پاکستان کے 70اور جماعت اسلامی کے 76سال

محمود عالم صدیقی
دسواں حصہ
جماعت کی مجلس شوریٰ اور ریفرنڈم کی مشروط حمایت
10 دسمبر 1984ء کو جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں جماعت نے مندرجہ ذیل چھے شرائط پر ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان کیا:
1۔ شریعتِ اسلامی کو ہر قانون اور ضابطے پر بالادستی حاصل ہوگی۔
2۔ دستور 1973ء میں صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں توازن پیدا کرنے اور قراردادِ مقاصد اور دوسری اسلامی دفعات کو دستور کے متن کا مؤثر اور قابلِ نفاذ حصہ بنانے کے سوا اور کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔
3۔ ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں منتخب ارکان پر مشتمل ہوں گی۔
4۔ ملک کے وفاقی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ مرکز اور صوبوں میں اختیارات اورذمہ داریوں کی تقسیم وہی رہے گی جو دستور 1973ء میں درج ہے۔ سینیٹ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی برابر ہوگی۔
5۔ قومی اور صوبائی انتخابات استصواب کے تین ماہ کے اندر اندر مکمل کرائے جائیں اور 23 مارچ 1985ء تک اقتدار منتخب افراد اور اداروں کو منتقل کردیا جائے۔
6۔ طلبہ اور مزدوروں کے حقوق بحال کیے جائیں اور ان کی سودا کار یونینوں کو قانون کے مطابق سارے حقوق اور مراعات استعمال کرنے کا موقع دیا جائے۔
جماعت اسلامی کی پریس ریلیز
جماعت اسلامی نے اس موقع پر جو پریس ریلیز جاری کی اس میں کہا گیا ’’شوریٰ کے خیال میں ریفرنڈم کے اعلان نے قوم کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اب جب کہ 12 اگست 1983ء کے اعلان کے مطابق قومی انتخابات کی آخری حد میں صرف 14 ہفتے باقی رہ گئے ہیں یہ ایک نیا مسئلہ اٹھادیا گیا ہے۔ ریفرنڈم کے اعلان کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ 1973ء کے متفق علیہ دستور میں بنیادی تبدیلیوں کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان تمام معاملات اور مسائل کو ایک بار پھر اٹھادیا گیا ہے جو گزشتہ 25 برس میں سیاسی رہنمائوں کی مسلسل محنت اور فی الحقیقت خدا کے فضل سے خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہوگئے تھے۔ اگر اس ریفرنڈم کا سہارا لے کر اس پٹارے کو پھر کھول دیا جاتا ہے تو پھر اس ملک کے شیرازے کو مجتمع رکھنا محال ہوگا۔‘‘
پی آئی اے کی یونینوں پر پابندی
طیارہ کے اغوا میں اپنی نااہلی اور بعد میں مجرمین کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے16 اگست کو مارشل لا کا ضابطہ نمبر 52 جاری کردیا گیا جس کی براہ راست زد ان عام ملازمین پر پڑتی تھی جو حکومت کے ساتھ تعاون کررہے تھے اور جس نے ایئر لائن کی نااہل انتظامیہ کو وسیع اختیارات سونپ دیئے۔ اس ضاطہ کے تحت فوری طور پر پی آئی اے میں یونین سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان کے دفاتر سیل کردیے گئے اور ریکارڈ ضبط کرلیا گیا۔ انتظامیہ کو اختیار مل گیا کہ وہ کسی ملازم کو تخریب کاری، نااہلی اور بدعنوانی کا چارج لگاکر ملازمت سے برطرف کردے اور غیرضروری ملازمین کو تین ماہ کا نوٹس یا تنخواہ دے کر ریٹائرمنٹ کے فائدوں کے ساتھ رخصت کردے۔ اس ضابطہ کے اجراء کے ساتھ پورے ملک میں ہوائی اڈوں کا انتظام خود فوج نے سنبھال لیا۔ پیاسی اور ایوپیا یونینوں کے تمام عہدہ دار برطرف کردیئے گئے۔
بنگلہ دیش
30 مئی کو ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کے صدر ضیاء الرحمن قتل کردیئے گئے۔ وہ چاٹگام کے ریسٹ ہائوں میں سورہے تھے، صبح ساڑھے تین بجے حمل آوروں نے فائرنگ شروع کردی اور صدر موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔
چودھری ظہور الٰہی
25 ستمبر کو لاہور میں چودھری ظہور الٰہی اور ان کے ڈرائیور کو گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ وہ سابق چیف جسٹس، مولوی مشتاق حسین کو ان کے گھر چھوڑنے جارہے تھے۔ جسٹس مشتاق حسین کو معمولی زخم آئے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں چودھری ظہور الٰہی شدید ترین آزمائش سے گزرے تھے۔ انہوں نے جبر کے سامنے سپر نہیں ڈالی۔ قومی اتحاد کی تحریک کے دوران انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔
بھارتی طیارہ کا اغواء
29 ستمبر کو بھارت کے ایک بوئنگ 737 مسافر بردار طیارے کو اغوا کرکے لاہور پہنچادیا گیا۔ طیارہ دہلی سے سری نگر کے لیے روانہ ہوا تھا لیکن امرتسر سے قبل اغوا کنندگان نے جن کی تعداد پانچ تھی اور جو کرپانوں سے مسلح تھے پائلٹ کو لاہور چلنے پر مجبور کردیا۔ طیارے میں 111 مسافر اور عملے کے 16 ارکان سوار تھے۔ اغوا کنندگان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے سینکڑوں سکھوں کو قتل کردیا ہے۔ انہوں نے اپنے رہنما سنت جرنیل سنگھ اور دیگر رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ہائی جیکرز کے مطالبات کی منظوری کے لیے مقرر کردہ وقت سوا دو گھنٹے قبل پاکستانی کمانڈوز نے خاکروبوں کی شکل میں جہاز کی صفائی کے بہانے طیارہ میں داخل ہوکر نہایت مہارت کے ساتھ ایک گولی چلائے بغیر پانچوں ہائی جیکرز پر قابو پاکر انہیں گرفتار کرلیا اور تمام یرغمالیوں کو بحفاظت رہا کرالیا گیا۔ بھارتی طیارہ اسی روز سہ پہر کے وقت رہا شدہ مسافروں اور عملے کو لے کر لاہور سے دہلی کے لیے روانہ ہوگیا۔ بھارتی سفیر نے پاکستانی حکام کا شکریہ ادا کیا۔
اسلامی نظام کے قیام کے وعدے
1982ء میں بھی حسب سابق صدر ضیاء مختلف مواقع پر اپنے اس عزم کا اعادہ کرتے رہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا وعدہ پورا کریں گے۔ 9جنوری کو اسلام آباد میں ایک عظیم الشان دو روزہ سیرت کانفرنس میں پورے ملک سے چوٹی کے علماء، مشائخ اور مقتدر شہریوں نے شرکت کی۔
ڈالر سے وابستگی کا خاتمہ
9 جنوری کو حکومت نے امریکی ڈالر سے پاکستانی روپے کی وابستگی ختم کردی اور فیصلہ کیا کہ اب پاکستانی روپے کے تبادلہ کی شرح کا تعین ان بڑے ممالک کی کرنسی کے ساتھ ہوگا جن کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات ہیں۔ 30 نومبر کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی 1981-82ء کی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ اس سال جنوری میں امریکی ڈالر کے ساتھ پاکستانی کرنسی کی وابستگی ختم ہونے کے بعد تمام اہم کرنسیوں کے مقابلہ میں پاکستانی روپے کی قیمت میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ ادائیگیوں کا توازن بری طرح متاثر ہوا ہے۔ تھوک اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بیرونی تجارت میں 42 ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ درآمدی اشیاء کی قیمتیں 40 فیصد بڑھ گئی ہیں۔ یہ فیصلہ قومی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔
سیاسی جماعتوں کے اتحاد
ایم آر ڈی کی تشکیل کے بعد اس کے دائرہ کو مزید وسیع کرنے کے لیے کوششیں جاری رہیں۔ اسی طرح دائیں بازو کی جماعتوں کے مابین بھی ایک اتحاد تشکیل دنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ 18 جنوری کو جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر لاہور میں کالعدم پیپلز پارٹی کے مسٹر فاروق لغاری نے قاضی حسین احمد سے ملک کے سیاسی حالات پر بات چیت کی۔ 24 فروری کو کالعدم جماعت اسلامی نے ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے لیے اپنا ایک فارمولا پیش کردیا۔ میاں طفیل محمد نے وضاحت کی کہ ہم کسی ایسے اتحاد میں شامل نہیں ہوں گے جس کا حکومت کے ساتھ تصادم ہو۔ ہم ایک دوسرا تازہ دم مارشل لا نہیں چاہتے۔ سیاسی رہنمائوں کے درمیان ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ پورے سال جاری رہا۔ مسلم لیگ کے تینوں دھڑوں کو بھی یک جا کرنے کی کوشش کی گئی۔ بتایا گیا کہ پگاڑا اور قیوم لیگ باہمی اتحاد پر رضامند بھی ہوگئے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل
کونسل نے اس خیال کے پیش نظر کہ صدر ضیاء اسلامی نظام کے نفاذ کے معاملہ میں سنجیدہ اور مخلص ہیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں رات دن ایک کردیا۔کونسل کے چیئرمین جسٹس تنزیل الرحمن نے جو خود ایک صاحب فکر و نظر شخصیت ہیں اپنی سفارشات کی تیاری میں ممبران کونسل کے علاوہ مختلف شعبوں کے ماہرین سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ اقتصادیات کو اسلامی ڈھانچہ میں ڈھالنے کے لیے اپنی سفارشات کونسل نے گزشتہ سال ہی حکومت کو پیش کردی تھیں۔ 10 جولائی کو ایک افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے صدر ضیاء الحق نے کہا کہ حکومت ان سفارشات پر غور کررہی ہے۔ 15 جولائی کو انکشاف کیا کہ نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں اسلامی نظام سے متعلق کوئی ٹھوس بات نہیں کہی گئی ہے۔ یہ رپورٹ کونسل کو واپس بھیجی جارہی ہے۔ صدر ضیاء کے اس اعلان کے بعد نظریاتی کونسل کے ذرائع نے اعلان کیا کہ کونسل نے اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت کی تشکیل کے لیے صدر ضیاء کو حتمی اور واضح تجاویز پیش کی ہیں یہ سفارشات اکیس نکات پر مشتمل ہیں۔
اہم افراد کے استعفے
16 فروری کو آغا شاہی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا جسے صدر نے منظور کرلیا ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خاں کو نیا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا جو ان دنوں فرانس میں پاکستان کے سفیر تھے۔ 18 اگست کو مسٹر اے کے بروہی نے اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا جسے صدر نے منظور کرلیا۔ 4 نومبر کو حکیم محمد سعید نے صدر کے مشیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ جس مقصد کے لیے انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی وہ مقاصد پورے نہیں ہورہے ہیں۔
سیاسی رہنمائوں کے قتل
7 مارچ کو کالعدم نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور صوبہ سرحد کے سابق گورنر ارباب سکندر خان خلیل کو صبح تقریباً 9 بجے ان کے گائوں تہکال بالا کے قریب گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ وہ ناشتہ کرنے کے بعد چہل قدمی کررہے تھے۔ کھیتوں میں کام کرنیوالے مزدوروں نے بھاگتے ہوئے ملزم کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔13 ستمبر کو کراچی میں ظہور الحسن بھوپالی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ وہ اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دو حملہ آور اچانک اندر گھس آئے۔ اسٹین گن سے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ سے دوسرے دو افراد بھی موقع ہی پر جاں بحق ہوگئے۔
کل پاکستان وکلاء کنونشن
17 اکتوبر 1982ء کو لاہور ہائی کورٹ کے احاطہ میں وکلاء کا ایک کل پاکستان تاریخی کنونشن منعقد ہوا جس میں ایک سو سے زائد بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلوں کے چار ہزار سے زیادہ ارکان نے شرکت کی۔ اجلاس سات گھنٹے جاری رہا۔ اس میں مطالبہ کیا گیا کہ 1973ء کا آئین بحال کرکے ملک میں بلاتاخیر عام انتخابات کرائے جائیں۔ تمام سیاسی نظربندوں کو رہا کیا جائے۔ گرفتار شدہ اور نظر بند وکلاء رہا کیے جائیں۔ اس کنونشن میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر کے وکلاء 16اکتوبر کو تین گھنٹے کی ہڑتال کریں۔لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے متفقہ طور پر اس فیصلے کی تائید کی کہ تمام وکلاء 16 اکتوبر کو ہڑتال کریں۔
مارشل لا حکومت نے کنونشن کے فیصلوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ البتہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے انہیں خوش کرنے کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ ججوں کی خالی اسامیاں وکلاء سے پر کی جائیں گی۔
وفاقی شرعی عدالت
18 نومبر کو وفافی شرعی عدالت نے حکومت سے سفارش کی کہ نجی فریقین کے مابین لین دین کے معاملات میں سود پر پابندی لگادی جائے۔ عدالت کے چیف جسٹس، جسٹس شیخ آفتاب حسین نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے مروجہ قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے لیے سلسلے میں سترہ جلدوں پر مشتمل پاکستان کوڈ کی نویں اور دسویں جلد پر کام مکمل کرنے کے بعد اب گیارہویں اور بارہویں جلد پر کام شروع کردیا گیا ہے۔
صدر ضیاء کے قائم کیے ہوئے یہ تین اہم ادارے یعنی مجلس شوریٰ، نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت اسلامی نظام کے قیام کے لیے بھرپور تعاون کررہے ہیں لیکن ان کو عملی جامہ پہنانے کا اختیار تو صرف اور صرف صدر ضیاء کے ہاتھوں ہی میں مرکوز تھا جس میں کوئی پیش رفت نہیں ہورہی ہے۔
وفاقی کابینہ
20 فروری 1983ء کو وفاقی وزیر تعمیرات اور ورکس ایئرمارشل (ر) انعام الحق خاں وفاقی کابنہ سے مستعفی ہوگئے۔ ۵ مارچ کو تین نئے وزیر ڈاکٹر افضل، عبدالغفور ہوتی اور لیفٹیننٹ جنرل جمال سید کابینہ میں شامل کیے گئے ۔
غیرجانبدار سربراہی کانفرنس
ساتویں غیرجانبدار سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے صدر ضیاء 6 مارچ کو نئی دہلی روانہ ہوگئے۔ واپسی پر 12 مارچ کو انہوں نے ایئرپورٹ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کانفرنس کے اعلان اور اس کے نتائج سے مطمئن ہیں۔ افغانستان اور کشمیر جیسے اہم اور سنگین مسائل کا صرف اس طرح سرسری طور پر مبہم حوالہ دیا گیا جس کا کوئی واضح مطلب نہ نکلتا ہو کانفرنس کے اختتام پر اس تنظیم کی نئی سربراہ مسز اندرا گاندھی نے اپنی پریس کانفرنس میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ افغانستان پر روس کی ظالمانہ جارحیت اور فوم کشی کی کھلی اور بھرپور حمایت کی۔

امریکی امداد
24 مارچ کو واشنگٹن میں ایشیاء اور بحرالکاہل سے متعلق امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی سب کمیٹی نے 1984ء کے لیے پاکستان کو 58 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد کے بارے میں انتظامیہ کی تجویز کو مکمل طور پر منظور کرلیا۔ اس لحاظ سے صدر ضیاء کا سابق دورہ امریکہ نتیجہ خیز ثابت ہوا۔
میاں طفیل محمد سے ملاقات
25 اپریل کو صدر ضیاء نے لاہور میں میاں صاحب سے ایک ملاقات کی۔ اگلے دن میاں صاحب نے پریس کو بتایا کہ اپنی اس ملاقات میں انہوں نے صدر ضیاء پر سیاسی سرگرمیاں بحال کرنے، نوابزادہ نصر اللہ، اصغر خاں، مولانا فضل الرحمن اور دوسرے سیاسی نظربندوں کی رہائی پر زور دیا۔ میاں صاحب نے اپنے اس تاثر کا اظہار کیا کہ تمام سیاسی نظر بند جلد رہا کردیئے جائیں گے۔ اس کی یقین دہانی کے علاوہ صدر نے یہ بھی کہا کہ سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کا کوئی معقول طریقہ جلد تلاش کرلیا جائے گا۔
چھٹا ترقیاتی منصوبہ
2 جون کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی ڈاکٹر محبوب الحق نے چھٹے ترقیاتی منصوبے جولائی 1983ء تا جون 1988ء کے بنیادی خدوخال کا اعلان کیا۔ اس طویل المیعاد منصوبے کی تیاری اور منظوری میں وفاقی مجلس شوریٰ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ مارشل لا حکومت کو کسی لحاظ سے بھی یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ آئندہ پانچ برسوں کے لیے ایک اقتصادی منصوبہ ملک پر مسلط کردے۔
پاک امریکہ تعلقات
4 جولائی کو امریکہ کے وزیر خارجہ جارج شلز نے جو ان دنوں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے اسلام آباد میں صدر ضیاء اور صاحبزادہ یعقوب سے گفتگو کرنے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ پاکستان کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف نہیں ہے اور یہ خوش خبری بھی سنائی کہ پاکستان کے لیے امریکہ کی اقتصادی امداد کے امکانات بے حد روشن ہیں۔ ان ہی دنوں صدر ضیاء نے ایک بیرونی روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پرامن مقاصد کے لیے بھی ایٹمی دھماکہ نہیں کرے گا۔
انصاری کمیشن
10 جولائی کو صدر نے طرز حکومت کے سلسلے میں موصول ہونے والی مختلف رپورٹوں کا جائزہ لینے کے لیے مولانا ظفر انصاری کی سربراہی میں ایک کمیشن مقرر کردیا جو 31 جولائی تک صدر کو اپنی رپورٹ پیش کردے گا۔ صدر نے کمیشن کے لیے اعزازی مشیر بھی مقرر کردیے۔ اس کمیشن میں ایسے ارکان شامل کیے گئے جو صدر کے ہم خیال تھے۔ اس کمیشن کے قیام کی کوئی حقیقی ضرورت موجود نہیں تھی سوائے اس کے کہ دوسرے اداروں کی تجاویز کو غیرموثر بناے کے لیے نئے کمیشن سے اپنی پسند کی سفارشات حاصل کی جاسکیں۔
صدر ضیاء کا دورہ جاپان
15 جولائی کو جاپان کے چھ روزہ دورے پر ٹوکیو روانگی سے قبل صدر ضیاء نے جاپان کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات اب زیادہ دور کی بات نہیں۔ جمہوریت کا فروغ پاکستان کی ضرورت اور روح کے مطابق ہوگا۔ گفت و شنید کے ذریعہ اخلاقی اقدار بلند ہوں گی۔ ملک میں بہترین سیاسی قیادت ابھرے گی۔ سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے مستحکم ہوں گے۔ 20 جولائی کو ٹوکیو میں پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی ڈھانچہ 14 اگست سے قبل پیش کردیا جائے گا۔
انصاری کمیشن
4 اگست کو مولانا انصاری نے آئین کمیشن کی رپورٹ صدر کو پیش کردی۔ کمیشن نے اسلام کا شورائی نظام نافذ کرنے کی سفارش کی اور اسلامی طرز کے نظامِ حکومت کو ’’شورایت کا نظام‘‘ کہنے کی سفارش کی۔ ارکان شوریٰ کا انتخاب کیا جائے جو غیرجماعتی بنیاد پر ہو۔ 1973ء کے آئین کو مناسب ترامیم کے ساتھ برقرار رکھا جائے۔
بلدیاتی انتخابات
بلدیاتی اداروں کے انتخابات ستمبر کے اواخر اور اکتوبر کی ابتداء میں مکمل ہوگئے۔ یہ انتخابات غیرجماعتی بنیاد پر کرائے گئے۔ پیپلز پارٹی کے ا فراد نے ان میں حصہ لیا۔ پورے ملک میں ووٹ کھلے بندوں فروخت ہوئے رہے۔ ہر جگہ جیت نقدی اور گروپ بندی ہی کو حاصل رہی۔ انتشار، افتراق، گروہ بندی اور تعصبات کو فروغ حاصل ہوا۔ مقامی سوچ کو اجتماعی تعمیری انداز فکر پر فوقیت حاصل رہی۔ دولت مند اور مفاد پرست طبقے نے تجوریوں ے منہ کھول دیئے۔ لسانی، نسلی، طبقاتی اور برادریوں کے تعصبات نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ووٹوں کی نیلامنی ہوئی اور ملک و ملت کے مفاد کو دائو پر لگادیا گیا۔ انتظامیہ نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا اور بدعنوانیوں کے سدباب کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
سیاسی مذاکرات
10 اکتوبر کو صدر ضیاء نے سیاسی رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ پہلے انہوں نے جمعیت علماء پاکستان کے ایک وفد سے ملاقات کی و تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہی۔ اس وفد کی قیادت مولانا نورانی کررہے تھے۔ 15 اکتوبر کو پیر صاحب پگاڑا کی قیادت میں مسلم لیگ کے ایک وفد نے صدر سے مذاکرات کیے جو تین گھنٹے جاری رہے۔ 18 اکتوبر کو خاکسار تحریک اور جمعیت اہل حدیث کے وفود نے صدر سے ملاقات کی۔ 20 اکتوبر کو مولانا کوثر نیازی کی قیادت میں پروگریسو پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے مذاکرات کیے اور 21 اکتوبر کو میاں طفیل محمد کی قیادت میں جماعت اسلامی کے ایک وفد نے صدر سے بات چیت کی۔ ان ملاقاتوں میں صدر کے ساتھ غلام اسحاق خان، محمود ہارون، رائو فرمان علی، راجہ ظفر الحق، جنرل کے ایم عارف اور معظم علی بھی شریک ہوئے۔
بدامنی کے واقعات
1983ء کی ابتداء ہی سے پورے ملک میں بدامنی کے واقعات رونما ہونے لگے۔ انتہا پسند عناصر ہی نہیں بلکہ معتدل سیاسی رہنما اور قانونی ماہرین بھی اپنے اضطراب کا اظہار کرنے پر مجبور ہونے لگے۔ اس سال کے شروع ہی میں 12 جنوری کو پیر پگاڑا نے کہا صدر ضیاء اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اسی لیے وہ ملک میں انتخابات کو مسلسل ملتوی کیے جارہے ہیں اور اس التوا کی ذمہ داری سیاست دانوں کے سر منڈھ دیتے ہیں۔ اگر اس میں کوئی حقیقت ہے تو پھر وہ ان لیڈروں کے نام ظاہر کریں جو انہیں یہ مشورہ دیتے ہیں۔
جیل سے قیدیوں کا فرار
پورا ملک یہ خبر سن کر دنگ رہ گیا کہ یکم اپریل کو سنٹرل جیل سکھر سے سات بدنام قیدی جیل کی بلند دیوار پھلانگ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ دیوار کے ساتھ بڑی بڑی لکڑیاں رکھ کر یہ قیدی جیل کی 22 فٹ اونچی دیوار پر چڑھ کر فرار ہوگئے۔ ان فرار ہونے والے قیدیوں میں ایک ایسا ڈاکو بھی شامل تھا جس پر ایک مقابلے میں 8 پولیس افسران کے قتل کا الزام ہے۔
(جاری ہے)