ڈونلڈ ٹرمپ ایک عمدہ سیلزمین ہیں اور ان کی شخصیت کا یہ پہلو امریکی تاجروں اور کاروباری اداروں کو بہت پسند ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایشیا کے طویل دورے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے۔ امریکی صدر نے جاپان، جنوبی کوریا، چین، ویت نام اور فلپائن میں 13 دن گزارے۔ دورانیے کے اعتبار سے یہ کسی بھی امریکی صدر کا طویل ترین دورۂ ایشیا تھا۔ اس سفر میں درجنوں امریکی کارپوریشنوں کے سربراہ ان کے ساتھ تھے، جن کی قیادت وزیر تجارت ولبر روز کررہے تھے۔
صدر ٹرمپ کے تدبر، دوراندیشی اور سب سے زیادہ اُن کی زبان کے بارے میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں، بلکہ سابق صدر جارج (ڈیڈی) بش تو صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ ٹرمپ کسی بھی اعتبار سے صدر نہیں لگتے۔ تاہم اس بات پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک عمدہ سیلزمین ہیں اور ان کی شخصیت کا یہ پہلو امریکی تاجروں اور کاروباری اداروں کو بہت پسند ہے۔ امریکی مصنوعات و خدمات کی بیرونِ ملک فروخت میں وہ گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنی ہر ملاقات اور دورے میں وہ اس پہلو کو نظرانداز نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے آنے کے بعد سے امریکہ کے بازارِ حصص میں 30 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا جارہا ہے، اورگزشتہ دس ماہ میں سرمایہ کاروں نے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔
اپنے حالیہ دورے میں بھی انھوں نے سیلزمین کا کردار بہت جارحانہ انداز میں ادا کیا۔ جب جاپانی وزیراعظم نے شمالی کوریا کے میزائل اور ایٹمی پروگرام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جاپان کی حدود میں داخل ہونے والے پیانگ یانگ کے میزائلوں کو مار گرانے کی ضرورت ہے تو صدر ٹرمپ ترنت بولے ’’یقینا ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے آپ کو امریکہ کا میزائل شکن نظام خریدنے ضرورت ہے‘‘۔ شنید ہے کہ جاپان کی وزارتِ دفاع امریکہ کے مشہورِ زمانہ میزائل شکن نظام THAAD اور جوابی حملے کے لیے زمین سے زمین پر داغے جانے والے میزائلوں کی خریداری کے لیے مول تول کررہی ہے۔ کچھ ایسی ہی گفتگو ٹرمپ نے جنوبی کوریا میں بھی کی۔ وہاں امریکی فوجی اڈے Camp Humphreys میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے امریکی میزائل شکن نظام کی افادیت کے اظہار کے لیے سعودی عرب کی مثال دی جہاں چند روز پہلے یمن سے دارالحکومت ریاض کی طرف داغے جانے والے میزائل کو امریکہ کے میزائل شکن نظام نے فضا ہی میں ناکارہ بنادیا۔ جنوبی کوریا میںTHAADکا پورا نظام پہلے سے نصب ہے لیکن معاہدے کے مطابق اس کے سارے اخراجات چچا سام کے ذمے ہیں، جس پر صدر ٹرمپ سخت ناراض ہیں اور وہ جنوبی کوریا کی قیادت پر زور دے رہے ہیں کہ THAAD کا نیا اور بہتر یا Upgraded نظام نصب کیا جائے، اور یہ نیا نظام جنوبی کوریا کو خود خریدنا ہوگا۔ جنوبی کوریا کے عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ نظام بہت مناسب ہے اور فی الحال نیا ایڈیشن خریدنے کی ضرورت نہیں۔
صدر ٹرمپ کے دورے میں تجارت اور امریکی مصنوعات کی فروخت غالب رہی۔ اس کے ساتھ ہی عالمی امور پر ان کا لہجہ خاصا نرم تھا اور شعلہ بیانی پر شیریں کلامی غالب رہی، لیکن اسلام کے تعلق سے اُن کے تعصب اور قلبی نفرت میں ذرّہ برابر کمی محسوس نہ ہوئی اور چین میں سرکاری عشائیے کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور چین کے مشترکہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے دانت پیستے ہوئے مخصوص انداز میں ’’ریڈیکل اسلامی دہشت گردی‘‘ کا ذکر کیا۔ دوسری طرف میزبان صدر ژی نے اپنی گفتگو میں متانت اختیار کرتے ہوئے دہشت گردی، ناانصافی اور بدامنی کے خلاف مشترکہ کوششوں پر زور دیا لیکن کسی مذہب، عقیدے یا لسانی اکائی کا نام نہیں لیا۔
شمالی کوریا کے معاملے پر بھی صدر ٹرمپ کا لہجہ بہت نرم اور زبان پر قابو کمال درجے کا تھا۔ انھوں نے ایک بار بھی شمالی کوریا کے سربراہ پر بونا راکٹ مین (Little Rocket Man)کی پھبتی نہیں کسی۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے یہ تو فرمایا کہ شمالی کوریا کا دماغ درست کرنے کے لیے تین دیو پیکر طیارہ بردار جہاز، جوہری آبدوز اور شعلہ فشاں بمبار طیارے بحرالکاہل اور جزیرہ نمائے کوریا میں موجود ہیں، اور یہ کہ امریکہ کی قوتِ قاہرہ کا مقابلہ شمالی کوریا کے بس کی بات نہیں۔ لیکن ماضی کی طرح ’’آگ اور عتاب‘‘ کی دھمکی کے بجائے صدر ٹرمپ نے کہا ’’توقع ہے کہ ہمیں اپنے ترکش سے تیر نکالنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی، اور خدا سے امید ہے کہ معاملہ پُرامن طریقے پر حل ہوجائے گا‘‘۔ امریکی صدر نے دھمکی دینے کے بجائے شمالی کوریا کو مذاکرات کی دعوت دی۔ جواب میں شمالی کوریا نے بھی غیر روایتی تحمل کا مظاہرہ کیا، ورنہ علاقے میں امریکی رہنمائوں کی آمد پر کم جونگ چھوٹی موٹی شرلی اور پھلجڑی ضرور چھوڑتے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ مسٹر ٹرمپ کی جانب سے متانت کا مظاہرہ بھی دورۂ چین کی پیش بندی تھی کہ موصوف ایک مدبر اور Mr Nice guy بن کر چین جانا چاہتے تھے۔ چینی صدر شمالی کوریا کے جوہری تنازعے کو فوجی کارروائی کے بجائے معاشی پابندیوں اور گفتگو و مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہے ہیں اور لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے چینی ہم منصب کو اپنا سیاسی اتالیق تسلیم کرلیا ہے۔ تاہم شخصیت پر شائستگی کا یہ ملمع بہت دیر تک برقرار نہ رہ سکا اور فلپائن آکر صدر ٹرمپ نے صدر کم جونگ کو موٹا اور بونا کہہ کر اپنے دل کا غبار نکال لیا۔
چین کے معاملے پر امریکی صدر کے رویّے میں تبدیلی پر اُن کے قریبی رفقاء بھی حیران ہیں۔ جناب ٹرمپ سے سخت اختلاف رکھنے والے عناصر بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ صدر ٹرمپ کو اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے جانے والے وعدے نہ صرف یاد ہیں بلکہ وہ اپنی تقریروں میں ان وعدوں کو دہراتے بھی رہتے ہیں۔ اپنے منشور کی تکمیل کے لیے انھوں نے حلف اٹھاتے ہی اقدامات اٹھانے شروع کردیے تھے، جس میں مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی، میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر، عالمی تجارتی معاہدوں کی تنسیخ و ترمیم، ماحولیاتی معاہدے سے دست برداری، لازمی صحت بیمہ المعروف اوباما کیئر کا خاتمہ، ٹیکسوں میں چھوٹ، صنعت پر عائد ضابطوں اور پابندیوں کا بتدریج خاتمہ وغیرہ شامل ہیں۔ امریکی کانگریس اور عدلیہ کی جانب سے شدید مزاحمت کی بنا پر وہ اپنے بہت سے وعدے وفا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران چین کے بارے میں ان کا رویہ بہت سخت تھا۔ انھیں شکایت ہے کہ چین امریکہ کو سخت اقتصادی نقصان پہنچا رہا ہے۔ بیجنگ نے اپنی معیشت کے دروازے امریکی مصنوعات پر بند کر رکھے ہیں، دوسری طرف اپنے سکے کی قیمت وہ جان کر کم رکھتا ہے تاکہ اس کی برآمدات سستی ہوں۔ اس کے نتیجے میں سستے چینی مال نے امریکی منڈیوں پر بھی قبضہ کررکھا ہے، اور اب امریکی مصنوعات نیویارک اور شکاگو کی دکانوں پر بھی نظر نہیں آتیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چین امریکی معیشت کا دشمن ہے۔ ان کے الفاظ میں چین امریکہ کی اقتصادی عصمت دری (rape)کررہا ہے۔ انتخابات جیتنے کے بعد بھی ان کا رویہ ایسا ہی رہا اور نومنتخب امریکی صدر کے بارے میں چینیوں کا رویہ بھی شروع میں ذرا سرد تھا۔ کشیدگی اُس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب گزشتہ برس 2 دسمبر کو صدر ٹرمپ نے فون پر تائیوان کی صدر محترمہ سی انگ وین (Tsai Ing-wen) سے بات کی۔ 1979ء کے بعد سے جب واشنگٹن اور تائیوان نے سفارتی تعلقات منقطع کیے یہ کسی بھی امریکی صدر کا اپنے تائیوانی ہم منصب سے پہلا براہِ راست رابطہ تھا۔ اس بات چیت پر چین کی تنقید سے جناب ٹرمپ مزید مشتعل ہوئے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ ایک آزاد ملک کے منتخب صدر ہیں اور انھیں دوسرے رہنمائوں سے ملنے اور بات کرنے کے لیے کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی فرماگئے کہ امریکہ One China Policy پر نظرثانی کا حق رکھتا ہے۔
نوجوان قارئین کی دلچسپی کے لیے ون چائنا پالیسی کا مختصر تعارف:
کمیونسٹ انقلاب سے پہلے چین اور تائیوان ایک ہی ملک تھے جسے ری پبلک آف چائنا کہا جاتا تھا۔ جب مائوزے تنگ کی قیادت میں انقلابی تحریک شروع ہوئی تو پرانے نظام کے حامیوں نے کمیونزم کی شدید مخالفت کی۔ نتیجے کے طور پر خونریز خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ جنرل چیانگ کائی شیک کمیونزم مخالف محاذ کی قیادت کررہے تھے۔ امریکہ کی بھرپور حمایت کے باوجود وہ مائوزے تنگ کا مقابلہ نہ کرسکے اور 1949ء تک ان کا اقتدار سکڑتے سکڑتے تائیوان اور اس سے ملحقہ چند جزیروں تک محدود ہوگیا جو فارموسا کہلاتا تھا، جبکہ 99 فیصد چین پر پیپلز ری پبلک آف چائنا (PRC)کے نام سے نئی ریاست قائم ہوگئی۔ حسبِ توقع امریکہ نے PRCکو تسلیم نہیں کیا اور تائیوان یا ری پبلک آف چائنا ہی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے ساتھ اقوام متحدہ میں چین سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ 1971ء میں اقوام متحدہ نے چین کو تسلیم کرتے ہوئے تائیوان کی رکنیت منسوخ کردی۔ اس وقت دنیا میں تائیوان واحد ترقی یافتہ اور صنعتی ملک ہے جسے اقوام متحدہ تسلیم نہیں کرتی۔ چین کے لیے یہ بات تو کسی حد تک قابلِ برداشت ہے کہ اقوام عالم تائیوان سے سفارتی و تجارتی تعلقات رکھیں، لیکن وہ اُسے چین تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اس وقت دنیا میں صرف مارشل آئی لینڈ اور پلائو جیسے 19 چھوٹے ممالک ہیں جو تائیوان کو ROC تسلیم کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت 56 ممالک کے تائیوان سے تجارتی تعلقات ہیں لیکن یہ ممالک اسے ROC نہیں پکارتے بلکہ تائیوان کہتے ہیں۔ یہی ہے ’ون چائنا پالیسی‘ کہ دنیا میں صرف ایک ہی چین ہے جس کا دارالحکومت بیجنگ ہے اور تائیوان بس تائیوان ہے، چین نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ون چائنا پالیسی پر نظرثانی کی بات بیجنگ کو سخت ناگوار گزری اور چینی وزیرخارجہ نے کہا کہ ان کا ملکPRC کو ایک اور واحد چین تسلیم نہ کرنے والوں سے بات بھی کرنے کا روادار نہیں۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کو بھی اپنی غلطی کا فوراً ہی احساس ہوگیا، چنانچہ انتقالِ اقتدار کے لیے اُن کی ٹیم نے ایک بیان میں ون چائنا پالیسی کو جاری رکھنے کی ضمانت دیتے ہوئے وضاحت کی کہ فون امریکی نومنتخب صدر نے نہیں بلکہ تائیوان کی صدر نے مسٹر ٹرمپ کو انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد کے لیے کیا تھا اور چند منٹ کی اس گفتگو میں صرف ہدیۂ تبریک اور شکریے کے رسمی کلمات ادا کیے گئے۔ اس پسپائی کے باوجود صدر ٹرمپ نے بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے چین پر حملے جاری رکھے اور یہ تکرار کرتے رہے کہ وہ چین سے کیے جانے والے تمام معاہدوں پر نظرثانی کریں گے۔ لیکن اسی دوران شمالی کوریا نے میزائلوں کے تجربات کی بھرمار کردی اور اُس کے ہر نئے میزائل کی پہنچ بڑھتی چلی گئی اور ساتھ ہی پیانگ یانگ نے جوہری ہتھیار کا تجربہ بھی کرڈالا۔ صدر ٹرمپ کو معلوم ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی پابندی یا عسکری کارروائی روس اور چین دونوں، یا ان میں سے کم ازکم ایک ملک کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکہ میں یہ تاثر عام ہے کہ روس نے گزشتہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کو کامیاب کروانے کی کوشش کی تھی اور اس ’’واردات‘‘ کی سرکاری سطح پر تحقیقات ہورہی ہے، لہٰذا امریکی صدر روس سے بات چیت و ملاقات سے گریز کررہے ہیں۔ شمالی کوریا پر چین کا اثرو نفوذ بہت واضح ہے۔ شمالی کوریا کی 70 فیصد سے زیادہ تجارت چین سے ہوتی ہے اور بیجنگ گولی چلائے بغیر شمالی کوریا کو معقولیت اختیارکرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
صدر ٹرمپ ملکی معیشت کی طرف سے بھی پریشان ہیں۔ امریکہ 20000 ارب ڈالر کا مقروض ہے اور اس وقت چین امریکہ کو سب سے زیادہ قرض فراہم کر تا ہے۔ بڑے پیمانے پر ٹیکس میں کمی صدر ٹرمپ کے منشور کا حصہ ہے اور ٹیکسوں میں کٹوتی کا جو منصوبہ انھوں نے امریکی پارلیمان کو بھیجا ہے اس کے نتیجے میں سرکاری محصول میں بھاری کمی متوقع ہے، اور اقتصادیات کے پنڈت پیشن گوئی کررہے ہیں کہ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے امریکہ کو اگلے دس برسوں کے دوران 1500 ارب ڈالر کا اضافی قرضہ لینا پڑے گا۔ اتنی بڑی رقم کی فراہمی چین کے سوا کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے نہ صرف بیجنگ سے تعلقات کا خوشگوار رہنا ضروری ہے بلکہ امریکیوں کو یہ خوف بھی ہے کہ اگر تجارتی پابندیوں اور دوسرے پنگے سے چینی معیشت کساد بازاری کا شکار ہوگئی تو چچا سام قرض کس سے لیں گے، یعنی اس ’چشمۂ خیر‘ کا جاری رہنا امریکہ کے مفاد میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چینی صدر اور دوسرے رہنمائوں سے ملاقات میں صدر ٹرمپ نے اپنا لہجہ بہت دھیما رکھا اور صدر ژی سے دوستی کا دم بھرتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ صدر ژی متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں جن سے ان کی کیمسٹری بہت ملتی ہے۔ توازنِ تجارت کے ضمن میں دھمکی کے بجائے انھوں نے چینی منڈیوں کو امریکی مصنوعات کے لیے کھولنے کی درخواست کی۔ 9 نومبر کو بیجنگ سے جاری ہونے والے اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا ’’ تجارت میں عدم توازن کے لیے چین کو موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا، بلکہ یہ (امریکہ کی گزشتہ) حکومتوں کی نااہلی ہے جس کی وجہ سے ہم کھربوں ڈالر کا نقصان اٹھا رہے ہیں۔ (اپنی حماقتوں کا) الزام چین پر کیوں لگائیں! (اگر چین کا سربراہ ہوتا تو) میں بھی یہی کرتا۔‘‘ صدر ٹرمپ کے چین میں قیام کے دوران امریکہ اور چین نے 250 ارب ڈالر مالیت کے تجارتی سمجھوتے کیے۔ ان معاہدوں پر دستخط کے بعد امریکی صدر نے اپنے چینی ہم منصب کی جانب سے امریکی کمپنیوں کی چینی منڈیوں تک رسائی کے وعدے کی کھل کر تعریف کی۔ صدر ٹرمپ نے چین نے شمالی کوریا کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ تعاون کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ چین جوہری تنازعے کو زیادہ بہتر اور تیزی سے حل کرسکتا ہے۔ اپنے جوابی خطاب میں چینی صدر نے کہا کہ امریکی اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں کی شمولیت کے لیے چینی معیشت کو مزید شفاف اور وسیع کیا جائے گا۔ انہوں نے امریکی کمپنیوں کو ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔
چین سے خاتونِ اوّل ملانیا ٹرمپ تو اپنے وطن لوٹ گئیں لیکن امریکی صدر ویت نام آگئے جہاں انھوں نے ایشیا و بحرالکاہل اقتصادی تنظیم APECکے اجلاس میں شرکت اور ویت نامی قیادت سے گفتگو کی۔ صدر ٹرمپ اپنے دورے کے آخری مرحلے میں فلپائن کے دارالحکومت منیلا آئے جہاں وہ امریکہ آسیان سربراہی کانفرنس(US ASEAN Summit)اور مشرقی ایشیا چوٹی کانفرنس (EAST ASIA Summit)میں شریک ہوئے۔ ان بیٹھکوں کی روداد اور تجزیہ اِن شاء اللہ اگلی نشست میں۔