امام ابوحنیفہؒ
امام اعظم ابوحنیفہؒ 80 ہجری میں پیدا ہوئے۔ امام شعبیؒ اور امام حمادؒ سے حصولِ علم کیا۔ 120 ہجری میں امام حمادؒ کے انتقال کے بعد اپنے درس کا آغاز کیا۔ 150 ہجری میں آپ کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ عمر بھر حکومت کے خلاف رہے۔
٭ علم بغیر عمل کے ایسا ہے جیسے جسم بغیر روح۔ جب تک علم بہ ہمہ وجود عمل سے متفق نہ ہوگا کافی ہوگا اور نہ مخلصانہ۔
٭ مصائب گناہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ گناہ گار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مصیبتوں کے نزول کے وقت واویلا کرے۔
٭ تعلقاتِ دنیا کو کم کرنا یہ ہے کہ آدمی دنیا سے ضروری چیزیں لے لے، اور غیر ضروری چھوڑ دے۔
٭جو علم کو دنیا کمانے کے لیے حاصل کرتا ہے علم اُس کے قلب میں جگہ نہیں پاتا۔
٭ جس کو علم نے معاصی وفواحش سے باز نہ رکھا اُس سے زیادہ زیاں کار کون ہوگا؟
٭ حصولِ علم کے لیے دلجمعی درکار ہے اور دلجمعی معلومات کے بڑھانے سے نہیں، گھٹانے سے حاصل ہوتی ہے۔
گنجینۂ اقوال
(مرتبہ: سعید اے شیخ)
حضرت ذُوالنّون کی کرامت
بیان کیا جاتا ہے، ایک سال دریائے نیل نے مصر کی زمین کو سیراب نہ کیا۔ بارش بھی نہ ہوئی، قحط کے آثار پیدا ہوگئے اور لوگ مضطرب ہوکر دعائیں مانگنے لگے۔ کچھ لوگ حضرت ذُوالنّون مصری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ دعا فرمایئے کہ اللہ پاک بارش برسا دے۔ مخلوق کے ہلاک ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
جب یہ لوگ رخصت ہوگئے تو حضرت ذُوالنّون نے سامانِ سفر درست کیا اورایک ملک بدین کی طرف نکل گئے۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد خوب بارش ہوئی اور قحط کا خطرہ ٹل گیا۔
حضرت ذُوالنّون ؒ بارش ہونے کے بیس روز بعد مصر لوٹ آئے۔ لوگوں نے اس انداز سے وطن چھوڑنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: میں نے سنا ہے کہ لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث جانوروں اور چرندوں پرندوں کا رزق بھی کم ہوجاتا ہے۔ اس لیے خیال کیا کہ اس سرزمین میں سب سے گناہ گار اور خطا کار میں ہی ہوں۔ چنانچہ میں یہاں سے چلا گیا۔
حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ذُوالنّونؒ کا یہ فرمانا ارزاہِ کسرِ نفسی تھا۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ خاکسار بن کر ہی انسان سرفراز ہوتا ہے۔
خاکساری میں بڑائی ہے، غرور اچھا نہیں
گر خُدا توفیق دے تو بن کے رہ تُو خاکسار
دیکھ لو پڑ جاتا ہے اکڑی ہوئی گردن میں طوق
سر جھکا کر چلنے والے پاتے ہیں عز و وقار
وضاحت: اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے غرورِ پارسائی کی مذمت کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ زمانہ انسان کے لیے بہت نازک ہوتا ہے جب لوگ اسے نیک خیال کرنے لگتے ہیں۔ اگر اس مرحلے پر وہ خود بھی اپنے آپ کو برگزیدہ خیال کرنے لگے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ شیطان نے اس پر قابو پالیا۔ بزرگانِ دین اس خطرے سے بچنے کے لیے اپنے گرد ایسے لوگوں کو جمع نہیں ہونے دیتے تھے جو اُن کی مدح خوانی ہی کرتے رہتے ہوں۔ غور کیا جائے تو دین میں بگاڑ کا بہت بڑا سبب ایسے گروہ کا پیدا ہوجانا ہی ہے جو اپنی کرامتوں کا ڈھنڈورا سن کر خوش ہوتے ہیں۔
(حکایتِ سعدیؒ)
مقام بلند
دانش پارے
حضرت ابوبشر شعیب بن حمزہ دینارؒ (779ء) خلیفہ مہدی (775۔785ء) کے ہاں گئے۔ خلیفہ نے کہا: ’’مجھے نصیحت کیجیے‘‘۔ فرمایا:’’اللہ نے آپ کو دنیا میں بلند ترین مقام عطا کیا ہے، آپ آخرت میں بھی ویسا ہی مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیے! کہ آپ اللہ سے بھاگ نہیں سکتے اور موت آپ کو باندھ کر اللہ کی عدالت میں لے جائے گی۔‘‘
کامیابی کا راز
عمر بن عبدالعزیزؒ (717۔720ء) نے حضرت امام حسنؓ (670ء) کے پوتے ابوجعفر محمد بن علیؒ سے کہا کہ قوم نے خلافت کا بوجھ میرے ناتواں کندھوں پر ڈال دیا ہے، مجھے کامیابی کا راز بتایئے۔ ابوجعفرؒ نے کہا: ’’اے امیر! چھوٹے کو بیٹا، بڑے کو باپ اور ہم عمر کو بھائی سمجھیے، چھوٹوں پر رحم کیجیے، بڑوں سے احسان اور ہم عمروں سے محبت۔‘‘
مرتب: علی حمزہ
قرآنِ کریم اور قائداعظم
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے۔ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے۔ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا ہوجائے گا۔ ایک رسول، ایک کتاب، ایک امت۔‘‘
(قائداعظم کا خطاب؍ اجلاس مسلم لیگ کراچی 1943ء(