ڈاکٹر خالد امین
حال ہی میں شعبہ اردو جامعہ کراچی میں سرسید احمد خان کی دو سو سالہ سالگرہ کے سلسلے میں عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں سرسید احمد خان کے حوالے سے سوچنے اور سمجھنے کی راہ متعین کرنے کی کو شش کی گئی۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں مختلف طبقہ ہائے فکر میں سرسید احمد خان کے حوالے سے زبردست بحث کا سلسلہ جاری و ساری ہے جسے یقینا ایک قابلِ اطمینان رویہ کہا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں معروف دانش ور شاہنواز فاروقی صاحب کا مضمون بھی ہماری نظر سے گزرا۔ سید احمد خان کے حوالے سے وہ پہلے بھی اپنے کالموں میں جن امور کی نشاندہی کرچکے ہیں اس سے انکار ممکن نہیں، لیکن کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن کو سمجھے بغیر ہم فکرِ سید احمد کا صحیح رخ نہیں دیکھ پائیں گے۔ میں اپنی معروضات کو قطعی حتمی نہیں سمجھتا، اور اس تحریر کا مقصد کسی کی بات پر تنقید نہیں، بلکہ میں صرف اپنا نقطہ نظر صاحبانِ علم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
مولوی عبدالحق نے لکھا ہے: ’’تصویر جس قدر بڑی، شان دار اور نفیس ہوتی ہے اسی قدر اسے پیچھے ہٹ کر دیکھنا پڑتا ہے تاکہ اس کے خدوخال واضح طور پر نمایاں ہوسکیں اور صانع کے کمال اور تصویر کے حسن و قبح کا صحیح اندازہ ہوسکے‘‘۔ یہی حال دنیا میں ان تمام بڑے لوگوں کا ہے جنھوں نے اپنے کردار و عمل کے ذریعے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انھی میں ایک سید احمد خان بھی ہیں جن کا مطالعہ چند باتوں کو مدنظر رکھ کر کیا جانا چاہیے۔
اول یہ کہ سید احمد خان نے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو بچانے کی کوشش کی یا تباہ و برباد کرنے کی؟
دوم یہ کہ ایسے حالات میں جب مسلم ہند کی زندگی کا شیرازہ بکھر گیا ہو، علما قید یا شہید کردیے گئے ہوں، ایک مصلح کو کیا کرنا چاہیے؟ جب کہ اُس زمانے میں مسلمانوں کی دادرسی کے لیے کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں تھا جہاں وہ اپنے آنسو پونچھ سکتے ہوں۔
سوم یہ کہ سید احمد خان نے جو مذہبی تعبیرات کی ہیں،کیا صرف انھی بنیادوں پر ان کی شخصیت کا محاکمہ کیا جائے؟ یا پھر ان کے کاموں کو کلیّت میں دیکھا جائے۔
چوتھی بات جو سب سے اہم ہے، وہ یہ کہ ہمیں سید احمد خان کی ان باتوں کی جانب تو متوجہ ضرور کیا جاتا ہے جو وہ انگریزوں کے حلیف بن کر کرتے رہے، لیکن اُن تحریروں، تقریروں اور واقعات کا تذکرہ شاذ ہی کیا جاتا ہے جو انگریزوں کے خلاف ہیں۔
سید احمد خان یا اُس وقت کے مسلمان جن حالات سے گزر رہے تھے اگر صرف ان کا تصور کرلیا جائے، یا ان واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں سید احمد خان اتنے قصوروار نظر نہیں آتے جتنا کہ ہم انھیں ٹھیرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک ان کی مذہبی تعبیرات کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمیں مولانا قاسم نانوتوی کے طرزعمل کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ انھیں جب یہ بتایا گیا کہ سید احمد خان یہ نظریات رکھتے ہیں تو انھوں نے پوچھا کہ کیا خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں؟ اور روزِ جزا پر یقین رکھتے ہیں؟ تو لو گوں نے کہا کہ ہاں۔ مولانا قاسم نے کہا کہ پھر صاحبِ ایمان ہیں۔
سید احمد خان اس بات کے خواہاں تھے کہ مسلمان جن حالات پر پہنچے ہیں ان حالات کو کسی طرح ختم کیا جائے۔ بہت زیادہ سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان جدید مغربی علوم سے بہرہ مند ہوں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کی زلف کے اسیر حامیانِ سرسید اور مخالفینِ سرسید دونوں ہیں۔ سرسید کے مخالف اس بات کا مذاق تو بہت اڑاتے ہیں کہ سرسید نے مسلمانوں کو مغربی تعلیم کا خوگر بنادیا ہے، لیکن بہت معذرت کے ساتھ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بھی اپنی نسلوں کی آبیاری کا کام سید احمد خان کے فارمولے کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک سرسید کی مذہبی تعبیرات کا سوال ہے تو میں یہ بتاتا چلوںکہ وہ اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن ہندوستان کے ماحول نے انھیں مجبور کردیا کہ وہ ان چیزوں کا سہارا لیں۔ عیسائیوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے مابین جو مذہبی منافرت پائی جاتی تھی اس کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی جس کی ساری تعبیرات سائنسی تھیں۔ یہ کام بھی انھوں نے اپنے مطالعے کے زور پر انجام دیا، لیکن اس میں جا بہ جا ٹھوکریں کھائی ہیں۔ لیکن آج کے اس جدید دور میں بھی بہت سارے علما علمِ دین کی سائنسی تعبیرات پیش کرتے ہیں اور کئی مفکرین ایسے ہیں جن کی تحریریں اس نکتہ نظر سے خالی نہیں ہے خواہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ہوں یا اقبال۔
سید احمد نے جو سب سے اہم کام کیا وہ ہے مسلمانوں میں جدید علوم کی ترویج واشاعت۔ اور اس تحریک کو علی گڑھ تحریک کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ وہ اگرچہ سید احمد خان کے انگلستان سے واپس آنے کے بعد 1870ء میں شروع ہوئی، لیکن اس کی داغ بیل وہ پہلے ہی ڈال چکے تھے۔ اس تحریک سے قبل تحریک مجاہدین، بنگال کی فرائضی تحریک بھی مسلمانوں کی بیداری میں اہم کردار ادا کرچکی تھیں۔ سید احمد خان چوں کہ انگریزی حکمت عملی کا شکار ہوگئے تھے اس لیے اُن کی نگاہ بہت حد تک انگریزوں کے اختلاف کے معاملے میں محدود ہوتی گئی، مگر انھوں نے علی گڑھ تحریک کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب سے مقدم یہ کرنا ہے کہ وہ مسلمان رہیں اور مذہبِ اسلام کی حقیقت ان کے دل میں قائم رہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم انگریزی تعلیم بھی دیں اور عقائدِ مذہبی سے بھی روشناس کرائیں، اور جہاں تک ممکن ہو ان کو فرائضِ مذہبی کا پابند رکھیں۔
انھوں نے مسلمانوں کے روایتی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں انگریزی تعلیمی ادارے تشکیل دیے، جس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی ملی۔ انھی کاموں کی بنا پر سید احمد خان کو انگریزوں کا ایجنٹ، خوشامدی اور پٹھو کہا گیا، ابن الوقت کے طعنے دیے گئے، اور اگر ان القابات سے بڑھ کر بھی کوئی لقب موجود ہو تو اس سے بھی انھیں نوازا جاسکتا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی سرسید احمد خان انگریزوں کو اپنا ضمیر اور وجود بیچ چکے تھے؟ یا اس کے علاوہ بھی ان کی تصویر کے کچھ پہلو ایسے ہیں جنھیں غور سے دیکھ کر شاید ہم کوئی بہتر اور اعتدال پر مبنی رائے قائم کرسکتے ہیں۔ جس شخص نے اپنی خاندانی سیادت کو انگریزوں کے ہاتھوں لٹا دیکھا ہو، جس کے آبا و اجداد رنگون میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوں، جو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے امرا اور رئوسا کو بھیک مانگتے دیکھے، وہ اگر جابرِ وقت کے سا منے مصلحت کا شکار نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا!
لیکن ان تمام حقائق کے برعکس سید احمد خان ایک ایسے شخص کا نام ہے جو حالات سے منہ موڑ کر بھاگتا ہوا دکھائی نہیں دیتا، بلکہ آہستہ آہستہ اپنی بکھری ہوئی پونجی کو سمیٹ کر ایک نئے جہان کی تعمیر کرنے میں جت جاتا ہے، اور جس چیز کو وہ بہتر جانتا ہے بلاخوف و تردد اسے انجام دے لیتا ہے۔ یہ وہی سید احمد خان ہیں جو آگرہ کے دربار سے اس بات پر خفا ہوکر چلے آئے کہ وہاں کے انگریز ہندوستانیوں کو اپنے سے نیچی جگہ دیتے ہیں جب کہ اس اجلاس میں انھیں طلائی تمغا ملنے والا تھا۔ سر ولیم میور سے ملنے سے محض اس لیے انکار کردیا کہ اُس نے ان کی تعلیمی پالیسی پر اعتراضات کیے تھے، اور جس کی کتا ب Life of Muhammadکا جواب انھوں نے اس انداز میں دیا کہ بعد میں اہلِ مغرب کی بہتان تراشیوں کے جوابات علمی انداز میں دیے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ولیم میور کی کتاب نے ان کے دل کو بے کل کردیا تھا اور اس کا جواب لکھنے کے لیے انھوں نے اپنے گھر کے برتن بیچ دیے، اپنا کتب خانہ اور گھر گروی رکھ دیا اور اپنی محققانہ تصنیف ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ یادگار چھوڑی۔
جس شخص نے اُن تمام یورپین افسروں سے ملنا چھوڑ دیا ہو جنھوں نے علی گڑھ کالج کی مخالفت کی تھی، ایسے شخص کو پٹھو کہنا شاید تاریخ کے ساتھ بڑی ناانصا فی ہے۔ ان کا زمانہ ایسا تھا جب آزادی کے نام پر زبان کٹتی تھی۔ حاکم کی زبان ہی قانون ہو، مسلمان ہونا بجائے خود ایک بڑا جرم ہو، طرح طرح کے الزامات مسلمانوں پر تھوپ کر گولیوں سے انھیں اڑا دیا جا تا ہو، ایسے میں ’’اسباب بغاوتِ ہند‘‘ جیسی کتاب لکھی اور اس پر انگریز افسر معترض ہوا، اور پارلیمنٹ میں جس پر بڑی زبردست بحث ہوئی اور مسلمانوں کی بحالی کی صورت نکلی۔ جس کے قائم کردہ ادارے سے تحریکِ خلافت، تحریکِ ہجرت، تحریک مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی ہو، جس کی فکر سے پھوٹنے والی کرنوں نے مسلمانوں کے ذہنوں کو بیدار کیا ہو، جو آج دوسو سال کے بعد بھی مخالفت اور حمایت میں زندہ ہو، کیا اسے ہماری تاریخ کہ جس کی فکر پر ہم سب نے عمل کیا ہو، ولن قرار دینے پر ہمیں مجبور کرسکتی ہے؟ یہ سوال تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہر اُس شخص سے پوچھا جا سکتا ہے جو کالجوں، یونی ورسیٹیوں میں تعلیم حاصل کرکے اپنے مستقبل کو محفو ظ سمجھتا ہے۔