کتاب : رہنمائے تربیت
کارکنانِ دعوت و تبلیغ کے لیے لائحہ عمل
تالیف : جناب ہشام الطالب
ترجمہ : شاہ محی الحق فاروقی
صفحات : 672 قیمت 560 روپے
ناشر : منشورات۔ پوسٹ بکس نمبر 9093۔ علامہ اقبال ٹائون، لاہور
فون نمبر : 0320-5434909
042-35252210-11
ای میل : manshurat@gmail.com
یہ گرانقدر کتاب انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی گئی ہے۔ شاہ محی الحق صاحب نے بڑی دقتِ نظری سے ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن عالمی ادارہ فکرِ اسلامی اسلام آباد سے شائع ہوا تھا۔ یہ دوسرا ایڈیشن منشورات لاہور نے شائع کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی کتب ہر وقت بازار میں دستیاب ہونی چاہئیں۔ کتاب خرم جاہ مراد مرحوم کے نام معنون کی گئی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے محرکین میں سے ایک جناب ڈاکٹر ظفر اسحق انصاری تحریر فرماتے ہیں:
’’اسلام کی دعوت و تبلیغ کا عمل اُمت ِ مسلمہ کا ایسا امتیاز ہے جو ہماری تاریخ کے ہر عہد میں مسلسل جاری رہا ہے۔ گزشتہ صدیوں میں اس کام کی انجام دہی میں بالعموم مذہبی اداروں سے وابستہ افراد پیش پیش رہے ہیں لیکن پچھلے کئی عشروں سے اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور مسلمان معاشروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق استوار کرنے کی جدوجہد کا یہ پہلو قابلِ ذکر نظر آتا ہے کہ اس میں اُن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جن کا تعلق اگرچہ مدرسہ و خانقاہ سے نہ تھا لیکن ان کی دینی غیرت اور دین کی خدمت کا جذبہ دوسروں سے کم نہ تھا۔ اس طرح باضابطہ علماء اور غیر علماء کے اشتراک و تعاون سے کم و بیش ہر جگہ دینی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ان سرگرمیوں کا دوسرا قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ متعدد ایسے ممالک میں بھی جہاں مسلمان اس سے قبل آباد نہ تھے، دینی دعوت و تبلیغ کا کام تیزی سے بڑھا ہے۔ یہ امر مسرت کا موجب ہے کہ غریب الدیاری میں ہمارے بہت سے بھائیوں اور بہنوں کا اپنے دین سے تعلق نہ صرف قائم رہا بلکہ بعض اوقات مزید مستحکم ہوا، اور ان میں یہ جذبہ بھی پیدا ہوا کہ وہ ایک طرف اسلام کی دعوت دوسروں تک پہنچائیں اور دوسری طرف خود اپنی اور اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی اسلامیت کو برقرار رکھنے اور مضبوط اور زیادہ معنی خیز بنانے کا اہتمام کریں۔
چنانچہ انگلستان، فرانس اور امریکہ وغیرہ میں ایسی متعدد تنظیمیں قائم ہوئیں اور اسلامی دعوت کے لیے مختلف قسم کی سرگرمیاں سامنے آئیں۔
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر ہشام الطالب اُن چند نمایاں افراد میں سے ہیں جنہوں نے شمالی امریکہ میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ]ایم ایس اے[ کی داغ بیل ڈالی۔ ان کا تعلق ایم ایس اے کی اس ابتدائی قیادت سے ہے جس نے شمالی امریکہ میں، خاص طور پر وہاں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم مسلمان طلبہ کو بیدار اور اسلامی مقاصد کے لیے ان کو منظم اور متحرک کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ اسلامی سرگرمیوں میں گزرا ہے۔ اس سلسلے میں انہیں مختلف تنظیموں کے کام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان کے اندر یہ خواہش ابھری کہ اسلامی دعوت کو ایسے خطوط پر استوار کیا جائے کہ اس سے وابستہ افراد کی صلاحیتوں کی نشوونما اور ان سے بہتر سے بہتر کام لیا جاسکے تاکہ یہ دعوت زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز بن سکے۔ ڈاکٹر ہشام الطالب نے اپنے مشاہدے، تجربے اور سوچ بچار کا حاصل زیر نظر کتاب کی صورت میں قلم بند کردیا ہے۔
جیسا کہ اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے، یہ مختلف معاشروں میں دینی دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے کچھ رہنما اصول فراہم کرنے کی غرض سے مرتب کی گئی ہے۔ ایسے اصول جن کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو دعوت کا عمل زیادہ مؤثر ہوسکتا ہے۔ یہ کتاب پہلے ’’عالمی ادارہ فکرِ اسلامی‘‘ کے زیراہتمام انگریزی میں، اور اس کے بعد عربی زبان میں شائع ہوئی اور اسے بڑے پیمانے پر تحسین کی نظر سے دیکھا گیا، اور دینی کام کرنے والے افراد اور جماعتوں نے محسوس کیا کہ اس میں ان کے لیے ایک جامع راہِ عمل اور نہایت قیمتی ہدایات موجود ہیں۔
کتاب کے مندرجات کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نظری سے زیادہ عملی پہلوئوں پر مرکوز ہیں۔ ایک فرد کی شخصی تعمیر سے لے کر دعوتِ اسلامی کی توسیع تک، اور اس سلسلے میں مؤثر انداز کے اجتماعات منعقد کرنے سے لے کر دعوتِ اسلامی کی منصوبہ بندی تک، اور دعوت وتبلیغ کے معروف طریقوں کے استعمال سے لے کر عصرِ حاضر کی بہترین سہولتوں کے استعمال پر غور و فکر جیسے بے شمار مسائل اس میں زیر بحث آگئے ہیں۔ کتاب کی اسی افادیت کے پیش نظر ہم اس کا اردو ترجمہ پیش کررہے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے وہ لوگ جو دعوت کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں، بلکہ وہ تمام اردو خواں جو اس میدان میں کام کرنا چاہتے ہیں، اُن کے لیے اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا اور اسلامی مقاصد کے لیے اپنی سعی و جہد میں وہ اس سے عملی طور پر استفادہ کرسکیں گے۔
اس کتاب کے ترجمے کا کام جناب شاہ محی الحق فاروقی صاحب کے سپرد کیا گیا تھا جو نہ صرف ایک کہنہ مشق اور صاحبِ طرز ادیب ہیں بلکہ ترجمے کا بھی سلیقہ اور تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہ صاحب نے بہت توجہ اور قابلیت سے اس کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ چونکہ کتاب نفسِ مضمون کے اعتبار سے عام دینی کتابوں سے مختلف ہے، اس لیے ترجمے کے محاسن سے باخبر ہونے کے باوجود اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس پر نظرثانی کی جائے۔ اس مرحلے پر جناب ممتاز لیاقت صاحب نے ]جو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں میرے رفیقِ کار اور صحافت کا تجربہ رکھتے ہیں[کتاب کے مسودے کا جائزہ لیا اور نظرثانی کے سلسلے میں بعض مفید مشورے دیے۔
اس رہنما کتاب کا استعمال پروفیسر اسماعیل راجی الفاروقی مرحوم و مغفور کی تصنیف ’’توحید: زندگی اور فکر کے لیے اس کا معنی اور مفہوم‘‘ ]انگریزی[کے ساتھ ملا کر کیا جانا چاہیے جو اولاً ’’عالمی ادارہ فکرِ اسلامی‘‘ اور بعد میں طلبہ تنظیموں کی بین الاقوامی اسلامی وفاقیہ کی جانب سے شائع کی گئی تھی۔ زیرنظر کتاب کا بنیادی مقصد اسلام کی تبلیغ کے سائنسی اور فنی پہلوئوں کو اجاگر کرنا اور زیرتربیت افراد کی تیاری کے طریقوں پر روشنی ڈالنا ہے، جب کہ پروفیسر فاروقی مرحوم کی کتاب ’’توحید‘‘ کا تعلق خود اس پیغام یعنی اسلامی تعلیمات کی مناسب انداز میں توضیح سے ہے۔
زیرنظر رہنما کتاب کی ضخامت کو اس حد تک کم رکھنے کے لیے کہ اس کا مطالعہ کرنا آسان ہو، ہم نے اس کے عنوانات کا انتخاب کافی احتیاط سے سوچ بچار کے بعد کیا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ ’’عالمی ادارہ فکرِ اسلامی‘‘ میں وسائلِ انسانی کی ترقی کا شعبہ اپنے کتب خانہ اور دیگر تمام ممکن ذرائع سے کام لے کر دوسرے موضوعات کے بارے میں ضروری مواد پیش کرے گا اور میدانِ عمل میں مصروف کارکنوں کے استفسارات کا تسلی بخش جواب دے کر اس رہنما کتاب کی افادیت میں گرانقدر اضافہ کرے گا۔
اس کتاب میں شامل بہت سے معاملات کا تذکرہ صرف قارئین کو متوجہ کرنے اور انہیں اپنا فرضِ منصبی یاد دلانے کی غرض سے کیا گیا ہے، لہٰذا اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین خود کو صرف اس کتاب تک محدود نہ رکھیں بلکہ بہتر تفہیم اور ادراک کے لیے اپنے مطالعہ کو وسعت دیں، مزید مواد اور ماخذ تلاش کریں، کیونکہ اس میدان میں بڑی تیزی کے ساتھ ترقی ہورہی ہے۔ اس میں مہارت نئی تحقیقات کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان موضوعات سے متعلق کتابوں کا مطالعہ اور کانفرنسوں اور لائبریریوں سے مسلسل رابطہ تربیت دینے والے اور تربیت حاصل کرنے والے افراد دونوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں جس نے اس مشکل کام کو ممکن بنایا۔ اے اللہ! تُو ہمیں صراطِ مستقیم پر چلا۔ آمین‘‘
٭٭٭
کتاب : فکرِ سیاسی کی تشکیلِ جدید
سید احمد خان اور اقبال
مصنف : ڈاکٹر معین الدین عقیل
صفحات : 96 قیمت 180 روپے
ناشر : محمد سعید اللہ صدیق۔ مکتبہ تعمیر انسانیت اردو بازار لاہور
ڈاکٹر معین الدین عقیل انتھک محنت اور تحقیق کے عادی استاد اور دانشور ہیں جن کی خصوصی دلچسپی برصغیر کی تاریخ ہے، اور اس میں مسلمانوں کے مقام اور حالات کا خصوصی مطالعہ ہے۔ انہوں نے اس مختصر کتاب میں سرسید اور علامہ اقبال کے افکار کا جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل تحریر فرماتے ہیں:
’’جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اس خطے میں جو سب سے نمایاں کارنامہ انجام دیا، اس کی جزئیات میں گئے بغیر، محض یہ اشارہ کافی ہے کہ انہوں نے ایک ایسی مملکت قائم کی اور صدیوں تک اسے کامیابی سے قائم رکھا جس نے تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے ان روایات کو جنم دیا جو اس خطے کے لیے ایک نظیر بن گئیں۔ اس کے استحکام، خوشحالی اور ثقافتی امتیازات نے ایک عالم کو اپنی جانب متوجہ کیا، اور یہ مختلف اقوام کے تخیلات کا حصہ بنتی رہی۔ اس کے باوجود اس کے ساتھ المیہ یہ پیش آیا کہ جب اندرونی کمزوریوں اور اخلاق باختگی کی وجہ سے یہ زوال آمادہ ہوئی تو اس نے اپنا روایتی کردار ادا کرنا چھوڑ دیا۔ چنانچہ جب مغربی استعمار نے ایسی صورتِ حال سے فائدہ اٹھاکر اس کے اقتدار پر قبضہ جمانے میں کامیابی حاصل کرلی تو مسلمان ایک ایسے غیر اہم عنصر کی حیثیت سے باقی رہ گئے جس میں زندگی کی حرارت و سرگرمی تقریباً مفقود ہوکر رہ گئی، اور بس اس حد تک باقی رہ گئی کہ جب کوئی دعوتِ مقابلہ (Challenge) اسے درپیش ہوتا تو یہ بروئے کار آتی۔
نوآبادیاتی دور میں تو اس عنصر کو ایک ایسی حقیر سی مذہبی اقلیت سمجھ لیا گیا تھا جس سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اپنے لیے ایک مذہبی اقلیت کے سعادت مندانہ کردار کو قبول کرلیں گے اور تمام امور میں ہندوستانی قوم سے ہم آہنگی پیدا کرلیں گے۔ یہ گمان اُس وقت نمایاں ہوا جب جدید علوم اور تعلیم کے رائج ہونے پر قوم پرستی نے قلب و ذہن کو متاثر کرنا شروع کیا، اُس وقت یہ سمجھا جانے لگا کہ یہ اقلیت چونکہ ایک ہی مشترک وطن میں آباد ہے اس لیے ایک قومی اتحاد کا جزو بن جائے گی۔ لیکن اس قسم کی توقعات مسلمانوں کی نفسیات، ان کی روایات اور ان کے رہنمائوں کے افکار اور ان کی تاریخ سے ناواقفیت پر مبنی تھیں۔ لیکن جب ان ہی روایات اور تاریخ کے تقاضے سامنے آئے تو مسلمانوں نے خود ہر اعتبار سے ایک قوم ہونے کا دعویٰ کردیا اور اس پر قائم بھی رہے، اور اب نئے حالات اور مسائل میں اپنے لیے ایک الگ راہ کے انتخاب اور ایک مختلف منزل تک پہنچنے کے عزم و ارادے اور اس منزل میں اپنی ایک آزاد مملکت کے قیام کو اپنا مقدر قرار دے دیا۔
مسلمانوں کو جنوبی ایشیا میں، اپنی کُل حیاتِ سیاسی میں سب سے شدید دعوتِ مقابلہ کا سامنا جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد کرنا پڑا۔ اس جنگ میں وہ اگر ایک جانب اس کے محرک تھے تو دوسری جانب دیگر مقامی اقوام کے شریک بھی تھے، لیکن نتائج کی سنگینی صرف ان کا مقدر بنی۔ ان حالات میں سید احمد خان کے تجزیے، ان کی فکر، حکمت عملی اور جدوجہد نے اپنی ملّت کے لیے ایک ایسی راہ متعین کی اور اس راہ کے اپنانے کی تلقین کی جس پر چل کر وہ اس منزل تک پہنچ سکتے تھے جو ان کا مطمح نظر ہوسکتی تھی۔ ان کے بعد اگرچہ خود ان کے رفقا اور مقربین نے جدید رجحانات کے تغیرات کو قبول کرنے سے گریز نہ کیا، لیکن ایک مابعد الطبعیاتی طرزِ فکر کے ساتھ عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی نئی تعبیر ایک درمیانی راہ کی صورت میں کی، جس نے اجماع کے تصور اور پارلیمانی جمہوریت کے درمیان ایک توازن قائم کیا اور مسلم قومیت کا ایک ایسا تصور پیش کیا جس سے ایک آزاد اسلامی مملکت کے طور پر تصورِ پاکستان اجاگر ہوا اور حصولِ پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔
اس منزل تک پہنچنے یا پہنچانے کے لیے جن تصورات نے ایک مستحکم شعور کے پیدا کرنے اور مسلم ملت کو اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کیا وہ سید احمد خان اور اقبال کے وہ خیالات ہیں جو انہوں نے اہم سیاسی مراحل میں قوم کے سامنے پیش کیے۔ اگرچہ اس عہد میں بھی ایسے مفکرین و دانشور مسلمانوں میں ان کی رہنمائی کے لیے موجود تھے جنہوں نے اپنے اپنے طور پر، اپنے زاویۂ نظر سے مسلم ملت کو نوآبادیاتی دور میں درپیش مسائل کے حل کی تدابیر کی بابت خلوصِ دل سے سوچا، لیکن کوئی منظم منصوبہ یا لائحہ عمل ایسا پیش نہ کیا جو مسلم ملت کے لیے ایک نجات دہندہ ثابت ہوتا۔ لیکن سید احمد خان کے بعد اقبال ہی ایسے دانشور کے طور پر سامنے آتے ہیں جن کی فکر نے مسلمانوں کے لیے ایک ایسی راہِ عمل متعین کی جس پر چل کر وہ اپنے ملّی تقاضوں کے مطابق ایک مملکت اور ایک معاشرہ تعمیر کرسکتے تھے جو ایک حد تک ہی سہی، انہوں نے کیا۔ یہاں اس تناظر میں سید احمد خان اور اقبال کے ان خیالات کو ان کے پس منظر میں پیش کیا جارہا ہے جن سے جنوبی ایشیا کے نوآبادیاتی عہد کی سیاسی تاریخ میں مسلم ملت کی سیاسی فکر کی تشکیلِ جدید کی ایک نمائندہ اور مؤثر صورت دیکھی جاسکتی ہے۔‘‘
کتاب کی فہرستِ موضوعات درج ذیل ہیں:
٭ سید احمد خان اور اقبال: نوآبادیاتی عہدکے نمائندہ مسلمان مفکرین
٭ جنوبی ایشیا کی نوآبادیاتی سیاست میں سید احمد خان کا زاویۂ نظر
٭ ہندوستانی مسلمان اور سیاست
٭ جنوبی ایشیا کی نوآبادیاتی سیاست میں اقبال کا زاویۂ نظر
٭ ہندوستان میں آزاد اسلامی مملکت کا قیام
٭ اسلام اور قومیت
٭ ہندوستانی قوموں کا اتحاد
٭ ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان
٭ مسلمانوں کا مطالبہ
٭ خاتمہ سخن
٭ماحصل
٭حواشی و تعلیقات
٭فہرستِ اسنادِ محولہ
٭اشاریہ
اس قسم کے موضوعات میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے۔ بحث مباحثہ سے علم اور بھی واضح ہوجاتا ہے اگر یہ اختلاف نیک نیتی سے کیا جائے۔
کتاب مجلّد ہے، نیوز پرنٹ پر طبع کی گئی ہے۔