حیدرآباد (سندھ) سے ایک صاحب فرحت سعیدی نے صحیح پکڑ کی ہے کہ گزشتہ کالم میں آپ نے کمالی صاحب کو اہلِ علم اور اہلِ قلم لکھا ہے۔ شاید یہ سہواً ہوا ہے۔ آپ کو صاحبِ علم اور صاحبِ قلم لکھنا چاہیے تھا۔ بہت درست ہے اور توجہ دلانے کا شکریہ۔ ’اہلیان‘ پر تنقید کرتے ہوئے ہم خود یہ لکھ چکے ہیں کہ اہل جمع کے لیے مخصوص ہے اور اہلیان غلط ہے، لیکن اس کا استعمال عام ہے جیسے اہلیانِ کراچی، اہلیانِ حیدرآباد، اہلیانِ جدہ وغیرہ۔ اس کی جگہ اہل کافی ہے۔ چنانچہ ’اہلِ علم‘ بھی اگر کسی فردِ واحد کے لیے استعمال کیا جائے تو کہیں گے ’فلاں شخص اہلِ علم یا اہلِ قلم میں سے ہے‘۔ اہل عربی کا لفظ ہے اور لغت کے مطابق اس کا مطلب ہے صاحب، خداوند، لایق، مناسبت اور صلاحیت رکھنے والا جیسے ’جو شخص جس چیز کا اہل ہی نہ ہو وہ اس کی قدر کیا جانے‘ (انوار اللغات)۔ اہل کا استعمال کئی جگہ ہوتا ہے جیسے اہل اللہ، اہلِ باطن، اہلِ بیت، اہلِ خانہ، اہلِ زبان، اہلِ رائے، اہلِ سنت وجماعت۔ فرحت سعیدی کا ایک بار پھر شکریہ۔ چلتے چلتے ایک شعر ہوجائے:
ہر اک اپنے پہلو میں سمجھا ہے اس کو
سبھی اہلِ دل ہیں اگر دل یہی ہے
18 نومبر کے ایک کثیرالاشاعت اخبار میں ایک ہی خبر میں ’’ہراساں‘‘ اور ’’حراساں‘‘ دونوں موجود ہیں۔ شاید اس لیے کہ قاری کو جو پسند آئے اُس کا انتخاب کرلے۔
ہر اساں کی جگہ ’حراساں‘ اور بھی کئی خبروں میں نظر سے گزرا ہے جب کہ ہائے حطی یا حلوے والے ’ح‘ سے حراساں کوئی لفظ نہیں ہے۔ یہ ’ہراس‘ سے ’ہراساں‘ ہے۔ لیکن مذکورہ خبر کی سرخی مزید مضحکہ خیز ہے جس میں ’’ہراسگی‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ نئی ترکیب متعارف کرائی جارہی ہے جو غلط ہی نہیں نہایت بھونڈی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہر زبان میں نئے نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں جس سے زبان وسعت حاصل کرتی ہے اور یہ انجذاب کسی زبان کو مرنے نہیں دیتا۔ لیکن نئی ترکیبوں یا الفاظ کا کوئی کلیہ، قاعدہ ہوتا ہے۔ ’گی‘ کا استعمال اردو میں شامل کئی الفاظ میں کیا جاتا ہے لیکن یہ تمام الفاظ وہ ہیں جن کے آخر میں ہائے ہوز یا گول ’ہ‘ آتی ہے۔ مثلاً خواندہ سے خواندگی، آمادہ سے آمادگی، زندہ سے زندگی، طرفہ سے طرفگی، خستہ سے خستگی، شرمندہ سے شرمندگی، نغمہ سے نغمگی وغیرہ۔ لیکن کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے آخر میں ’ہ‘ تو آتی ہے لیکن ان میں ’گی‘ نہیں لگتی، جیسے راستہ، ناشتہ، واسطہ۔ ’گی‘ فارسی ہے اور علامت حاصلِ مصدر کی، جیسے بخشندگی، آسودگی وغیرہ۔ اب یہ ’گی‘ کہاں لگے گی اور کہاں نہیں لگے گی اور کیوں نہیں لگے گی اس پر ماہرینِ لسانیات ہی روشنی ڈال سکتے ہیں۔ پروفیسر رئوف پاریکھ نہ صرف اردو کے استاد ہیں بلکہ لغات کی تدوین بھی کررہے ہیں۔ وہ اس بارے میں وضاحت کریں۔ ہم تو بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ’ہراسگی‘ بالکل مہمل ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں یہ ترکیب اردو کی جڑوں میں نہ بیٹھ جائے، جیسے عوام کسی طرح بھی جمع مذکر ہونے پر آمادہ نہیں اور ان کو مونث بنانے ہی پر اصرار ہے۔
ایک صاحب نے (نام یاد نہیں آرہا) جانے کیا سوچ کر ہمیں امتحان میں ڈالا ہے اور دو مصرعے بھیجے ہیں کہ دوسرا مصرع بتایئے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ 20 سال سے اس ادھیڑبن میں مبتلا ہیں کہ دوسرے دو مصرعے کون سے ہیں۔ ایک مصرع ہے:
بلائیں زلفِ جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
اور دوسرا مصرع ہے:
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
حضرت‘ اگر کوئی زلفِ جاناں کی بلائیں لینا چاہتا ہے تو لینے دیجیے، آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ 20 سال میں تو زلفِ جاناں سفید ہوچکی ہوں گی، ان کی بلائیں لینا اپنے سر پر بلا لینا ہے۔ بہرحال ہم نے ایک صحافی اور شاعر جناب فیض عالم بابر سے سراغ لگانے کی درخواست کی کہ صحافی اور شاعر سے بڑھ کر صاحبِ علم ہیں اور کتابوں کا ذخیرہ رکھتے ہیں ۔ وہ غواصی کرکے یہ موتی لائے کہ یہ بلاخیز مصرع بہادر شاہ ظفر کا ہے اور مطلع کا شعر ہے:
بلائیں زلفِ جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
بلا یہ کون لیتا جان پر، لیتے تو ہم لیتے
اس کا مقطع ہے:
لگایا جامِ مے ہونٹوں سے اس نے ہم کو رشک آیا
کہ بوسہ اس کے لب کا اے ظفر لیتے تو ہم لیتے
یہ پانچ اشعار کی غزل ہے۔ لیکن بہادر شاہ ظفر کی جو تصویریں شائع ہوتی ہیں انہیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ خود ان کی بلائیں لی جانی چاہیے تھیں، اور بالآخر انگریزوں نے انہیں رنگون میں قید کرکے ان پریشانیوں سے دور کردیا کہ بلائیں کون لے۔ دوسرا مصرع ’’وہی رفتار بے ڈھنگی‘‘ والا تو شاید کسی بے ڈھنگے کا ہو جو اپنی رفتار کا اعتراف علی الاعلان کررہا ہے۔ یہ تو کسی نے حکومت کے بارے میں کہا ہوگا، اور یہ حکومت کسی بھی ملک کی ہوسکتی ہے۔ قارئین کو چھوٹ ہے کہ جس حکومت پر چاہیں اطلاق کرلیں۔ اس کے بارے میں گمان ہے کہ یہ مصرع عباس خلش کا ہے۔ ان کا مصرع ہے
نہ جانے کون بدلے گا یہ فرسودہ نظام آخر
اس زمین میں نیاز سواتی کی غزل بھی ہے۔ مطلع کا مصرع ہے:
اِدھر تو ناز برداری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
اس غزل کا ایک شعر ہے:
نئے یاروں سے بھی اس شخص کی صاحب سلامت ہے
ہمارے ساتھ بھی یاری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ بے ڈھنگی رفتار عباس خلش کی ہے، نیاز سواتی کی ہے یا کسی اور کی۔ چاہیں تو خود گرہ لگا کر مصرع اپنالیں۔ مثلاً ’’ہماری قوم بھوکی اور ننگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘
نومبر کا مہینہ علامہ اقبال اور فیض احمد فیض دونوں کا ہے۔ علامہ کی انتہائی مقبول غزل یا نظم کا یہ مصرع تو ٹی وی چینلوں پر گانے والوں کا منہ لگنے سے کچھ یوں ہوگیا
’’خودی ہے تیغے فساں لاالٰہ الللّٰہ‘‘
یعنی تیغ کے نیچے زیر لگا کر اسے ’تیغے‘ کردیا گیا ہے جب کہ یہ ہے:
خودی ہے تیغ۔ فساں لا الٰہ الللّٰہ
اس بار فیض کی برسی پر ان کے ساتھ بھی گانے والوں نے یہی سلوک کیا، چنانچہ کہا گیا
’’مقامے فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں‘‘
یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ مصرع ہے
مقام۔ فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
اور مقام کے میم کے نیچے زیر (اضافت توصیفی جیسے روزِ روشن، شبِ تاریک وغیرہ) نہیں ہے۔
فیض کی روح کو تڑپانے کے لیے ایک صاحبِ قلم نفیس صدیقی نے گزشتہ دنوں اپنے ایک مضمون میں فیض کی مشہور غزل میں قافیہ ہی بدل دیا۔ صدیقی صاحب نے مصرع لکھا ہے:
’’آج تم بے حساب یاد آئے‘‘
جب کہ شعر یوں ہے:
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
اس غزل کا قافیہ حساب، شراب وغیرہ ہے اور نفیس صدیقی نے یاد کو قافیہ بنا کر مصرع میں سکتہ بھی پیدا کردیا۔