ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح
ترجمہ: مسعود الرحمن خان ندوی
’’تاریخ صرف حوادث وواقعات کے بیان کا نام نہیں بلکہ وہ ان کی تفسیر اور ان کے درمیان روابط کی ایسی معرفت کا نام ہے، جو منتشر واقعات کو جمع کرکے ان کو مضبوط حلقوں کی ایک وحدت بنادے۔ حوادث کی تفہیم و تفسیر نفسِ بشری کے روحانی و فکری و مادی مقومات کے ادراک اور دنیاوی زندگی کے غیبی و مادی و ادبی مقومات کے فہم سے جڑی ہوئی ہے۔‘‘
سید قطبؒ کے یہ الفاظ شاید ہم کو خود اس عظیم انسان کے بیشتر مواقف اور آراء کے فہم و تفسیر میں مدد دے سکتے ہیں۔
میں اکثر خود اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اگر سید قطب اس بلند ادبی وہبی صلاحیت (جس کی سب گواہی دیتے ہیں) کے مالک نہ ہوتے بلکہ صرف ایک مفکر کی حیثیت سے امرِ واقع کے ساتھ مفکرین و فلاسفہ کی طرح کا معاملہ رکھتے تو کیا ان کی وہی آراء ہوتیں جن کا انہوں نے اظہار کیا؟ یا یہ سوچتا ہوں کہ 1964ء میں جیل سے رہا ہونے کے بعد سابق صدر عبدالسلام عارف کی دعوت پر اگر وہ عراق چلے گئے ہوتے تو کیا نئے ماحول و معاشرے کا ان کے مختلف افکار و تصورات پر ایسا اثر پڑتا جیسا کہ عراق سے مصر کے سفر کا اثر امام شافعیؒ کی آراء و فتاویٰ پر پڑا تھا؟ یا کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دیتا اور صدر عبدالناصر مصر و بیرونِ مصر کی اپیلوں کی خاطر ان کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیتا تو کیا زمانے کے ساتھ طویل سوچ بچار ان کو اپنے تصورات اور استنتاجات پر نظرثانی کا موقع دیتے جیسا کہ بہت سے مفکرین کے ساتھ ان کے سابقہ خیالات و افکار پر نظرِثانی کے معاملے میں پیش آچکا ہے؟ لیکن اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی مشیت تھی کہ وہ شہادت سے سرفراز ہوں۔
اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں کہ سید قطب خالص اپنے دین کے لیے وقف ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنے آپ کو صرف اپنے اللہ کے سپرد کردیا تھا۔ ان کو اس دین کی قوت و صلاحیت پر پورا اعتقاد و یقین تھا کہ وہ استخلاف اور زمین کی تعمیر کی چھائوں میں صحیح زندگی کے قیام پر پوری طرح قادر ہے۔ وہ ایسے بہادر مردِ آزاد تھے کہ انہوں نے سر ہتھیلی پر رکھ کر اپنی روح اپنے دین و ایمان و اعتقاد کی خاطر سستے میں نچھاور کردی ۔ زندگی کے آخری کئی برس قید میں گزارے جہاں وہ اپنی وہبی صلاحیتوں کے ذریعے اپنے افکار کو جِلا دیتے اور قلم سے اپنے خاص دلکش اسلوب و انداز بیان میں ان کی تشریح کرتے رہے۔ چونکہ ان کی تحریروں میں صداقت و حرارت اور تجرد و اخلاص ہے اس لیے وہ قارئین کو عظیم اثر والا روحانی و وجدانی حوصلہ دیتی ہیں۔
ادیب نہ کہ فقیہ:
کسی قابلِ ذکر بڑے اہلِ قلم کی طرح سید قطب کو سمجھنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ انسان اُن کی زندگی کے مختلف مراحل اور ان کی مرحلہ وار تبدیلیوں کا احاطہ کرے تاکہ ان کے مواقف و نتائج کی صحیح حقیقت جان سکے۔ یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ سید قطب بڑے صاف شفاف ادیب تھے، وہ فقیہ اور اصولِ فقہ کے آدمی نہ تھے۔ ’’ادیب‘‘ جب لکھتا ہے تو اس کی تحریر قطعی اورفیصلہ کن نہیں ہوتی، نہ ہی اُس سے اس کا مطالبہ ہوتا ہے، بلکہ وہ معانی کے جمال وثروت کے لیے ہمیشہ نماذج (Models)، رموز(Symbols) اور مثل (Ideals) کی دنیا میں پرواز کرتا رہتا ہے۔ ’’فقیہ‘‘ کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس کی تحریر و تقریر میں کسی التباس و ابہام کی گنجائش نہیں ہوتی، اس کی بات کو واضح، متعین اور دوٹوک ہونا چاہیے تاکہ اس کے احکام آپس میں گڈمڈ نہ ہوں، ورنہ وہ خود گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سید قطب نے ایک ادیب کی عقل و قلب اور ضمیر سے جو کچھ لکھا اس میں مجاز، بلاغت اور عبارت آرائی کا جمال اس حد تک رچا بسا ہے کہ جب وہ قرآن کی تفسیر اور اسلامی مفاہیم و تصورات و مصطلحات پر لکھتے ہیں، اُس وقت بھی ان کا ادبی اسلوب ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔
بیشک سید قطب کی زندگی کا اہم ترین مرحلہ اسلام کے عقیدہ و نظامِ حیات کی حیثیت سے مطالعہ، پھر اس کی دعوت کا علَم بلند کرنے سے شروع ہوتا ہے، وہ اسلام جو کہ اجتماعی عدل قائم کرتا ہے، ظلم و استبداد اور فقر و افلاس کو زائل کرتا ہے اور شریعت و قانون کی رہنمائی میں فقراء اور کمزوروں کے حقوق کی سرپرستی کرتا ہے۔ اسی مرحلے میں جو کہ امریکہ سے واپسی پر شروع ہوتا ہے، سید قطب نے اخوان المسلمین میں شرکت پسند کی، اس لیے کہ وہ ایک ایسی منظم تحریک تھی جو ان کی دعوتی و اصلاحی آراء و افکار اور اقدار کو اپناسکتی تھی، چنانچہ انہوں نے جماعت کے شعبۂ دعوت و تبلیغ کی رہنمائی قبول کی اور جماعت کے ترجمان مجلۃ الدعوۃ کی ادارت جیل کا سلسلہ شروع ہونے تک سنبھالی۔ اس غیرمتوقع سلسلۂ قید و بند، اذیت رسانی اور دشمنی میں غلو و مبالغے نے ان کے غم و غصہ کو ابھارا جس سے ان کو بڑی حیرت و استعجاب ہوا کہ کسی مسلم معاشرے کی حکومت اس حد تک گرسکتی ہے! ان جیسے حساس و جذباتی ادیب و مفکر کے آس پاس جو وحشیانہ واقعات پیش آرہے تھے ان کے بارے میں بے شمار سوالات اٹھے، چاروں طرف جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں اور تحقیقات کے کمروں میں خون اور لاشوں کے ہیبت ناک مناظر اور تعذیب و تخویف کی دلخراش آوازوں کی توجیہ کے لیے صرف سیاسی دشمنی کی تعلیل و تفسیر کافی نہیں تھی۔
1965ء میں ان کے ساتھ مقید ایک اخوانی نے بتایا کہ سید قطب نے ان سے فرمایا: میری آخری کتابیں میری (موجودہ) فکر کی ترجمانی کرتی ہیں۔ جیسے: معالم فی الطریق، فی ظلال القرآن کے آخری اجزا، خصائص التصور الاسلامی و مقوماتہ‘ الاسلام و مشکلات الحضارۃ اور دوران قید شائع شدہ دیگر تحریریں۔ پرانی کتب کی تاریخی اہمیت سے زیادہ حیثیت نہیں رہ گئی۔ اس بات پر اس اخوانی نے سوال کیا: اس لحاظ سے امام شافعی ؒ کی طرح آپ کے دو مسالک ہیں: ایک قدیم، دوسرا جدید۔ اور ظاہر ہے کہ اب آپ نئے مسلک کے قائل ہیں؟ سید قطب نے جواب دیا: ہاں! امام شافعیؒ کی طرح میں نے بھی تبدیلی کی ہے، لیکن انہوں نے فروعات میں تبدیلی کی اور میں نے اصولوں میں تبدیلی کی۔
بہرحال اس مقالے میں مجھے دو، تین موضوعات سے بحث کرنی ہے جن کو سید قطب نے اپنی تمام تحریروں میں اہمیت دی اور ان پر ترکیز کے ساتھ بات کی، نیز دیگر علماء وباحثین اور اسلامی تحریک کے فرزند بھی ان ہی میں الجھے رہے، وہ موضوعات ہیں: حاکمیت، جاہلیت اور جہاد۔
حاکمیت:
حاکمیت کے تصور کو بہت غلط سمجھا گیا اور اس کے فہم و تطبیق میں ضرورت سے زیادہ توسیع کی گئی ہے۔ سید قطب نے جس چیز پر زور دیا وہ تشریعی حاکمیت تھی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اپنی مخلوقات کے لیے مشرّع (شارع؍قانون ساز) ہے، وہی ان کے لیے حلال و حرام کا فیصلہ کرتا اور حکم دیتا ہے۔ یہ خیال سید قطب کی ایجاد بندہ ہے نہ سید مودودی کی (کہ انہوں نے بھی اس موضوع پر بہت زیادہ تحریر فرمایا ہے) اس لیے کہ یہ بات تو تمام مسلمانوں کو دینی ضرورت کے طور پر معلوم ہے، علمائے اصول نے اس کو ثابت کیا ہے اور تمام اہلِ سنت اس پر متفق ہیں۔ سید قطب اور سید مودودی نے جس حاکمیت کی بات کی اور اس کو صرف اللہ وحدہ کے لیے مخصوص کیا اس کے یہ معنی تو ہیں نہیں کہ اللہ تعالیٰ علماء و امرا ہی کو بالذات والی مقرر کرتا ہے تو وہ اس کے نام پر حکومت کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے صرف تشریعی حاکمیت مقصود ہے۔ رہی سیاسی اقتدار کے مصدر و مرجع کی بات، تو وہ امت ہے جو اپنے حکام کو اختیار/انتخاب کرتی ہے، وہی ان کی نگرانی و محاسبہ؍ مواخذہ کرتی بلکہ ان کو معزول بھی کرتی ہے۔
چونکہ یہ مفہوم کافی دھندلا ہے اس لیے بہت سے غرض مند لادینی لوگ اس کا غلط مفہوم پیش کرنے پر اصرار کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے وہ دین کو زندگی سے دور رکھنے کے نتیجے تک پہنچ سکیں۔ حاکمیت کے معنی مطلقاً دینی حکومت کی دعوت کے نہیں ہیں۔ اس کی سید قطب اور سید مودودی دونوں نے نفی کی ہے۔ چنانچہ سید قطب بہت وضاحت سے لکھتے ہیں:
’’زمین پر اللہ کی مملکت اس کی حاکمیت پر متعین اشخاص (یعنی علمائے دین)کے تقرر سے قائم نہیں ہوتی جیسا کہ چرچ کے اقتدار کے زمانے میں ہوا کرتا تھا، نہ ان لوگوں کے تقرر سے قائم ہوتی ہے جو آلہہ کا نام جپتے تھے جیسا کہ مقدس الٰہی حکومت کے نام پر ہوتا تھا، بلکہ وہ اللہ کی شریعت کے حاکم ہونے سے قائم ہوتی ہے، یعنی شریعتِ مبین میں مقرر کیے ہوئے حکم کے مطابق مملکت کا مرجمع و ماخذ اللہ کی ذات ہو۔‘‘
حاکمیت کے اس معنی و مفہوم سے تشریع (قانون سازی) میں انسانوں کے اس دور کی نفی نہیں ہوتی جس کی اللہ نے ان کو اجازت دی ہے۔ ہاں! وہ اس بات سے ضرور منع کرتی ہے کہ اللہ کے سوا کسی بشر کو تفرّد و استقلال حاصل ہو۔ ظاہر ہے اللہ کو چھوڑ کر من مانی کرنے کو کوئی مسلمان پسند کرتا ہے نہ قبول، جیسے کہ عبادتی امور کی تشریعات، حلال و حرام سے متعلق تشریعات اور وہ تشریعات جو اللہ کی طرف سے فرض کیے ہوئے امور کو ساقط کرتی ہوں۔ رہی غیر منصوص امور یا مصالح مرسلہ سے متعلق امور میں تشریع، تو یہ مسلمانوں کا حق ہے، اس لیے بیشتر امور میں دینی نصوص کلی و اجمالی رکھے گئے ہیں۔ زمان و مکان اور بشر کے تغیر سے بدلنے والی تفصیلات سے بحث نہیں کرتیں، بلکہ کافی گنجائش چھوڑ دی ہے (جس کو علماء الفراغ التشریعی]قانونی خلا[ کا نام دیتے ہیں) تاکہ لوگوں کو اپنے لیے خود تشریح کا موقع ملے اور وہ اس تشریعی خلا کو اپنے مناسبِ حال احکام سے پُر کریں جو ان پر رحمت کے تقاضے سے قصداً چھوڑا گیا ہے۔
جاہلیت:
دوسرا زیر بحث موضوع، مسلم معاشروں کی جاہلیت کی بات ہے جس کے سیاق میں سید قطب نے جرح میں ڈالنے والی حدود تک توسیع و تفصیل سے کام لیا ہے۔ ان کی اہم ترین کتابوں فی ظلال القرآن اور معالم الطریق کو جو بھی مکمل طور پر اچھی طرح پڑھے گا وہ یقینا اس حقیقت تک پہنچے گا کہ ان کتابوں کے مؤلف کے نزدیک تمام مسلم معاشرے عقائد و سلوک (رویہ) کے اعتبار سے جاہلی ہوگئے ہیں، یہ بات ان کو آسانی سے ’’تکفیری‘‘ فکر کے حاملین کے خیال سے قریب کردیتی ہے، جن کا ماننا ہے کہ مسلم معاشرے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے راضی نہیں رہے، انہوں نے اس کے ساتھ دوسرے آلہہ کو شریک کیا اور غیراللہ سے نظام حکومت، قوانینِ مملکت اور زندگی کے لیے ضروری اقدار و افکار اور مفاہیم برآمد کیے۔ چونکہ مسلمانوں کا موجودہ لفظی ایمان واقعی ثبوت سے خالی ہے، اس لیے ہمارے اوپر واجب ہے کہ پہلے ان کے سامنے بنیادی عقائد پیش کریں تاکہ وہ پھر سے اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول ونبی اور الٰہی شریعت کو اپنا حاکم مانیں۔ سید قطب نے معالم فی الطریق میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمارے موجودہ معاشروں کو عہدِ رسالت کے مکی معاشرے سے تشبیہ دی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کے کام کی ابتدا نظام حکومت اور تشریع سے نہیں بلکہ عقیدۂ توحید سے کی تھی، اس تصور کی رو سے اس چیز جس کو فقہ اسلامی کی تجدید یا اجتہاد کے احیاء کا نام دیا جاتا ہے، کے فی الوقت کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ یعنی جب مسلم معاشرہ ہی غائب ہے تو ان سب چیزوں کی کیا ضرورت؟ پہلے مسلم معاشرہ قائم ہو، پھر امرِ واقع کی روشنی میں اس کے مسائل کے حل کے لیے جہاد کیا جائے۔ اِمر واقع (واقعی صورت حال) کے فہم وتشخیص کی یہ بات سید قطب سے پہلے کسی مصلح و داعی نے نہیں کہی، یہاں تک کہ خود اخوان المسلمین کے بانی مرشد عام حسن البنا نے بھی نہیں، بلکہ انہوں نے تو اسلامی دعوت کے عمل کی بنیادیں اس قاعدہ پر رکھیں کہ مسلم معاشرے میں اسلامی اخلاق و اقدار کی کچھ کمیاں ہوگئی ہیں جن کو دور کرنا ہمارا کام ہے، اسی کام کے لیے ہماری دعوت کے قیام کی ضرورت پڑی۔ مسلم حکومتوں پر بھی واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان احکام و تشریعات سے قریب تر کریں جو اہلِ وطن کو عدل و حریت اور پُرامن باعزت زندگی فراہم کریں۔ ان کو دائمی نصیحت اور خیر و بھلائی کی یاددہانی کے لیے تشریعی مجالس، دیگر اہم نگراں اداروں اور پیشہ ورانہ یونینوں میں زیادہ سے زیادہ ہماری موجودگی کی ضرورت ہے۔
جہاد:
تیسرا اہم موضوع جہاد ہے جس پر سید قطب کی رائے قابلِ غور ہے۔ انہوں نے ساری دنیا سے جنگ کے لیے مسلمانوں کو تیاری کی دعوت دی ہے، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئے یا جزیہ ادا کرے۔ اس بارے میں ان کی دلیل سورہ توبہ کی وہ آیات ہیں جن کو بعض لوگ آیات سیف کا نام دیتے ہیں، مگر سید قطب نے ان بہت سی آیات کو نظرانداز کردیا جو صرف اُن لوگوں تک قتال کو محدود رکھنے کا حکم دیتی ہیں جو ہم سے جنگ کرتے ہیں، اور اُن لوگوں کے قتال سے منع کرتی ہیں جو ہم سے نہیں لڑتے، بلکہ مخالفین کے ساتھ عدل و احسان کی تعلیم دیتی ہیں جب تک وہ دین کے لیے ہم سے جنگ نہ کریں، اورہم کو ہمارے گھروں سے نہ نکالیں، نہ دیگر نکالنے والوں کا ساتھ دیں۔ اس بارے میں سید قطب وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہم لوگوں پر اپنا عقیدہ نہیں تھوپتے اس لیے کہ دین میں اکراہ(زبردستی) نہیں ہے، ہم تو ان پر صرف اپنے نظام و شریعت کو لازمی قرار دیتے ہیں تاکہ وہ اس کے سایہ میں جئیں اور اس کے عدل کے مزے لیں۔‘‘
اس عجیب و غریب پیشکش کو رد کرتے ہوئے اگر کوئی یہ کہے: اپنے لیے جو نظام پسند کریں ہم اس کے اختیار میں آزاد ہیں، تم ہم پر اپنا نظام بزور قوت تھوپنے والے کون ہوتے ہو؟ تو بتائیں کہ آپ اس کو کیا جواب دیں گے؟ کیا آپ اس سے نبرد آزما ہوکر اعلانِ جنگ کردیں گے؟ نیز لااکراہ فی الدین (دین میں زبردستی نہیں ہے) قاعدہ کی رو سے ان کو عقیدے کی آزادی دے کر زندگی کے متعین طریقے اور انداز اختیار کرنے پر آپ ان کو کیسے مجبور کرسکتے ہیں؟ یہ بات بھی ایسی ہے جو سید قطب سے پہلے کسی عالم اور فقیہ نے نہیں کہی، نہ تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا۔
اس میں شک نہیں کہ سید قطب اپنے مقاصد اور اندازِ فکر میں بہت مخلص تھے، اس اجتہاد کا ان کو پورا اجر ملے گا، اس لیے کہ اسلام اور صرف اسلام ہی ان کا مرجع ومقصد نہ تھا بلکہ وہ خود پورے کے پورے اسلام اور صرف اسلام کے لیے تھے، وہ اس کے لیے ہی جیے اور اس کی راہ میں شہید ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہو اور ان کو بھی اپنے انعام و اکرام سے خوش فرمادے، اور انبیا و صدیقین و شہداء کے ساتھ ہم کو ان کے ہمراہ جمع کرے کہ رفیق کی حیثیت سے ان سب کا ساتھ بڑا بڑھیا ہے۔ اور جس چیز میں ہم سمجھتے ہیں کہ ان سے چوک ہوئی اللہ ان کو معاف فرمائے اور ان کو سچے مجتہدین کا اجرِ عظیم عطا فرمائے۔
ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان، ولاتجعل فی قلوبنا غلاللذین آمنوا ربنا انک رئوف رحیم
(ہفتہ روزہ الامان، بیروت، شمارہ نمبر :779 …27 اکتوبر 2007ء ،ص:12۔13)