نبوت

فکر اقبال
فکر اقبال

پیشکش: ابوسعدی

میں نہ عارف، نہ مجدد، نہ محدث، نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام
ہاں مگر عالمِ اسلام پہ رکھتا ہوں نظر
فاش ہے مجھ پہ ضمیر فلک نیلی فام!
عصرِ حاضر کی شبِ تار میں دیکھی میں نے
یہ حقیقت کہ ہے روشن صفت ما تمام
’’وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگِ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام!‘‘
برگِ حشیش: بھنگ کی پتی۔ نشہ آور۔

-1 مجھے نہ معرفت کا مقام حاصل ہے، نہ مجدد ہوں یعنی نہ دین کو تازہ کیا ہے، نہ میں حدیث کا بہت بڑا عالم ہوں اور نہ فقہ کا، اس لیے مجھے معلوم نہیں کہ نبوت کے مقام اور کمالات کی کیا حیثیت ہے؟ یہ حیثیت عارفوں، مجددوں، محدثوں یا فقیہوں کو ہی معلوم ہوسکتی ہے۔
-2 البتہ دنیائے اسلام کے حالات سے پوری طرح واقف ہوں اور آسماں کے ضمیر میں جو کچھ ہے وہ مجھ پر آشکارا ہے۔
-3 موجودہ زمانے کی حیثیت ایک اندھیری رات کی ہے۔ اس اندھیری رات میں، مَیں نے مندرجہ ذیل حقیقت اسی طرح روشن دیکھی ہے، جیسے چاند روشن ہوتا ہے۔
-4 جس نبوت میں مسلمانوں کے لیے قوت و طاقت اور شان و شوکت کا پیغام نہ ہو، اُسے ملّتِ اسلامیہ کے لیے بھنگ کی پتی سمجھنا چاہیے، جسے گھوٹ کر پی لینے سے انسان پر بے ہوشی سی طاری ہوجاتی ہے اور اس کے اعضا کام کے نہیں رہتے۔
ممکن ہے برگِ حشیش سے اشارہ حسن بن صباح کے طریقے کی طرف ہو، جس نے اپنے مرکز کے پاس جنت کے نمونے کا ایک باغ بنایا تھا۔ لوگوں کو بھنگ پلا کر بے ہوش کرتا اور اس باغ میں پہنچا دیتا۔ وہ دوچار روز وہاں بسر کرتے، پھر بھنگ پلا کر انہیں باہر لایا جاتا اورکہہ دیا جاتا کہ فلاں آدمی کو قتل کردو گے تو تمہیں اسی جنت میں پہنچادیا جائے گا، جہاں ہمیشہ رہو گے۔ اسی طرح اس نے فدائیوں کی ایک بڑی جماعت تیار کرلی تھی اور اس کا بنایا ہوا نظام لمبی مدت دنیائے اسلام کے لیے مصیبت کا سامان بنا رہا۔