متحدہ مجلس عمل کی بحالی

متحدہ مجلس عمل
متحدہ مجلس عمل

جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصورہ لاہور میں ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے اسٹیرنگ کمیٹی کے منعقدہ اجلاس میں ایم ایم اے کی بحالی پر اصولی اتفاق اور اس ضمن میں باقاعدہ اعلان اگلے مہینے کراچی میں جمعیت العلماء پاکستان کے سربراہ علامہ انس نورانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میںکیے جانے کے فیصلے کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تو وہ کوریج اور اہمیت نہیں ملی جو پنجاب اور کراچی میں ہونے والے کسی بھی معمولی واقعے یا خبر کو ملتی ہے، البتہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے خوب زور وشور سے نہ صرف بحث جاری ہے بلکہ ایم ایم اے کی بحالی کی حمایت اور مخالفت میں دونوں جانب سے زمین آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں۔ ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے جاری بحث میں جہاں ایم ایم اے کی روایتی مخالف سیاسی قوتیں اور ان کے ہمدرد تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں، وہیں جمعیت (ف) کی مخالفت میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں کی توپوں کا رخ بھی ایم ایم اے کی ممکنہ بحالی کی جانب ہے، جبکہ تیسری جانب خود ایم ایم اے کی دو بڑی جماعتوں جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی کے درمیان بھی اگر ایک جانب ماضی کے قصے چھیڑکر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب یہ دونوں جماعتیں چونکہ قومی سطح پر دو متحارب سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کی بالترتیب وفاق اور خیبر پختون خوا میں اتحادی ہیں اس لیے ایم ایم اے کی اچانک بحالی کے اعلان کی وجہ سے بھی فی الوقت جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی کے وابستگان کے لیے دس سالہ دوریوں کے بعد، بالخصوص گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران ان دونوں جماعتوں کے درمیان مختلف ایشوز پر پائے جانے والے بُعد المشرقین کی وجہ سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں مشکلات کا پیش آنا فطری امر ہے۔
ایم ایم اے کی بحالی ہو بھی سکے گی یا نہیں، اور اگر یہ بحالی ہوگئی تو کیا جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی جیسی دو بڑی جماعتیں جو صوبے کے بعض علاقوں میں مخصوص اثر رسوخ رکھتی ہیں اور ان دونوں جماعتوں کی اصل نظریں چونکہ اپنی روایتی نشستوں کے علاوہ وسطی اضلاع اور ہزارہ کی بعض ممکنہ اضافی نشستوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے پر مرکوز ہوں گی، لہٰذا ایسے میں ان کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ دیگر چار چھوٹی جماعتوں کو اکاموڈیٹ کرنا یقینا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ اسی طرح ایم ایم اے کی بحالی پر مذہبی جماعتوں کے کارکنان تو یقینا خوش اور مطمئن ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اس اتحاد کی بحالی پر عام ووٹرز اور ملک کی عام آبادی کا ردعمل کیا ہوگا؟ اسی طرح یہاں یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آیا ایک ایسی ایم ایم اے کتنی اہمیت کی حامل ہوگی جس کے سر پر معتبر قوتوں کا دستِ شفقت نہیں ہوگا؟ اسی طرح پی ٹی آئی نے اب تک مسلم لیگ (ن) اور جمعیت (ف) کو جو ٹف ٹائم دیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی لگتا یہی ہے کہ اگر ایم ایم اے واقعی بحال ہوجاتی ہے تو کم ازکم خیبر پختون خوا کی حد تک اس کا سب سے زیادہ اثر پی ٹی آئی پر ہی پڑے گا اور پی ٹی آئی کو 2018ء کے انتخابات میں اگر کسی سیاسی قوت کی جانب سے ٹف ٹائم ملے گا تو وہ یقینا ایم ایم اے کا اتحاد ہی ہوگا۔ ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کے درمیان متوقع سخت مقابلے کا اندازہ 2013ء کے انتخابی نتائج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں خیبر پختون خوا اسمبلی کی کم ازکم 18 نشستیں ایسی تھیں جن پر اگر جماعت اسلامی اور جمعیت (ف) کے ووٹ جمع ہوجاتے تو ان نشستوں پر ان دونوں جماعتوں کا ووٹ پی ٹی آئی کے فاتح قرار پانے والے امیدواران سے زیادہ ہوکر یہ نشستیں ان دونوں جماعتوں کے حصے میں آسکتی تھیں۔ ان نشستوں پر ایم ایم اے ہونے کی صورت میں جماعت اسلامی کم ازکم 9 اور جمعیت (ف) 11 اضافی نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکتی تھی، جس سے ان کی جنرل نشستوں کی تعداد 39، جبکہ خواتین اور اقلیتی نشستوں کو ملا کر ان کی مجموعی تعداد 50 کا ہندسہ بآسانی عبور کرسکتی تھی جس کے نتیجے میں ان دونوں جماعتوں کو کوئی بھی حکومت سازی سے نہیں روک سکتا تھا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اگر جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی کے اتحاد کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے 2013ء کے سونامی کو بریک لگایا جا سکتا تھا تو اب جب پی ٹی آئی کے لیے پانچ سال اقتدار میں رہنے کے بعد 2013ء کی کارکردگی دہرانا آسان نہیں ہوگا۔
یہاں یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ایم ایم اے کی ممکنہ بحالی اور صوبے کے سیاسی منظرنامے پر اس کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے پی ٹی آئی کا کوئی خاص اور واضح ردعمل اب تک سامنے نہیں آیا ہے، البتہ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ اگر ایم ایم اے بحال اور فعال ہوتی بھی ہے تو اس میں کم از کم جمعیت (س) کی شمولیت کا راستہ روکنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی جائے، جس کا تازہ ثبوت جہاں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا بغیر کسی پروٹوکول کے دورہ اکوڑہ خٹک اور وہاں مولانا سمیع الحق سے ون آن ون ملاقات کرنا ہے، وہیں مولانا سمیع الحق خود بھی اب تک ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے کچھ زیادہ گرم جوشی دکھانے سے بوجوہ معذور نظر آتے ہیں۔
ایم ایم اے کی بحالی سے خیبر پختون خوا میں ویسے تو تمام ہی روایتی جماعتوں کو خطرات لاحق ہونا شروع ہوگئے ہیں لیکن اب تک اس ضمن میں جو ردعمل پیپلز پارٹی، اے این پی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آیا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایم ایم اے اپنی سابقہ پوزیشن اور اعتماد کے ساتھ ساتھ اس میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کے گلے شکوے دور کرکے باہمی اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوگئیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں کوئی بڑا بریک تھرو نہ کرسکیں۔ ایم ایم اے کی بحالی کی صورت میں لگتا یہی ہے کہ اس کا راستہ روکنے اور اپنی کامیابی کا راستہ ہموار کرنے کے لیے پیپلزپارٹی اور اے این پی جیسی ماضی کی اتحادی جماعتوں کو ایک بار پھر اتحاد یا پھر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا سہارا لینا پڑے گا تبھی وہ ایم ایم اے کے مذہبی ووٹ بینک اور پی ٹی آئی کی تبدیلی اور نوجوانوں کے ایک بڑے ووٹ بینک کا مقابلہ کرنے کی قابل ہوسکیں گی۔ اس تجزیے کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں خیبر پختون خوا سے ایک بار پھر کسی بھی جماعت کے لیے تن تنہا حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ایسے میں ایم ایم اے کے لیے اپنے کیے ہوئے وعدوں پر عمل درآمدکرتے ہوئے صوبے میں شرعی قوانین کے نفاذ کا کٹھن مرحلہ طے کرنا لازماً ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔
ایم ایم اے کو اپنی ممکنہ بحالی کے بعد جہاں اندرونی طور پر رکن جماعتوں بالخصوص جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی کے درمیان نشستوں کی تقسیم پر ٹف ٹائم ملنے کا امکان ہے، وہیں ان دو بڑی جماعتوں کے علاوہ دیگر چار جماعتوں کے اعتماد کی بحالی کے ساتھ ساتھ انہیں ان کی خواہشات اور مطالبات کے مطابق سیٹوں کی الاٹمنٹ بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا، ایسے میں مولانا سمیع الحق کی قیادت میں مذہبی جماعتوں کا ایک دوسرا اتحاد بنانے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا، جس میں ایم ایم اے سے ممکنہ طور پر بغاوت کرنے والی جماعت جمعیت العلماء پاکستان (نورانی)کے علاوہ علامہ طیب طاہری کی جماعت اشاعت توحید وسنہ، لبیک پاکستان، ملّی مسلم لیگ اور راہِ حق پارٹی کی شمولیت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ امکانات جہاں مولانا سمیع الحق کی ایم ایم اے پر دبے الفاظ میں تنقید اور بحالی سے پہلے بعض پیشگی شرائط کی صورت میں نظر آرہے ہیں، وہیں بعض دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے جمعیت (ف) اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف جو لب ولہجہ اختیار کیا جارہا ہے اس سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ایم ایم اے کی اپنی سابقہ شکل میں بحالی اتنی بھی آسان معلوم نہیں ہوتی جتنا کہ اس کے متعلق دو جماعتیں یعنی جماعت اسلامی اور جمعیت(ف) تاثر دے رہی ہیں۔
حرفِ آخر یہ کہ ان تمام تر خدشات اور تحفظات کے باوجود اگر ایم ایم اے اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی تو آنے والے عام انتخابات میں دیگر لبرل اور سیکولر جماعتوں کے لیے اسے پچھاڑنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا کہ بعض جماعتیں یا پھر بعض تجزیہ کار سمجھ رہے ہیں۔ اسی طرح ایم ایم اے میں شامل جماعتیں بھی چونکہ 2002ء کے کامیاب تجربے کے بعد 2008ء اور2013ء کے تلخ انتخابی نتائج کا واضح فرق دیکھ بلکہ بھگت چکی ہیں اس لیے ان کے لیے بھی اپنی سیاسی بقاکے لیے ایم ایم اے کی بحالی اور مذہبی جماعتوں کے منتشر ووٹ بینک کو اکٹھاکرنے کے سوا کامیابی کا اور کوئی آپشن نہیں ہے۔