معروف دانشور اور صحافی سجاد میر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ دنیا بھر کا الیکٹرونک میڈیا تو تین، پانچ یا سات گروپوں کے قبضے میں ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ امریکی کانگریس میں پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا کے لیے پیسے مختص کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جب کوئی مہم چلائی جاتی ہے وہ پیڈ کمپین ہوتی ہے۔ پوری دنیا سے خریداری کا یہ کام جاری ہے اور ہمارے ہاں بھی لوگ بچے ہوئے نہیں ہیں، دانستہ ذہنوں کو آلودہ کیا جارہا ہے اور انتشار پیدا کیا جارہا ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی میڈیا مغرب کے زیراثر ہے، اس کے ذریعے پاکستانی سماج و معاشرہ امریکہ کے نشانے پر ہے، اور انتہائی منظم انداز میں میڈیا کے ذریعے معاشرے کو بانجھ اور سیکولرائز کرنے کا گھناوئنا کھیل جاری ہے۔ بیرونی سرمائے کی آمد کا ایک مظہر پاکستان میں بننے والے ٹیلی ویژن ڈراموں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمارے یہاں جس قسم کے ڈرامے بنائے اور پیش کیے جارہے ہیں ان کے موضوعات کو دیکھ کر یہ کہنا اب مشکل نہیں رہا کہ سجاد میر کا کہا سو فیصد درست ہے۔ دنیا بھر میں ڈرامے سماجی تبدیلی کا اہم ذریعہ رہے ہیں۔ سماج میں جو کچھ ہوتا ہے ڈرامے اُس کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ روزمرہ زندگی کے ترجمان ہوتے ہیں۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی مسائل ان کے بڑے موضوعات رہے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستانی ڈرامے خصوصاً پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے نہ صرف پاکستانی قوم میں بے حد مقبول تھے بلکہ پوری دنیا خصوصاً جنوبی ایشیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہمارے ڈرامے ہندوستان اور کشمیر تک میں دیکھے جاتے تھے۔ پی ٹی وی نے جاگیرداری، سرمایہ داری اور سماجی برائیوں کے خلا ف کئی ڈرامے پیش کیے۔ جو معاشرے میں ہورہا تھا اُس کا عکس ڈراموں میں نظر آتا تھا۔
آج بھی ڈرامے پاکستانی میڈیا کا سب سے مضبوط اور مؤثر ذریعۂ اظہار ہیں، جن کے ناظرین کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ مگر جب سے نجی چینل آئے ہیں انہوں نے بھارتی ڈراموں سے متاثر ہوکر اب ایسے ایسے موضوعات پر ڈرامے بنانے شروع کردیے ہیں جو معاشرے میں وجود ہی نہیں رکھتے۔ ایسے موضوعات جو معاشرے اور زندگی کو کرپٹ کررہے ہیں۔ یہ ڈرامے کوئی تعمیری کردار ادا نہیں کررہے بلکہ انہوں نے ڈراموں کا مزاج ہی بدل کررکھ دیا ہے۔ ان ڈراموں میں نہ ہماری تہذیب ہے، نہ ہماری راویت ہے اور نہ ہی شرافت کی کوئی جھلک نظر آتی ہے۔ نجی چینل ریٹنگ بڑھانے کے لالچ میں کسی بھی قسم کا ڈراما اپنی اسکرین پر چلانے کو تیار ہیں۔ اسی طرح روشن خیالی کے نام پر استثنائی مسئلوں کو عمومی بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ باپ، بہن، بھائی، ماموں جیسے رشتوں پر شکوک و شبہات پیدا کیے جارہے ہیں۔ ہمارے ڈراموں میں یہ بتانے اور ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عورت کو سب سے زیادہ خطرہ ہے تو ان قریبی رشتوں سے ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج کے ہمارے ڈراموں میں کیا ہے، سوائے گلیمر کی فراوانی، اخلاق باختگی، عورت کے حقوق کے نام پر عورت کی تذلیل، لذت پرستی سے بھرے موضوعات جن کو افرادِ خاندان کے درمیان بیٹھ کر دیکھا بھی نہ جاسکے، مزاح کے نام پر اخلاق سے گری کامیڈی؟ جینز پہنی عورت تہذیب یافتہ دکھائی جائے گی تو دوسری طرف نماز، روزہ کی پابند عبادت گزار خاتون کے سماجی معاملات بھی خراب ہوں گے۔یعنی ڈراموں میں مذہبی فکر کے حامل کرداروں کے صرف منفی پہلوئوں پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا مرد طلاق دے رہا ہے اور ہر دوسری عورت ’’خلع‘‘چاہتی ہے، اور ہمارے ڈرامے ان کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر ان ڈراموں میں جو ثقافت دکھائی جا رہی ہے وہ قطعی طور پر ہمارا طرزِ معاشرت نہیں ہے۔ جس ملک کی آبادی کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے وہاں ڈراموں میں پُرتعیش زندگی دکھائی جارہی ہے۔
مثال کے طور پر ’’نصیبوں جلی‘‘، ’’دلدل‘‘، ’’یقین کا سفر‘‘، ’’غیرت‘‘، ’’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘‘، ’’آدھی گواہی‘‘ سے آپ کون سا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں اور پاکستان اور اسلام کی کون سے تصویر دکھانا چاہتے ہیں؟ چینلز بیرونی پیسے اور ریٹنگ کے چکر میں صنفِ نازک کا استحصال کررہے ہیں۔ عورت کا کردار مظلوم بناکر رونے دھونے کا ہو یا مختصر لباس پہنا کر اُسے پیش کیا جائے، اُس کا یہ کردار ریٹنگ بڑھانے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ ڈراما انڈسٹری میں معاشرے کی خرابیوں کو اجاگر کرنے کے بجائے اس کے مضحکہ خیز پہلوئوں کو دکھانے کے لیے اب ایسے خودساختہ موضوعات پر ڈرامے بن رہے ہیں جو معاشرے کے اصل مسائل نہیں ہیں، لیکن ایسے ڈراموں کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں۔ چینلز کی اس دوڑ میں ڈرامے بڑی تعداد میں تیار ہورہے ہیں۔ پہلے ہم صرف رات آٹھ بجے ڈراما دیکھتے تھے۔ اب 24 گھنٹے دیکھتے ہیں۔ جہاں نت نئے اداکار اور نئے نئے ہدایت کار ہیں وہیں نئے لکھاریوں نے بھی تباہی مچائی ہوئی ہے۔ صحافت کے اس اہم میڈیم کا غلط استعمال بلکہ استحصال ہورہا ہے، اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مستند ڈراما نگاروں نے ڈراما لکھنا چھوڑ دیا ہے اور ڈائجسٹوں میں لکھنے والے ڈرامے لکھ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پروڈکشن کے اعتبار سے، کہانی کے اعتبار سے، مکالموں کے اعتبار سے… ہر عنوان سے ڈراما پیچھے چلا گیا ہے۔ اردو ڈراموں میں آغا حشر کاشمیری کو بابائے ڈراما ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ لیکن انہیں فارسی، ہندی، عربی اور دیگر کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اب ہمارے یہاں لکھنے والوں کی کیا صورت حال ہے، اس کا اظہار ڈراموں کی زبان سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ امجد اسلام امجد اور حسینہ معین جیسے ڈراما نگار بھی کہتے ہیں کہ ہم کس کے لیے لکھیں؟ کہا جاتا ہے کہ لکھاری کسی معاشرے کا نباض ہوتا ہے جو مختلف بکھری کہانیوں کو جوڑ کر ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں لکھاری جن موضوعات پر لکھ رہے ہیں وہ تو معاشرے کی منفی تصویر پیش کررہے ہیں اور معاشرے کو بکھیرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
پاکستانی ڈرامے میں جو کچھ پیش کیا جارہا ہے وہ تو بالکل عیاں ہے کہ ایک منظم منصوبے اور حکمت عملی کے تحت پیش کیا جارہا ہے۔ اس صورتِ حال میں پیمرا سے کسی مثبت عمل کی امید رکھنا تو عبث ہے، لیکن معاشرے، سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی خاموشی بڑا المیہ ہے۔ میڈیا کے ذریعے پورے معاشرے کو کنٹرول کرنے کا عمل جاری ہے لیکن میڈیا کو کون کنٹرول اور ضابطوں کا پابند کرے گا؟ اس پر آواز اٹھانا تو کجا، کوئی غور وفکر کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ اگر معاشرہ اجتماعی طور پر اسی طرح خاموش رہا تو حالات بتا رہے ہیں کہ کشتی پوری کی پوری ہی ڈوبنے والی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹی وی چینلز کو اصول وضوابط کا پابند بنانے کے لیے اجتماعی رویہ تبدیل اور قوم کو اپنی آنے والی نسل کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔