کراچی۔اجڑی ہوئی عروس البلاد

پاکستان کے سب سے بڑے اور عروس البلاد کہلانے والے شہر کراچی کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ حالت ابتر ہے تو یہ جملہ صورت حال کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اہلِ اقتدار نے اس عروس کا سہاگ لوٹ لیا ہے اور اس حالت تک پہنچانے میں کوئی ایک ذمے دار نہیں ہے۔ جس کو جہاں موقع ملا اُس نے اسے لوٹا۔ نمایاں نام پیپلزپارٹی کا ہے جو برسوں سے سندھ پر قابض ہے لیکن چونکہ اسے کراچی سے پذیرائی نہیں ملتی اس لیے وہ اس شہرِ ناپرساں سے انتقام لے رہی ہے۔ دوسرا بڑا نام ایم کیو ایم کا ہے جو کبھی مہاجروں کے نام سے سامنے آئی، کبھی متحدہ قومی موومنٹ بن گئی اور اب ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے سندھ اسمبلی میں موجود ہے۔ ایم کیو ایم اپنے ہر روپ میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں شریک رہ کر مہاجروں کو تباہ کرتی رہی جن کے نام پر ووٹ لیے جاتے ہیں۔ اب سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال چولا بدل کر سامنے آئے ہیں اور پاک سرزمین پارٹی بناکر مہاجروں کی نمائندگی کے دعویدار بن رہے ہیں۔22 اگست 2016ء کو اگر الطاف حسین اپنی پاکستان دشمنی واضح نہ کردیتے تو آج بھی فاروق ستار، عامر خان وغیرہ انہی کے گن گارہے ہوتے۔ لیکن ان لوگوں نے الطاف حسین کو برابھلاکہہ کر اپنا راستہ صاف کیا اور دوسرے روپ میں آکر کراچی کو لوٹنے کے لیے کمربستہ ہوگئے، ورنہ یہ کوئی راز نہیں کہ الطاف حسین کے ہر جرم میں یہ لوگ شریک رہے ہیں۔ وہ تو لندن سے احکامات جاری کرتا تھا اور یہ سب کے سب ’’ہاں بھائی ہاں‘‘ کہہ کر عمل کرواتے تھے۔ آج بھی الطاف حسین سے ان کے رابطے منقطع نہیں ہوئے ہیں۔ الطاف حسین بلاشبہ را کا ایجنٹ ہے لیکن اس کے سارے بغل بچے الطاف کے ایجنٹ ہیں۔ الطاف حسین تو 2004ء ہی میں دہلی میں کھڑے ہوکر تشکیلِ پاکستان کی علی الاعلان مخالفت کرچکا ہے اور تقسیم کو خونیں لکیر کہہ چکا ہے۔ اس کے باوجود یہ آج کے مہاجر رہنما 2016ء تک اُس سے وابستہ رہے۔ آمر جنرل پرویز مشرف پوری طرح الطاف اور ایم کیو ایم کی لاقانونیت کے پشت پناہ رہے۔ کراچی پر اس سے بڑا ستم اور کیا ہوگا کہ 12 مئی 2007ء کو کراچی کی سڑکوں پر خون کی جو ہولی کھیلی گئی اس کے ڈائریکٹر وسیم اختر اِس وقت کراچی کے میئر ہیں۔ اُس وقت وہ مشیر داخلہ کی حیثیت سے وزارت کے مزے لے رہے تھے۔ میئر بننے کے بعد بھی انہوں نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا اور شہر میں کچرے کے ڈھیر بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ وہ اختیار نہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ تازہ بیان یہ ہے کہ ہم تو کراچی میں پانی کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے لیکن کچرا گلے پڑگیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر قسم کا کچرا عوام ہی کے گلے پڑا ہوا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے بھی شہر کی صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کراچی گندگی کے ڈھیر میں بدل گیا، سندھ حکومت کام ہی نہیں کرتی‘‘۔ گزشتہ منگل کو عدالتِ عظمیٰ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد نے سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی سمیت مختلف علاقوں میں بے ہنگم کھدائی کرکے ڈال دی گئی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کراچی کا کیا بنے گا، کیا ہر وقت کھدا رہے گا، کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب کراچی کے لوگ آسانی سے سفر کرسکیں! اس سے پہلے عدالتِ عظمیٰ کے ایک معزز جج نے کراچی میں سفر کرنے کے بعد کہا تھا کہ تعفن کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہورہا ہے۔ جسٹس گلزار نے کے الیکٹرک کو بھی متوجہ کیا کہ وہ شہریوں کے مسائل حل کرے۔ لیکن کے الیکٹرک مسائل حل کرنے کے بجائے شہریوں کو مزید مسائل میں مبتلا کررہی ہے۔ لوڈشیڈنگ جاری ہے اور استعمال شدہ بجلی سے زیادہ بل وصول کرنا عام ہے۔ جماعت اسلامی کراچی واحد جماعت ہے جو کے الیکٹرک کی زیادتی کے خلاف آواز بلند کررہی ہے اور امیرِ شہر حافظ نعیم الرحمن نے عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔ اب نہ تو سندھ حکومت کراچی کے لیے کام کررہی ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم کے زیر تسلط بلدیہ کراچی کچھ کرتی ہے۔ ماضی میں الطاف حسین کے نہایت معتمد ساتھی جو بعد میں ایجنسیوں کے تعاون سے الگ ہوگئے اور مہاجر قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم حقیقی بنا کر بیٹھ گئے، وہ بھی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے ادوار میں کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔ لیکن اس جرم میں وہ بھی کچھ عرصہ شریک رہے ہیں، وہ کسی کام کے نہیں نکلے، چنانچہ ان کے ساتھ ہی الطاف سے منحرف ہونے والے عامر خان پھر وہیں آگئے جہاں سے چلے تھے۔ ایف آئی اے کی تازہ رپورٹ ہے کہ متحدہ ارکانِ پارلیمان الطاف حسین کے لیے منی لانڈرنگ کرتے رہے۔ ممکن ہے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہو۔ عدالتِ عظمیٰ کے مطابق سارا شہر کھود کر ڈال دیا گیا ہے، اس کی نمایاں مثال کراچی کی اہم ترین سڑک شارع فیصل ہے جس کو ادھیڑ کر چھوڑ دیا گیا ہے، سڑک پر حادثات معمول بن گئے ہیں اور دھول مٹی سے سانس کی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ محکمہ بلدیات نے دو ہفتے قبل ایف ٹی سی تا میٹروپول سڑک کے دونوں طرف چھلائی کرکے چھوڑ دیا ہے۔ اہلِ کراچی کے لیے پانی کی فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس پر مستزاد اب دھرنے بھی شروع ہوگئے ہیں جو فیض آباد دھرنے کی حمایت میں کیے جارہے ہیں۔ ویسے ہی سال میں کئی بار جلسے جلوسوں کی وجہ سے عوام پر راستے بند کردیے جاتے ہیں۔ ٹریفک جام معمول بن گیا ہے۔ کون سا ستم ایسا ہے جو اہل شہر پر نہیں ڈھایا جارہا! گویا ’’آسماں سے جو کوئی تازہ بلا آتی ہے، پوچھتی سب سے کراچی کا پتا آتی ہے‘‘۔ اب عدالتِ عظمیٰ کے اظہارِ برہمی کے بعد کیا سندھ حکومت اور بلدیہ کراچی کچھ سدھار لانے کی کوشش کرے گی، یا وہی رفتار بے ڈھنگی جاری رہے گی۔ اصل مسئلہ وہی ہے جس کا ذکر پہلے کیا گیا ہے کہ سندھ پر پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، جسے کراچی سے ووٹ نہیں ملتے۔ اور جنہیں ملتے ہیں وہ صرف اپنی فکر کرتے ہیں۔ چنانچہ شہر اور شہری لاوارث ہیں۔ عوام کو اس کا ادراک ہی نہیں کہ وہ جنہیں منتخب کرتے ہیں انہیں کام کرنے پر بھی مجبور کریں۔ یہ کوئی راز نہیں رہا کہ ایم کیو ایم سے وابستہ منتخب ارکان کا کردار کیا ہے اور کیا رہا ہے، لیکن نسلی اور لسانی تعصب نے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے۔ صاف ستھری قیادت نظر ہی نہیں آتی۔ آزمائے ہوئے لوگوں کو آزمانے کا چلن عام ہے۔ اب پیپلزپارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کراچی کو بھی فتح کرکے رہیں گے۔ لیکن اس سے پہلے وہ سندھ حکومت کے بارے میں عدالتِ عظمیٰ کے ریمارکس بھی جان لیں۔ کراچی کو فتح کرکے کیا اپنے مفتوحین کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہے گا؟