سیکولر پاکستانی ڈرامے

گزشتہ ہفتے ’’اسلام اور سیکولرازم کی بحث‘‘ کے عنوان سے ہمارے محترم سید شاہد ہاشمی صاحب کی تحریر میں پاکستان میں سیکولرازم کی سوچ اور ماڈل کا انطباق کرنے کی کوشش میں چار مختلف قسم کے لوگوں اور ان کی لابیوں کی جانب اِشارتاً گفتگو کی گئی تھی۔ شاہد بھائی کے مطابق اُن چار کی تقسیم یوں ہے:
پہلا گروہ : بِکاؤ مال اور فروخت شدہ علم و دانش والوں کا ہے۔
دوسرا گروہ : اسلام بیزاروں اور زندگی و سماج میں، کُھل کھیلنے کے طلب گاروں کا ہے۔
تیسرا گروہ: مغربی دانش سے مرعوب، یا خوف زدہ، کنفیوزڈ ’’معذرت خواہوں‘‘ کا ہے۔
چوتھا گروہ: ’’روشن خیالی‘‘، ’’جدّت طرازی‘‘ اور ’’اصلاح شدہ اسلام‘‘ کے علَم برداروں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ عرفِ عام میں ’’مخالفِ اسلام‘‘ نہیں ہوتے، لیکن اِن کا وزن ہمیشہ ’عدم اسلام کے‘ پلڑے میں پڑتا ہے۔ اِن میں سے اکثر تو ’’شارحینِ قرآن و سیرت‘‘ کے کسی اعلیٰ و برتر مقام پر براجمان ہوکر، قطعیّت کے ساتھ وہ وہ اَحکامات جاری فرماتے رہتے ہیں، جو اصلاً و عملاً ’’عدم اسلامیت‘‘ ( فی زمانۂ حال، سیکولر اِزم اور لبرل اِزم) کی تقویت کا سامان ہوتے ہیں۔
یہ چوتھا گروہ آج ہمیں جہاں بہت واضح اور غالب صورت میں نظر آتا ہے وہ ہے ’’تفریح‘‘ یعنی ’’انٹرٹینمنٹ، شو بز‘‘کا شعبہ۔ گو کہ دیگر ممالک کی طرح اسے ابھی صنعت کا درجہ نہیں ملا، البتہ یہ ایک نفع بخش شعبے کی صورت پاکستان میں نفوذ کرچکا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ٹیلی ویژن پاکستان میں آیا، ایک دو گھنٹے کی نشریات سے اور ایک سرکاری ٹیلی ویژن چینل سے۔ آج پچاس برسوں میں حال یہ ہے کہ کیبل پر آنے والے چینل بدلتے بدلتے آپ کی انگلیاں دَرد کرجائیں گی۔ سادہ، سفید سی تختی کی مانند اذہان پر ایک، دو گھنٹے کی خوراک سے شروع ہونے والی اس ’دوائی‘ نے آہستہ آہستہ اذہان کو مسخر کیا اور پھر تربیت دینی شروع کی۔ پہلے کہا جاتا کہ ’’یہ ڈرامے تو معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں‘‘۔ اب یہ اسکرین درحقیقت معاشرے کی ترتیب و تربیت کررہی ہوتی ہے۔ ہمارے استعمال کی اشیاء ٹوتھ پیسٹ، چائے کی پتی، بسکٹ، شیمپو، صابن سے لے کر کپڑے، موبائل، جوتے سب کچھ اسی کی غیر محسوس ہدایات کا نتیجہ بن چکے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ روزہ افطار کرتے وقت دودھ ہمارے لیے کتنا اہم ہے، مگر اس اشتہار کی قوت دیکھیں کہ اُسی دسترخوان پر اُس نے کولڈ ڈرنک رکھوا ڈالی۔ ہم جانتے ہیں کہ تیل بالوں کی نشوونما اور خشکی کے خاتمے کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے مگر ہم شیمپو ہی استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ ’’چوتھے گروہ‘‘کے لیے اس شعبے میں ہمیشہ سے حالات سازگار ہی رہے اور وہ اپنے اہداف کے مطابق حکمرانوں کی پالیسی کے مطابق کام کرتے رہے۔ اسی میں پرویزمشرف کا دور پاکستان کو نصیب ہوگیا، جس کے بعد ایسا ہوا کہ ایک بند تھا جو ٹوٹ گیا اور ایک سیلاب امنڈ آیا، جس میں اب ہم بری طرح ڈوب چکے ہیں۔ معاشرت کی تربیت کے ساتھ اب دین کی تشریح سکھانے کا بھی انہوں نے ٹھیکہ اپنے پاس لے لیا ہے۔ جیساکہ اوپر مثال میں بتایا گیا کہ یہ گروہ ایسا ہے کہ ’’شارحینِ قرآن و سنت‘‘ کے کسی اعلیٰ مقام پر براجمان ہوکر ایسے احکامات جاری فرماتا ہے جو سیکولرازم کی تقویت کا سامان بنیں۔ یہ سب کوئی ہوائی باتیں نہیں بلکہ آپ کو رمضان، ربیع الاول و دیگر مذہبی ایام میں پاکستانی ٹی وی اسکرین پر بہت واضح طور پر نظر آجائے گا۔ سرخ سویرے کی بات ہو یا سوشل ازم کا طوطی بولے، یا پھر اُس کے بعد امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے تھپکی دار ہوں… یہ سب ادب اور فنونِ لطیفہ کے شعبوں پر ایسے قابض رہے ہیں کہ ان سب کی صرف ایک کوشش ہوتی ہے کہ ان کے نظریات سے ہٹا ہوا کوئی شخص ان کے اندر تو دور کی بات، قریب بھی نہ پھٹک سکے۔ ابھی حال ہی میں ’وائٹل ٹی‘ کا ایک ٹی وی کمرشل جاری ہوا، تو انہیں تو جیسے آگ لگ گئی۔ ایسا تلملائے کہ مت پوچھیں۔ کہتے ہیں کہ ’وائٹل ٹی کا اشتہار اتنا تبلیغی کیوں؟‘ تھا کیا اُس اشتہار میں یہ دیکھا آپ نے؟ اُس اشتہار کی کاپی (اسکرپٹ)کی چند لائنیں تو ملاحظہ کریں: ’’کسے خبر تھی کہ ایک ایسا دور بھی آئے گا، بچہ بڑے اسکول جائے گا اور سلام کرنا بھول جائے گا۔ لوگ عجیب طرح سجنے لگیں گے اور صبح شام کانوں میں گھنگرو بجنے لگیں گے۔ مہنگے لباس کا لالچ تہذیب کی دھجیاں بکھیر دے گا۔ کسے خبر تھی کہ گھر آئے مہمانوں کو اپنے ہاتھوں سے بنی گرم چائے کی جگہ، جذبوں سے خالی اس ٹھنڈی کالی کولڈ ڈرنک پر ٹرخایا جائے گا۔ ارے بدلنا ہے تو بدلو، پر ایسے نہیں کہ یہ زندہ روایت کھونے لگے، تمہاری پہچان گم ہونے لگے، اپنی تہذیب کی حفاظت کرو‘‘۔ اب آپ تصور کریں کہ انہیں یہ لائنیں بھی برداشت نہیں۔ کالم لکھے گئے… بلاگ، سوشل میڈیا ہر ذریعہ استعمال کیا گیا اس اشتہار کے آئیڈیے کے خلاف، کیونکہ انہیں لگا کہ ان کا ہتھیار انہی پر چل گیا ہے۔ یہ اس لیے بھی کہ بنیادی طور پر ہمارے ازلی دشمن ’شیطان لعین‘ کی یہی حکمت عملی رہی ہے کہ وہ صرف ابلاغ، پیغام رسانی، کان میں بات ڈالنے، وسوسے ڈالنے، لالچ دینے کی پالیسی پر ہی رہتا ہے، باقی کام تو ابن آدم کو خود ہی کرنا ہوتا ہے، اور اس کام یعنی ’ابلاغ‘ کے لیے اُسے بڑی تعداد میں یہی ہتھیار تو چاہیے۔ چنانچہ یہ چوتھا گروہ اس مشن میں بھرپور طریقے سے جتا ہوا ہے۔
لبرل ازم اور سیکولرازم کے علَم بردار اس چوتھے گروہ کا صرف ایک مقصد ہے کہ دونوں ہاتھوں سے زیادہ سے زیادہ مال بٹورا جائے… پیسہ، پیسہ اور صرف پیسہ۔ اگر ان کی سمجھ میں آجائے کہ ’شہر ذات‘ سے پیسہ بنایا جا سکتا ہے تو اُنہیں کوئی حرج نہیں، اگر ’داستان‘ سے پیسہ ملتا ہے تو وہ بھی قبول ہے۔ گوکہ ایسی مثالیں کم ہیں کیونکہ آپ نے مارکیٹ ایسی بنا لی کہ ریٹنگ کسی اور جانب ہی آپ کو نظر آتی ہے، اور کئی برسوں کی کوشش سے اس نئے کلچر نے آہستہ آہستہ ہماری تہذیبی شناخت اور ہمارے تشخص کو مسخ کردیا ہے۔ ممکن ہے آپ اتفاق نہ کریں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ازسرِنو ایک نیا سیکولر اسلام ہمارے وجود میں پیوست کیا جارہا ہے۔
کچھ سال قبل اے آر وائی پر سمیرا فضل کا تحریر کردہ ڈراما ’’چپ رہو‘‘ نشر ہوا۔ ڈان نیوز نے اس ڈرامے کے بارے میں (28 اکتوبر 2014ء کو) لکھا کہ ’’یہ ایک ایسا موضوع تھا جس پرکبھی بات نہیں کی گئی، نہ کی جاتی ہے، اسے ڈھکا چھپا ہی رکھا جاتا ہے، خصوصاً جب گھر والے ہی اس میں شامل ہوں‘‘۔ موضوع اس ڈرامے کا یہ تھا کہ ایک بہنوئی اپنی سالی پر بُری نظر ڈالتے ہیں اور اپنے سسر کے قتل اور بیوی کے ہوتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی سالی کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں، جسے خاتون خاموشی سے برداشت کرجاتی ہیں اور بقیہ اقسا ط میں بھی وہ اسی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اب کوئی ڈراما دیکھ کر بتائے کہ یہ سب کیا ہے؟ اندرونِ خانہ ایک تعلیم یافتہ پاکستانی خاتون کی ایسی منظرکشی پاکستانی معاشرے کی عکاسی کے طور پر کی جا رہی ہے یا اٹھائیس اقساط میں جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر جائز ناجائز رشتے کی حدود پھلانگنے کی تربیت دی جارہی ہے؟ اسی موضوع پر اس سال ’’گھائل‘‘کی تیس اقساط مزید ذہن سازی کا سبب بنیں۔ اسی طرح گزشتہ سال اے آر وائی پر ’بچوں سے زیادتی‘ کے موضوع پر ’’روگ‘‘ اور پھر ’ہم‘ ٹی وی کا ڈراما ’’اُڈاری‘‘ جس کی ایک قسط میں ایک کردار اپنی کمسن سوتیلی بیٹی پر بری نظر رکھتے ہوئے اور پھر اسی شخص کو اپنی بیوی کی بے بس کمسن بھانجی کو زبردستی بدفعلی کی طرف راغب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح امسال ’’مقابل‘‘ کے عنوان سے ایک اور ڈراما سیریل جس میں دوبارہ ایک کم سن بچی کے ساتھ بدفعلی اور بعد میں اُسی شخص کو اُس کا سسر بنتے دکھایا گیا۔ ذرا تصور کریں پچیس، تیس اقساط کے ساتھ ان کہانیوں کو کس طرح سے پیش کیا جاتا ہے۔ ’ہم‘ ٹی وی کی حالیہ دنوں شروع ہونے والی ایک ڈراما سیریل نے مجھے ایک بار پھر اس جانب متوجہ کیا۔ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے نام پر جہاں ایک جانب واویلا مچایا جاتا ہے، وہیں دوسری جانب بعض ٹی وی چینلز کی جانب سے ریٹنگ کے حصول کے لیے اخلاقی اقدار کی پامالی کو معمول بنا لیا گیا ہے جن میں ’ہم‘ ٹی وی ہر لحاظ سے سرفہرست ہے۔ ’ہم‘ ٹی وی نے ابتدا سے ہی خواتین کے حقوق کے نام پر متنازع اور بولڈ موضوعات پر تواتر سے ڈراموں اور پروگرامات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ براہِ راست امریکی فنڈڈ پروگرام کے تحت بھی اسی ایجنڈے کے ساتھ کئی ڈرامے نشر کیے گئے ہیں۔ میں نے مذکورہ ڈرامے کی مصنفہ ’بی گل‘کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ وہ ماضی میں بھی ایسے ہی سخت موضوعات پر ڈرامے و ٹیلی فلم لکھتی رہی ہیں جن میں تلخیاں(19اقساط، ایکسپریس)، کون قمر آراء( ٹیلی فلم)، فردوس کی دوزخ ( ٹیلی فلم)، کتنی گرہیں باقی ہیں، پہچان، ضد جیسی ڈراما سیریل شامل ہیں۔ ان تمام کے موضوعات کو بلاشبہ سیکولر اور لبرل ازم کے نظریات کی جانب بہاؤ کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ اس تازہ ترین ڈرامے کا موضوع بھی انہی بنیادوں کے گرد گھومتا نظر آرہا ہے۔گو کہ ابھی پہلی قسط ہی نشر ہوئی ہے اور مزید پچیس یا تیس ہفتوں تک یہ ناظرین کی ذہن سازی کرے گا کہ کس طرح ایک شخص نیک نامی، دین داری کا لبادہ اوڑھ کر ایک ہی بھرے گھر میں بیک وقت ایک ماں اور اُس کی بیٹی سے ناجائز تعلقات بنائے رکھتا ہے۔ آدھی رات کو سوئی ہوئی لڑکی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کو چھپانے کے لیے مصنفہ نے ’آیت الکرسی‘ کو اپنے ڈائیلاگ میں بے جا استعمال کرکے کیا بتانا چاہا؟ ہونے والی بیوی کی ایک بہن کا ہاتھ تھام کر یہ کہنا کہ ’’مجھے دولہا بھائی نہ کہا کرو‘‘، ماں بیٹی کو سمجھا رہی ہے کہ ’’تم غلط سمجھ رہی ہو، وہ تمہارے باپ کے جیسے ہیں‘‘ تو بیٹی جواباً پوچھتی ہے ’’اور آپ کے لیے؟‘‘ یہ گفتگو، یہ مناظر، یہ اشارے کنائے، یہ ڈائیلاگ کسی طور سے بھی ایک فیملی جس میں بچے، بڑے، جوان، بچے بچیاں، دادا دادی کی عمر کے لوگ شامل ہیں، ساتھ بیٹھ کر قطعی نہیں دیکھ سکتے، اور اگر دیکھنا شروع کردیں تو یقین جانیں کہ وہ جسے ’’حیا‘‘ کہتے ہیں وہ اُس خاندان یا گھر سے اٹھ جائے گی۔
اس ڈرامے کی ایک معروف کردار سکینہ سموں، سوشل میڈیا پر ایک لائیو شو میں ڈرامے کی پروموشن کے حوالے سے یہ کہتی ہیں کہ ’’اللہ کہے گا تم نے ظالم کے خلاف زبان کیوں نہ کھولی، آخر میں تو برے کا انجام برا ہی دکھایا جائے گا، یہ پیغام ہم نے اس ڈرامے سے دیا ہے۔ ایشو بیسڈ ڈراما ہے، ساس بہو کی کہانی نہیں ہے، ایک خاندان کی کہانی ہے جس میں کوئی سیاہ بھیڑ آجاتی ہے، مکمل فیملی ڈراما ہے، کوئی فحش منظر نہیں ہے، ڈائریکٹر نے اس موضوع کو بہت اچھے انداز سے پیش کیا کہ اُنہیں اندازہ تھا کہ کیا اسکرین پر پیش کیا جانا چاہیے‘‘۔ ڈرامے کی مصنفہ نے خود ’ہم‘ ٹی وی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اقرار کیا کہ ’’ایسے موضوع کو اسکرین پر جگہ دی گئی جس پر عمومی طور پر بات کرنا آسان نہیں ہوتا‘‘۔ ابھی تو پہلی قسط نشر ہوئی ہے، آہستہ آہستہ معاملہ کھلے گا کہ آپس کے کیا رشتے ہیں؟‘‘ میں مان لیتا ہوں یہ سب باتیں درست ہوں گی، مگر ہوتا یہی ہے کہ پچیس میں سے 23۔24 اقساط تک تو منفی کردار ہی حاوی رہتا ہے۔ ویسے تجرباتی طور پر میں نے اس ڈرامے کے ابتدائی چار منٹ اپنی سوشل میڈیا وال پر شیئر کیے، الگ سے دوستوں سے سوالات کیے، کہ کیا وہ اس ڈرامے کو فیملی کے ساتھ دیکھنا قبول کریں گے؟ یقین جانیں سب نے کانوں کو ہاتھ لگا لیا۔

ڈراما کچھ تاریخی پس منظر

تمثیل فطرتِ انسانی ہے۔ اس کی باقاعدہ ابتدا یونان سے بتائی جاتی ہے۔ یونان میں افلاطون اور ارسطو کے دور تک ڈرامے پر مذہبیت حاوی رہی۔ دُنیا کی مختلف تہذیبوں نے یہیں سے اس کا اثر قبول کیا۔ اس سے قبل ہندوستان میں مذہبی اعتبار سے ناٹکوں کی بڑی اہمیت تھی۔ ڈرامے کے لفظی معنی ہیں ’کچھ کرکے دکھانا‘۔ اس لحاظ سے ڈرامے میں گفتار کے بجائے کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن محض کردار پر مضبوط گرفت ہی ڈرامے کی کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ اس کے اجزائے ترکیبی میں پلاٹ، آغاز، مرکزی خیال، کردار نگاری اور نکتہ عروج جیسے فنی لوازم کی تکمیل ضروری ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈرامے کی ابتدا قدیم زمانے میں رقص و سرود کی محفلوں سے ہوئی، جو کسی قبیلے کی فتح یا مذہبی تہوار کے موقعوں پر منعقد ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ فارس اور مصر میں دیوتاؤں کی پرستش کی خاطر اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ اردو ڈرامے کا آغاز امانت لکھنوی کی اندرسبھا سے ہوا، جس میں ناچ گانے زیادہ تھے۔ یہ پہلا ڈراما تھا جو اسٹیج پر کھیلا گیا۔ اس کے بعد محمد حسین آزاد جیسے علماء نے ڈرامے کی طرف توجہ کی اور انگریزی ڈرامے کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔ اُس دور کے ڈراموں میں ہندی گیت اور فطری واقعات بھی جگہ پانے لگے اور کئی تھیٹریکل کمپنیاں بھی وجود میں آگئیں۔ پھر احسن لکھنوی، پنڈت نارائن پرشاد، بیتاب دہلوی، سید کاظم حسین، نشتر لکھنوی اور آغا محمد حشر کاشمیری اس دور کے نمائندہ ڈراما نگار کہلائے، جنہوںنے اردو ڈرامے اور اسٹیج کو ترقی کے نئے افق پر پہنچادیا۔ ڈراموں کی اثرپذیری دیکھتے ہوئے اردو ڈرامے میں نیا موڑ آیا اور پھر موضوعات میں سماجی انصاف، ملک کی آزادی، قربانی، حب الوطنی شامل ہوگئے۔ اس زمانے کے ڈراما نگاروں میں رضی بنارسی، پنڈت رادھے شیام، ریاض دہلوی، ظفر علی خان، کیفی اور عبدالماجد دریا آبادی وغیرہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ انگریزوں کی غلامی جاری تھی، اس دوران شیکسپیئر، برنارڈشا، ٹالسٹائی اور آسکر وائلڈکے شہرۂ آفاق ڈراموں کے تراجم کے ذریعے ڈرامے کے فنی تقاضوں سے اردو دنیا کی واقفیت میں مزید اضافہ ہوا۔ اسی زمانے میں امتیاز علی تاج کا ڈراما ’’انارکلی‘‘ منظرعام پر آیا۔ پھر سجاد حیدر یلدرم، عابد حسین، پروفسر محمد مجیب، احمد ندیم قاسمی، سعادت حسن منٹو، ڈاکٹر محمد حسن کے نام قابل ذکر ہیں۔

زندہ مسائل کی جگہ اسٹیریو ٹائپ موضوعات

ڈاکٹر طاہر مسعود
جامعہ کراچی شعبہ ابلاغِ عامہ کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’عملاً تو اب ہمارا معاشرہ اسی سانچے میں ڈھل چکا ہے، جسے ہم سیکولر یا لبرل کے درجے میں کہہ سکتے ہیں۔ اس میں بڑا کلیدی کردار بھارتی فلموں اور ڈراموں کی اثر پذیری کا رہا ہے۔ خود بھارت نے جس جس طرح کروٹ لی ہم بھی اُسی کے پیچھے ہو لیے، نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اس ارتقائی عمل کی مثال ہمارے ڈرامے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے ڈرامے پونا آرٹ اکیڈمی میں دکھائے جاتے تھے۔ معاشرے کے زندہ مسائل کی جگہ اسٹیریو ٹائپ موضوعات نے لے لی ہے جو باقاعدہ مخصوص معاملات کو ہمارے معاشرے میں فیڈ کررہے ہیں۔ کیا ان موجودہ لکھاریوں اور ان ڈراموں کے ذریعے ہمارے معاشرے کے اصل ایشوز کی ترجمانی ہورہی ہے؟ خواتین کی آزادی کے نام پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے کیا یہ ہمارے معاشرے کا کبھی مسئلہ رہا ہے؟‘‘

کمرشل ازم+ دین فروشی

(صہیب جمال، رائٹر، ڈائریکٹر)
’’ایک وہ وقت تھا جب ڈرامے، یہاں تک کہ نغمے ہمارے معاشرے کے عکاس ہوا کرتے تھے، خاندان مل کر بیٹھتا تھا، اور ڈرامے تفریح طبع اور کچھ نہ کچھ تربیت کا باعث ہوتے تھے۔ خدا کی بستی، افشاں، شمع، اندھیرا اجالا، نشانِ حیدر، آخری چٹان، آنگن ٹیڑھا، دائرے (باقاعدہ ایک حدیث پر اسکرپٹ ہوتا تھا)، سونا چاندی، جنجال پورہ جیسے نام تھے۔ پھر ہم نے دیکھاکہ تیز ترین کمرشل ازم کا دور آیا۔ ڈش انٹینا، کیبل نیٹ ورک سے اسٹار پلس اور زی چینل نے عورتوں اور بچوں کو ٹی وی کے آگے بٹھا دیا۔ اس کمرشل ازم سے بات بڑھ کر وطن فروشی اور دین بیزاری تک پہنچ گئی، پھر ایجنڈا بن گیا۔ آج کے ڈرامے صرف ڈرامے نہیں، وطن میں لادینیت اور ’میری مرضی میری زندگی‘ جیسے نظریات کے پرچار کا ایجنڈا ہیں۔ معاشرے میں دیوار کے پیچھے جو ہورہا ہے اس کو دیوار کے پیچھے رکھو، بلکہ اس کا فیصلہ بھی دیوار کے پیچھے کرو، ہیجان آمیز مواد دکھا کر ہیجان کیوں پیدا کرتے ہو، کہ جس کا اثر کوئی غلط لے اور غلط عمل کر ڈالے! معاشرے میں جو اہم مسائل ہیں وہ دکھاؤ، انڈیا کے ساس بہو کے جھگڑوں سے تم آگے نکل آئے، تم نے سگے اور تکریم کے رشتوں کو ہی آگ لگادی، کاروبار کرو بھائی مگر کچرا نہ پھیلاؤ۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ نیوز چینل کے ری اینیکمنٹ ڈراموں نے بھی چھپے مجرمانہ مسائل کو زیادہ پروان چڑھایا ہے، جس کو موضوع بنا کر ڈرامے تشکیل دیے گئے، جن پر پیمرا نے ایکشن لیا اور پابندی لگا دی، مگر ان بڑے چینل پر کچھ جرمانے سے بڑھ کر کچھ نہیں کرپاتا۔‘‘