنوائی نہ ہوتی (سرسید کی اس کتاب کی تصنیف کے پس منظر اور حکام بالا پر اس کے اثرات کا ایک تفصیلی مطالعہ ’’رسالہ اسباب بغاوت ہند‘‘ مرتبہ: معین الدین عقیل، شائع کردہ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی، میں کیا جاسکتا ہے)۔
اس تصنیف کے سیاسی اور قومی فوائد سے قطع نظر، جو مسلمانوں کو حاصل ہوئے، سرسیدکی وہ کوششیں جو مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ اور بہتری کے لیے علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی اور علی گڑھ کالج کے قیام کی صورت میںعمل میں آئیں، مسلمانوں کے لیے مستقبل میں بیش بہا فوائد کا سبب بنیں اور ان سے پیدا ہونے والے شعور کے تحت اور ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘کی ہندو قوم اور قومیت کے فروغ کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں کے جواب میں ’’پیٹریاٹک ایسوسی ایشن‘‘ اور ’’محمڈن ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘، ’’مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ اور بالآخر’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے قیام اور اس کی سرگرمیوں نے مسلم قومیت کے احساس اور فروغ کے لیے مسلمانوں میں وہ کچھ کیا جو سرسید کا مطمح نظر تھا۔ علامہ اقبال کی شاعری اور ان کا پیغام بھی سرسید کی کوششوں کے اثرات ہی کا ایک ثمر تھاکہ جس کے ذیل میں اقبال ’’مصورِ پاکستان‘‘ قرار دیے گئے، اور اسی کا ایک نتیجہ تھا کہ ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کی سرکردہ ہندو رہنما سروجنی نائیڈو نے جس مخلص مسلمان کو کبھی ’’پیغامبرِ (ہندو مسلم) اتحاد‘‘ قرار دیا تھا اسی محمد علی جناح نے دو قومی نظریے کو برحق سمجھتے ہوئے مسلمانوںکی علیحدہ قومیت اور ان کے لیے ایک علیحدہ مسلم مملکت کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے وہ کچھ کیا جس پر وہ ’’قائداعظم‘‘ قرار پائے۔گویا پاکستان کا قیام سرسید ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے جس کا راستہ ’’رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ سے نکل کر علی گڑھ کالج کے قیام اور پھر مسلم لیگ کی تشکیل اور قیام پاکستان تک لے جاتا ہے۔ اس حقیقت میں یہ بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے ایک موقع پر ایک انگریز مدبر کے سامنے برملا کہا تھا کہ:’’اگر سرسید علی گڑھ میں کالج قائم نہ کرتے تو اس سے نوجوانوںکی ایک پُرجوش اور باشعور نسل نہ نکلتی، تحریک ِآزادی میں جوش اور ولولہ پیدا نہ ہوتا اور انگریزوں کے دن گنے چنے نہ ہوتے‘‘۔ سرسید کے ناقدین چاہے کچھ کہیں، اگر سرسید نے مصلحتاً انگریزوں کے ساتھ مصالحت کا رویہ اختیار کیا تو اس سے مسلمانون کو نقصان کیا پہنچا؟ نقصان پہنچا یا فائدہ پہنچا؟ ان کی انگریز دوستی یا مغرب پرستی نے مسلمانوں کو فائدہ پہنچایا یا نقصان پہنچایا؟
چلیے ایک لمحے کے لیے سرسید کو بھول جائیے اور سمجھیے کہ سرسید پیدا ہی نہ ہوئے۔ تو پھر کیا ہوتا؟ کیا علی گڑھ کالج قائم ہوتا؟ کیا مسلم لیگ تشکیل پاتی؟ کیا علامہ اقبال مفکرِ پاکستان ہوسکتے تھے جو وہ سرسید کے زیراثر اور مسلم لیگ کی جدوجہد کے دوران بنے؟ کیا محمد علی جناح بھی’’ قائداعظم‘‘ بن سکتے تھے جو مسلم لیگ کی تحریک کی قیادت کے سبب بنے؟ ہاں، سرسید کے متوازی مسلمانوں میں علما نے مدرسے قائم کیے اور علمی و تعلیمی ادارے قائم کیے، لیکن ان میں سے کتنے تھے جن کی سیاسی سرگرمیوں سے انگریز بھاگنے پر مجبور ہوئے؟ دیوبند اور ندوہ جیسے اداروں کی کوششیں اور سیاسی سرگرمیاں جو اور جیسی بھی مفید رہیں لیکن سیاست میں ان کا حاصل کیا رہا؟ اداروں سے قطع نظر شخصی حوالوں سے ابوالکلام آزاد سے توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ مسلمانوں کو متحد کریںگے، لیکن وہ تو ہندوؤں کی گود میں جابیٹھے اور جو کچھ ہندو سیاست نے چاہا وہ اور دیوبند کے علما کی اکثریت نے بھی وہی چاہا۔ مولانا مودودی نے ایک اپنی دنیا تعمیر کرنی چاہی اور ذہنوں کی تعمیر کی حد تک وہ کامیاب بھی رہے، لیکن کیا ان کی کوششوں سے، اور اُس وقت مسلم لیگ اور قائداعظم کی عدم موجودگی میں، کوئی اور رہنما اور مذہبی و قومی سیاسی جماعت پاکستان کے قیام کو یقینی بناسکتی تھی؟ گویا آج ہم اپنے خوابوں کے مطابق آزاد ہیں تو سرسیدکی وجہ سے۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سرسید کے تفسیری خیالات اور مغرب پسندی نے عامۃ المسلمین کے عقائد ہرگز تبدیل نہ کیے، انھیں مسلمان ہی رکھا اور اپنے سارے دیگر کاموں کو مسلمانوں کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے اس طرح وقف رکھا کہ وہ ایک آزاد مسلم مملکت قائم کرسکیں۔ اس طرح سرسید اگر ’’رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ نہ لکھتے اور علی گڑھ کالج قائم نہ کرتے تو قیام پاکستان کا امکان شاید مسلمانوں کے تصور میں بھی نہ رہتا، اور نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد مسلمان بھارت میں اس طرح کی زندگی گزار رہے ہوتے جو آج کشمیر اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کی مفلسی، تنگ دستی اور مجبوریوں اور محرومیوں میں نظرآتی ہے، جہاں اکثر علاقوں میں وہ اپنے مذہبی عقائد اور رسومات پر کاربند رہنے کے بھی اب مجاز نہیں، اور عقائد کی تبدیلی یا ترکِ اسلام تک کو گوارا کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔