ماہنامہ ساتھی 40برس کا ہوگیا۔ یہ صرف بچوں ہی کا پسندیدہ نہیں بلکہ بڑوں کا بھی ساتھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس رسالے میں جہاں نو عمر اور نو خیز لکھاریوں کی تحریریں شائع ہوتی ہیں وہیں پختہ کار اور نامور ادیب بھی جلوہ گر ہوتے ہیں ۔
ساتھی تو ساتھی ہی ہوتا ہے، کسی کو سوچ سمجھ کر ہی ساتھی بنایا جاتا ہے اور ساتھی کی خوبیوں ہی پر نظر رکھی جاتی ہے ورنہ ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔ چنانچہ جس نے بھی ساتھی کو ساتھی بنایا ہمیشہ کے لیے اپنالیا۔ ممکن ہے کہ اس میں کچھ کمی بھی رہ جاتی ہو لیکن دھیان میں رہے کہ یہ بڑے اور منجھے ہوئے قلم کاروں کی نہیں بلکہ نوجوان طالب علموں کی کاوشوں کا ثمر ہے جو ہر ماہ خوب سے خوب تر پیش کرنے کے لیے جان لڑا رہے ہیں ۔ چنانچہ 12 صفحات پر مشتمل پہلا شمارہ اس وقت بچوں کے ادب میں سر فہرست ہے۔
چند برس پہلے ماہنامہ آنکھ مچولی بڑے ناموں کے پرچم تلے بڑی دھوم دھام سے شائع ہونا شروع ہوا تھا اوربلا شبہ ہر لحاظ سے ایک ایسا رسالہ تھا جس نے بچوں کے ادب میں نئی تاریخ رقم کی۔ نونہال، بچوں کی دنیا ہی کیا اپنے دور کے اچھے رسالوں بھائی جان، پھلواری وغیرہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ لیکن یہ آنکھ مچولی اپنے ہی بوجھ تلے دب گیا۔ بڑے نام اسے سنبھال سکے نہ بڑا سرمایہ۔ پھر 40سال پہلے ساتھی اپنی مسکین سی شکل لے کر سامنے آیا جس کے ساتھ نہ تو بڑے نام تھے اور نہ ہی بڑا سرمایہ۔ نوجوانوں کی ایک ٹیم تھی اور خلوص کی پونجی۔ نہ صلے کی تمنا نہ ستائش کا خیال ، نیت اچھی ہو اور محنت کا جذبہ ہو تو برکت ضرور ہوتی ہے۔ اس موقع پر کہا جاسکتا ہے کہ ’’ واہ وا شاباش لڑکو واہ وا۔ ساتھی تو ہر ساتھی سے بازی لے گیا۔
اردو صحافت کی مختلف جہتوں پر ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے ہیں ۔ بچوں کے رسائل اور ادب پر بھی کام ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ساتھی ایک بہترین نمونہ ہے کہ یہ کن حالات سے گزر کر آج اس نمایاں مقام تک پہنچا اور اس کے پیچھے کلیم چغتائی سے لے کر موجودہ مدیران ساتھی کا کیا کردار رہا ،کس نے اس کو دلچسپ ترین بنانے میں کتنا حصہ ڈالا۔ درحقیقت یہ محض قصے کہانیوں پر مشتمل عام سا رسالہ نہیں بلکہ اس میں بچوں اور نو خیز ذہنوں کی دینی اور علمی تربیت کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ ہر کہانی بامقصد ہوتی ہے۔ ساتھی کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے بچوں کے کئی ادیب پیدا کیے ہیں۔ کوئی اور رسالہ یہ کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ 40سال مکمل ہونے پر اس کا خصوصی نمبر بھی ایک شاہکار ہے۔ ساتھی سب کا ساتھی ہے۔ اس کے سرورق پر لکھا ہوتا ہے ’’ بچوں کا پسندیدہ رسالہ‘‘۔ لیکن ہم نے تو اپنے جیسے بوڑھوں کو بھی دلچسپی سے پڑھتے ہوئے پکڑا ہے۔