قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اور پارلیمانی امور پر ایک دانشور کی حیثیت رکھنے والے سینئر سیاست دان سید فخر امام اس بات پر کڑھ رہے تھے کہ پاکستان اور اس کے عوام کے اصل مسائل کی طرف کسی کی توجہ نہیں، سیاست دان سطحی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، اداروں کے درمیان کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ زیادہ اختیارات کے حصول کے لیے مقابلہ ہورہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دے کر بڑا ظلم کیا گیا ہے، انہیں صرف قانون سازی کرنی چاہیے۔
دوسری جانب جاوید ہاشمی کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے پرویزمشرف دور کی اسمبلی میں نیب سے کرپشن میں ملوث افراد کی رپورٹ اور تفصیلات منگوائیں تو اس میں انکشاف ہوا کہ کرپشن کے سب سے زیادہ معاملات عسکری شعبے سے وابستہ رہنے والے افراد کے ہیں، دوسرے نمبر پر سول بیوروکریسی ہے، جبکہ کرپشن کے معاملات میں سیاست دان تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس فہرست میں عسکری شعبے کے کن افراد کے نام شامل تھے اور اُن پر کتنی کرپشن کے الزامات تھے۔
جاوید ہاشمی یہ گفتگو ملک بھر سے آئے ہوئے صحافیوں سے ملتان پریس کلب کے آڈیٹوریم میں کررہے تھے، جہاں ان کے دائیں بائیں وفاقی انجمن صحافیان (دستور) کے صدر محمد نواز رضا، سیکرٹری جنرل سہیل افضل، پی ایف یو جے کے سابق جنرل سیکرٹری اور ملتان پریس کلب کے سابق صدر شمیم احمد رائو، ملتان یونین آف جرنلسٹس کے صدر اشفاق انجم، شکیل الرحمن اور دیگر صحافی رہنما بیٹھے تھے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے یہ مرکزی عہدیداران اور فیڈرل ایگزیکٹو کونسل کے منتخب ارکان اپنے تین روزہ اجلا س کے لیے ملتان پہنچے تھے۔ ایف ای سی کا یہ سہ ماہی اجلاس 10۔11 ۔12 نومبر کو بلایا گیا تھا جس کی میزبانی ملتان یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے ذمے تھی۔ ملتان یونین آف جرنلسٹس (دستور) نے اپنے سرپرست اور نوائے وقت ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر، ملتان یونین کے صدر اشفاق انجم، سیکرٹری جنرل مسٹر نیازی اور دیگر رہنمائوں کی قیادت میں صحافیوں کے قیام و طعام اور اجلاسوں کے لیے بہترین انتظامات کر رکھے تھے۔ شہر کے مرکزی علاقے کے ہوٹل اے ون میں مہمانوں کے قیام و طعام کا اہتمام کیا گیا تھا، جبکہ اسی ہوٹل کے ایک ہال میں ایف ای سی کے اجلاس کا انتظام تھا اور اس کے لیے ہوٹل نے خصوصی طور پر ہال میں کانفرنس طرز کا سیٹنگ ارینجمنٹ کر رکھا تھا، تاکہ اجلاسوں کی کارروائی کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھی جاسکے۔ میزبانوں نے مہمانوں کے لیے تین روز کا باقاعدہ شیڈول تیار کیا ہوا تھا جس کی اطلاع مہمانوں کو روانگی سے قبل واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے کردی گئی تھی۔ جمعہ کی صبح ہی سے ملتان پہنچنا شروع ہوگئے تھے، نمازِ جمعہ اور ظہرانے کے بعد مہمانوں کو ملتان شہر کی سیر اور بزرگانِ دین کے مزارات پر لے جایا گیا۔ حضرت بہا الدین زکریا ملتانی اور شاہ رکن عالم کے مزارات پر مہمانوں کی دستاربندی کی گئی، جس کے بعد تمام افراد ہوٹل واپس آگئے جہاں مختصر آرام اور چائے کے بعد مہمان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی رہائش گاہ پہنچے، جہاں شاہ محمود قریشی اور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ یہاں مختصر سی ایک تقریب بھی ہوئی جس سے پی ایف یو جے کے صدر نواز رضا، سیکرٹری جنرل سہیل افضل خان اور رائو شمیم اختر نے خطاب کیا، جبکہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے علاوہ حکمرانوں کو گھر جانے کی نصیحت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حقِ حکمرانی کھو چکی ہے کیونکہ وہ اسی کرپٹ قیادت کو دوبارہ منتخب کرکے لے آئی ہے جسے اس ملک کی سب سے اعلیٰ عدلیہ نے نااہل قرار دیا تھا۔ شاہ محمود قریشی بھی اپنے چیئرمین کی طرح فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے تھے۔
یہاں سے ہوٹل واپسی پر ایف ای سی کا باضابطہ اجلاس حاجی نواز رضا کی صدارت میں ہوا، جس میں پی ایف یو جے سے منسلک ذیلی اور علاقائی تنظیموں نے اپنی پانچ ماہ کی کارکردگی رپورٹ پیش کی۔ یاد رہے کہ مئی 2017ء میں پی ایف یو جے کے انتخاب کے موقع پر منسلکہ یونینز اپنی سابقہ کارکردگی رپورٹ راولپنڈی میں پیش کرچکی تھی۔ دراصل ہر تین ماہ بعد ایف ای سی کے اجلاس کا مقصد ذیلی یونینوں اور وفاقی یونین کی کارکردگی کا جائزہ، مستقبل کی منصوبہ بندی اور صحافت اور صحافیوں کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لیے حکمت عملی طے کرنا ہوتا ہے۔ ملتان میں پہلے روز کے اجلاس میں بیشتر ذیلی تنظیموں کے نمائندے پہنچ چکے تھے، تاہم لاہور سے پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا وفد اپنے جنرل سیکرٹری رحمان بھٹہ کی قیادت میں ہفتے کی صبح ملتان پہنچا۔ اس وفد میں نائب صدر پی یو جے اختر چودھری، رکن مرکزی مجلس عاملہ رضوان خالد، طارق کامران اور راقم شامل تھے۔ لاہور سے وفد کی آمد کے بعد اجلاس میں وفاقی انجمن صحافیان کے علاوہ کراچی یونین آف جرنلسٹس، حیدرآباد یونین آف جرنلسٹس، رحیم یار خان یونین آف جرنلسٹس، میزبان ملتان یونین آف جرنلسٹس، پنجاب یونین آف جرنلسٹس، بہاولپور یونین آف جرنلسٹس، فیصل آباد یونین آف جرنلسٹس، راولپنڈی، اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس اور آزاد کشمیر یونین آف جرنلسٹس کی نمائندگی مکمل ہوگئی۔ صرف بلوچستان یونین اور پشاور یونین کے نمائندے اجلاس میں نہ پہنچ سکے۔ شرکاء میں کراچی سے کے یو جے کے صدر افضال محسن، سپرپرستِ اعلیٰ ہمایوں عزیز، کراچی پریس کلب کے جنرل سیکرٹری مقصود یوسفی، نجم طاہر، حیدرآباد کے سینئر صحافی عبدالحفیظ عابد، رحیم یار خان سے جاوید عباس، جاوید اقبال، فیصل آباد سے صدر یونین سجاد حیدر منا، سلیم شاہد، راولپنڈی سے صدر یونین قمراقبال، میاں منیر، آزاد کشمیر سے مہتاب عباسی، بہاولپور سے ریاض بلوچ اور بہاولپور پریس کلب کے صدر جنید نذیر ناز شامل تھے۔ جبکہ ملتان کے عہدیداروں کے علاوہ سینئر صحافیوں کی بڑی تعداد اجلاس میں شریک ہوئی۔
ہفتہ کی صبح کا آغاز سابق اسپیکر فخر امام کے ناشتے سے ہوا، جنہوں نے بھرپور ناشتے کے ساتھ بھرپور گفتگو بھی کی۔ اس موقع پر ملتان کے کئی سیاسی رہنما اور فخر امام کے ساتھی بھی موجود تھے۔ ناشتے سے فراغت کے بعد شرکاء نے واپس ہوٹل آکر اپنا اجلاس کیا، جس میں رات باقی رہ جانے والی یونینوں نے اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کی جن پر سوالات، تنقید اور مشورے بھی جاری رہے۔ یہاں سے شرکاء جنوبی پنجاب کی واحد پرائیویٹ یونیورسٹی (انسٹی ٹیوٹ آف سدرن پنجاب) گئے جہاں یونیورسٹی کے ریکٹر عاصم نذیر نے اپنی یونیورسٹی کی کارکردگی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن اور حکومتی سردمہری پر روشنی ڈالی۔ کھانے کے بعد شرکاء کو این ایف سی انجینئرنگ یونیورسٹی لے جایا گیا جس کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اختر کالرو اپنے دو ڈپٹی رجسٹرار کے ساتھ منتظر تھے۔ یہاں ڈاکٹر کالرو اور پی ایف یو جے کے عہدیداروں کے مختصر خطاب اور ہائی ٹی کے بعد یہ پروگرام مکمل ہوگیا۔
ہوٹل میں مختصر قیام کے بعد شرکاء نے رانا محمود الحسن ایم پی اے کے عشائیہ میں شرکت کی اور واپسی پر تھکاوٹ کے باوجود اپنا اجلاس کیا جس میں صحافیوں کو درپیش مسائل پر غور کیا گیا، خصوصاً اس رویّے کی مذمت کی گئی کہ اب چینلز اور اخبارات کے مالکان صحافیوں کو اشتہارات لانے پر مجبور کررہے ہیں۔ صحافیوں کے جانی تحفظ اور اُن کے حقوق کے سلسلے میں حکومت اور مالکان کے رویّے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
صبح سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کی طرف سے ناشتے کی دعوت تھی۔ ناشتہ تو بھرپور اور وافر تھا مگر لیاقت بلوچ موسم کی خرابی کی وجہ سے نہ پہنچ سکے۔ تاہم جماعت اسلامی سے وابستہ ملتان ہائی کورٹ بار کے سابق صدر جمشید حیات اور ڈسٹرکٹ بار کے سابق صدر نے ان کی کمی پوری کردی۔
ناشتے کے بعد ملتان پریس کلب میں جاوید ہاشمی اپنی کمزور صحت اور جوان حوصلے کے ساتھ شریکِ گفتگو ہوئے۔ یہیں شرکا نے مختلف قراردادیں پیش کیں جنہیں حاضرین نے منظور کرلیا۔ اس کے بعد گورنر پنجاب رفیق رجوانہ کے گھر ظہرانہ تھا۔ شہرکے اندر ایک عام سے لیکن نسبتاً بڑے گھر کو گورنر ہائوس کا درجہ دیا گیا، یہاں ان کے بیٹے نے شرکا کا استقبال کیا۔ یہاں تقریریں ہوئیں اور کھانے کے بعد شرکا ہوٹل پہنچے، جہاں سے سب نے اپنی اپنی منزلوں کی راہ لی۔ چلتے وقت ملتان یونین نے شرکا کو خوبصورت تحائف پیش کیے۔ اس طرح خوش گوار یادوں اور ملتان یونین کی زبردست میزبانی کا تاثر لیے ہوئے شرکا واپس اپنے اپنے شہروں کو روانہ ہوگئے۔