گمشدہ صدیوں کا ماتم
اس برصغیر میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا، وہ مینارِ قراردادِ پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں مگر ان کے درمیان ذرا سی مسافت جس میں سکھوں کا گوردوارہ اور فرنگیوں کا پڑائو شامل ہیں، تین صدیوں پر محیط ہے۔
میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان گم شدہ صدیوں کا ماتم کررہا تھا۔ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی:
جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہوجائیں، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے، ملک کے بجائے مفاد، اور ملت کے بجائے مصلحت عزیز ہو، اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہوجائے تو صدیاں یوں ہی گم ہوجاتی ہیں۔ (’’آوازِ دوست‘‘ از مختار مسعود)
لاآباد میں ایک ایٹ ہوم میں خان بہادر سید اکبر حسین اکبر بھی شریک ہوئے۔ وہاں طرح طرح کے انگریزی لباس پہنے ہوئے ہندوستانی جمع تھے۔ ایک کالے صاحب بھی تھے۔ ان کو انگریزی لباس جچتا نہ تھا۔ ان پر حضرت اکبر پھبتی کستے ہیں
ہر چند کہ کوٹ بھی ہے پتلون بھی ہے
بنگلہ بھی ہے پاٹ بھی صابون بھی ہے
لیکن میں پوچھتا ہوں تجھ سے ہندی!
یورپ کا تری رگوں میں کچھ خون بھی ہے
نادان لڑکا
بیان کیا جاتا ہے، ایک شخص نے ایک بچے کو کلہاڑی دے کر تاکید کی کہ اس سے لکڑیاں کاٹ۔ لڑکے نے کلہاڑی لے کر اس سے مسجدکی دیوار کھودنی شروع کردی۔ شخصِ مذکور نے دیکھا تو لڑکے کو خوب ڈانٹا اور اس کے کان اینٹھ کر کہا کہ نالائق! میں نے یہ کلہاڑی لکڑیاں کاٹنے کے لیے دی تھی، تُو اس سے مسجد کی دیوار گرا رہا ہے!
حضرتِ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جو لوگ زبان جیسی پاک چیز سے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کی جگہ اول فول بکتے ہیں، اُن کی حالت اس نادان لڑکے سے مختلف نہیں۔
زباں اس لیے دی ہے ربِ علیٰ نے
شب و روز حمد و ثنا اس کی کیجے
جو دُشنام و بہتان بکتے ہیں اس سے
نہ نام اُن کا ہرگز شریفوں میں لیجے
وضاحت: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں جو بات زبان کے بارے میں کہی ہے وہ دراصل انسان کے تمام اعضاء و جوارح کے لیے ہے۔ یقینا یہ سب اللہ پاک کی بیش بہا نعمتیں ہیں اور شکرِ نعمت یہ ہے کہ ہر عضو سے اچھا کام لیا جائے۔ ہاتھوں سے بھلائی کے کام کیے جائیں، پیروں سے چل کر اچھی جگہ جایا جائے، کانوں سے اچھی بات سنی جائے، آنکھوں سے اچھی چیزیں دیکھی جائیں۔ وعلیٰ ہذالقیاس۔ بصورتِ دیگر انسان کا حال اس بچے سے ہرگز مختلف نہیں ہوتا جو کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹنے کی جگہ مسجد کی دیوارگرانے لگا تھا اور سزا کا مستحق ٹھیرا تھا۔
(حکایتِ سعدیؒ)
’ماں کی دعا‘
ایک معزز خاتون کی شادی اسماعیل نامی شخص سے ہوئی۔ اسماعیل ایک متقی شخص اور جلیل القدر عالم تھے۔ انہوں نے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کی شاگردی اختیار کی۔ اس مبارک شادی کا پھل میاں بیوی کو ایک نامی گرامی بچے کی صورت میں ملا جس کا نام انہوں نے’’محمد‘‘ رکھا۔ شادی ہوئے ابھی کچھ ہی سال گزرے تھے کہ اسماعیل بیوی اور چھوٹے بچے کو داغِ مفارقت دے گئے اور وراثت میں کافی دولت چھوڑگئے۔والدہ انتہائی انہماک کے ساتھ اپنے بیٹے کی تربیت میں جت گئیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ایک جلیل القدر عالم بن کر افقِ عالم پر چمکے اور اپنے علم سے تاریک دنیا کو منور کردے۔ لیکن اُن کی حسرت ویاس کا اُس وقت کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب اُن کے بچے کے مستقبل میں ترقی اور اُن کی تمناؤں کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ بچپن ہی میں یہ بچہ اپنی بینائی سے ہاتھ دھوبیٹھا۔ اب نابینا ہونے کی صورت میں یہ بچہ حصولِ تعلیم کے لیے علماء کے دروس میں شرکت کرسکتا تھا، اور نہ حصول علم کے لیے دوسرے شہروں کا سفر اختیارکرسکتا تھا۔ ماں کو یہ غم کھائے جارہا تھاکہ آخر اس بچے کا کیا ہوگا؟ عالم دین کیوں کر بن سکے گا؟ بینائی کے بغیر علم کا حصول کیسے ممکن ہے؟
اس خواہش کی تکمیل کے لیے ایک ہی ذریعہ باقی تھا۔ ایک ہی راستہ تھا، اور وہ راستہ دعا کا تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس پر دعا کے دروازے کھول دئیے اور پورے اخلاص اور سچی نیت کے ساتھ دربارِ الٰہی میں گڑگڑا کر رونے لگی اور اللہ رب العزت کے سامنے دستِ سوال دراز کرکے بچے کی بینائی کے لیے دعائیں مانگنے لگی۔ یہ دعائیں نجانے کتنی مدت تک ہوتی رہیں کہ ایک رات اس نے عجیب وغریب خواب دیکھا، حضرت ابراہیم خلیل اللہ خواب میں نظرآئے، وہ کہہ رہے تھے:
’’اے بی بی! تیری دعاؤں کی کثرت کے سبب اللہ رب العالمین نے تیرے بیٹے کی بینائی واپس کردی ہے‘‘۔جب محمد کی والدہ بیدار ہوئیں تو دیکھا واقعی ان کے بیٹے کی بینائی بحال ہوگئی ہے، ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے:(ترجمہ)’’اے پروردگار! پریشان حال کی دعائیں تیرے سوا کون سن سکتاہے! اور کون ہے جو بندوں کی تکلیفوں کو دورکرتا ہے۔‘‘یہ عظیم خاتون جو مسلسل دعائیں مانگتی رہیں، امام المحدثین محمد بن اسماعیل بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ تھیں جنہوں نے بیٹے کی بینائی لوٹ آنے کے بعد اس کی تعلیم وتربیت اس قدر محنت سے کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے پرعلوم وفنون کے دروازے کھول دئیے، اور پھر آگے چل کر یہ بچہ ایک بہت بڑا محدث بنا اور کتاب اللہ کے بعد دنیا کی صحیح ترین کتاب مرتب کی جو’’صحیح البخاری‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اور بچے کو لوگ امام بخاری کے نام سے جانتے ہیں جن کا پورا نام محمد بن اسماعیل البخاری رحمتہ اللہ علیہ ہے۔
(ماخوذ: مراۃالبخاری)
بوعلی سینا
سن980ء میں پیدا ہوئے، 1037ء میں انتقال ہوا۔ طبیب، ماہر لسانیات، شاعر اور سائنس دان تھے۔ 21 سال کی کم عمری میں پہلی کتاب شائع ہوئی۔ بوعلی سینا نے تقریباً 45 کتب لکھیں۔ فارسی اور عربی کے عالم تھے۔
٭ دل آزاری سب سے بڑی معصیت ہے۔
٭زیادہ خوشحالی اور زیادہ بدحالی دونوں برائی کی طرف لے جاتے ہیں۔
٭میری دو تمنائیں ہیں۔ اول یہ کہ خدا کا کلام سنتا رہوں، دوسری یہ کہ خدا کا کوئی بندہ دیکھتا رہوں۔
٭ بہترین قول ذکر ہے۔ بہترین فعل عبادت اور بہترین خصلت حلم ہے۔
٭ بیماریوں میں سب سے بری بیماری دل کی ہے اور دل کی بیماریوں میں سب سے بری دل آزاری ہے۔
٭ قلتِ عقل کا اندازہ کثرتِ کلام سے ہوتا ہے۔
٭ بغیر بھوک کے غذا نہ کھائیں اور جب بھوک تیز ہو جائے تو بھوکے نہ رہیں۔