ملک افواہوں کی زد میں

سکندر علی ہلیو؍ اسامہ تنولی
’’پاناما اسکینڈل کے بعد کی کہانی کا نیا ٹوئسٹ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم اور داماد کیپٹن(ر) صفدر پر فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔ پاناما اسکینڈل میں نام آنے اور پھر فارغ کردہ وزیراعظم نوازشریف کو ڈھائی ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اُن کی جگہ پر انہی کی پارٹی کے وزیراعظم تقریباً تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اور اسی کابینہ کے ہمراہ اسلام آباد میں براجمان ہیں، لیکن لگتا ہے کہ مسلم لیگ نواز اور شریف خاندان کے پائوں تاحال زمین پر نہیں ٹک رہے ہیں۔ اسلام آباد کا اقتداری ایوان اُن کے لیے ایک طرح سے دلدل کی مانند ثابت ہورہا ہے جس میں سے باوجود کوشش کے وہ نکلنے کے بجائے مزید دھنستے چلے جارہے ہیں۔ اس لیے ملک افواہوں کی زد میں ہے۔ ’’قومی حکومت‘‘ جیسے فارمولے سے لے کر عدالتی مارشل لا جیسی بے شمار افواہیں ہر روز اہم میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے جس تیزی سے پھیل رہی ہیں انہیں مسترد کرنے کے لیے حکومتی قائد میاں نوازشریف خود دلگیر ہوچکے ہیں اور اپنی اہلیہ کی بیماری کے بعد لندن کے اسپتالوں کے دورے کرنے میں مصروف ہیں۔ میاں صاحب کی دل کی بیماری اپنی جگہ پر، لیکن وہ جس طرح سے شدید اعصابی دبائو کے زیراثر ہیں ان حالات میں اُن کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ردعمل فطری دکھائی دیتا ہے۔ ان کی طرف سے غیر اعلانیہ جانشین قرار دی گئی صاحب زادی مریم نواز لندن یاترا کے بعد آج کل اسلام آباد اور لاہور کے بیچ سفر کرتی رہتی ہیں، کیونکہ انہیں احتساب عدالتوں کی پیشیوں کو منہ دینا ہے۔ وہ شاید زیادہ منہ نہ دے پائیں اور ایک آدھ پیشی کے بعد لندن روانہ ہوجائیں کیونکہ اسلام آباد کے اقتداری کھیل میں ان کے لیے ’’اصل حلقوں‘‘ کے ہاں کوئی زیادہ گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ شریف خاندان نیب مقدمات میں ڈیل چاہتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ آگے سے ان کے سیاسی قد کاٹھ اور مستقبل کے متعلق آئندہ انتخابات کے لیے کوئی مفاہمت چاہتی ہے۔ دونوں کے لیے ایک دوسرے کو ہضم کرنا اور پیش کردہ فارمولوں کو ماننا مشکل کام ہے۔ کیونکہ اگر نیب کے کیس کامیابی کے ساتھ چلے تو ساری اقتداری تاریخ میں انہیں پہلی مرتبہ کوئی سزا یا ’’کنونشن‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر وہ اِس بار کوئی ڈیل کرتے ہیں تو نہ صرف آئندہ انتخابات 2018ء بلکہ آنے والے طویل عرصے تک ان کے تختِ رائے ونڈ میں قائم شریف شہنشاہیت کا خاتمہ شروع ہوجائے گا۔ وہ بیک وقت کیسوں سے بھی بچنا چاہتے ہیں اور آئندہ انتخابات میں سیاسی کامیابی بھی چاہتے ہیں، جو ممکن نہیں ہے۔ یہی بات ہے جس کی وجہ سے تعطل ہنوز برقرار ہے۔ میاں صاحب مذکورہ حالات کے بعد اب ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں اور انہیں نااہل قرار دینے اور دلانے والے کہتے ہیں کہ ’’جج صرف اپنے فیصلوں میں بولتے ہیں، پھر چاہے پاناما کے بجائے اقامہ کا فیصلہ ہی کیوں نہ ہو!‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’خاموشی کی بھی اپنی ایک زبان ہوا کرتی ہے‘‘۔ یہی وہ خاموشی ہے جو گونگے پانی کی طرح سب ہی کو ڈبو رہی ہے۔ اگرچہ میاں صاحب نااہلی کے بعد الیکشن اصلاحات کے بل کی بدولت پارلیمنٹ سے آئینی بل کی ترمیم کے بعد پارٹی قائد کے طور پر تو بحال ہوچکے ہیں، لیکن دکھائی یہ دیتا ہے کہ ان کی طرف سے واپس لی گئی پارٹی قیادت میں طاقت نہیں رہی ہے، کیونکہ جس حلقے کو وہ نشانہ بنا رہے ہیں، اُس سے دوریاں بجائے سمٹنے کے اور زیادہ بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ شریف خاندان میں ہونے والے اختلافات نے بھی انہیں پریشانی سے دوچار کررکھا ہے۔ ایک طرف میاں صاحب، اُن کے صاحبزادے اور بیٹی، بشمول اسحق ڈار اورکیپٹن(ر) صفدر ہیں تو دوسری جانب شہبازشریف، حمزہ شہباز، چودھری نثار اور ان کے ہمنوا ہیں۔ بظاہر پارٹی قیادت تو میاں صاحب کے ہاتھوں میں ہے لیکن کوئی بھی اسے مریم کے ہاتھوں میں منتقل ہونے پر خوش نہ ہوگا۔ لاہور میں ہونے والی الیکشن مہم کے دوران بھی حمزہ شہباز ازخود جلاوطن تھے اور شہبازشریف بھی ملک سے باہر مقیم رہے، جو آخری ایام میں اُس وقت واپس تشریف لائے جب الیکشن مہم ختم ہوچکی تھی۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ تختِ رائے ونڈ کی وراثت مریم کے ہاتھوں میں آنی ہے، اور اس کے لیے ہی وہ اپنے شوہر سمیت ملک میں واپس بھی آئی ہیں اور اسحق ڈار کی طرح نیب عدالتوں میں ہر روز ہیڈ لائنز بھی بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ پس منظر میں یہ انہیں بھی پتا ہے کہ محض حاضرین اور میڈیا کے ساتھ بات کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ مریم نواز نے خود تو کافی حد تک بہتر پرفارم کیا ہے، لیکن اُن کے ذہنی طور سے ڈسٹرب خاوند نے اسمبلی میں جو تقاریر کی ہیں وہ ان کے حواس باختہ ہونے کی ایسی نشانیاں ہیں جن سے لگتا ہے کہ وہ بھی کچھ زیادہ اور طویل سیاسی سفر ذہن میں لے کر واپس وطن نہیں آئے ہیں۔ کیپٹن(ر) صفدر جیسے افراد کی زبان پر ایسی بحث کا دوبارہ چھڑ جانا ایک ایسے خطرے کو ابھار رہا ہے جس کا بھلے سے بلاواسطہ اشارہ عسکری ادارے کی کسی اہم شخصیت کی طرف ہو جس کی وہ بارہا تردید بھی کرچکے ہیں لیکن ان کی سیاست مجموعی طور پر ملک میں اقلیتوں کے لیے کسی بہتر سوچ کی حامل نہیں ہے۔ نواز لیگ سے حالیہ سفر میں ہمدردی رکھنے والوں کو بھی اس بات سے ایک ایسا دھچکا لگا ہے جس کا ازالہ لفظی اظہار سے کرنا ممکن نہیں ہے۔ نواز لیگ میں شریفوں کو جتنا زیادہ اس ایک بیان اور ذہنیت نے نقصان دیا ویسا تو انہیں اُس وقت بھی نہیں ملا تھا جب جسٹس کھوسہ نے انہیں ’’گاڈ فادر‘‘ جیسے لقب سے نوازا تھا اور وہ پاناما کے بجائے اقامہ کے سبب فارغ کیے جارہے تھے۔ میاں صاحب خود تو اس بیان سے اظہارِ لاتعلقی ظاہر کرچکے ہیں لیکن اس کی وجہ سے جو نقصان اور دھچکا انہیں پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا ہے۔ کیونکہ بھارت سے تعلقات اور سندھ میں نواز لیگ کی مینارٹی ونگ کی ہولیوں اور دیوالیوں میں شرکت، کھیئل داس کوہستانی سے اقلیتوں کے تناظر میں ان کی شوخیوں تک میاں صاحب کا ایک دوسرا اور بہتر امیج تشکیل پاچکا تھا جو اب ایک ناقابلِ تلافی نقصان کی صورت میں انہیں بہرحال پہنچ چکا ہے۔ جہاں تک سیاسی معاملات کا تعلق ہے تو مسلم لیگ نواز کی سیاسی خستہ حالی کے باوصف انہیں اپوزیشن اور خاص طور پر پی پی پی اور اس کی قیادت کی طرف سے بھی خاموش تحائف سے نوازا گیا ہے۔ ایک تو جس طرح سے نئے نیب چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی تقرری ہوئی ہے تو اس بارے میں یہ بات سننے میں آئی ہے کہ ’’اصل قوتوں‘‘ کو یہ تقرری پسند نہیں آئی ہے کیونکہ پی پی پی اور نواز لیگ کی قیادت نے بذریعہ اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم جس طرح سے فہرستوں کے تبادلے کے بعد جاوید اقبال کا نام فائنل کیا ہے، کچھ حلقوں کے لیے یہ کسی مخمصہ سے کم ہرگز نہیں ہے۔ قبل ازیں ان ہی قوتوں نے تحریک انصاف کے قائد اور ساتھ ہی شاہ محمود قریشی کو بھی متحرک کردیا تھا۔ ایک ماہ قبل جب ملک میں نئے نیب چیئرمین کی تقرری کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے رہنمائوں کے مابین مشاورت کا عمل آئینی طور سے دوبارہ ہونا تھا تو وہ (حلقے) متحرک ہوگئے تھے کہ کیوں ناں قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے رہنما خورشید شاہ ہی کو تبدیل کردیا جائے۔ اس دوران ہی خود تحریک انصاف کے گھر میں بھی اختلاف رونما ہونے کی خبریں منظرعام پر آئی تھیں۔ ایک نے عمران خان کو اور دوسرے نے شاہ محمود قریشی کو حزبِ مخالف کا رہنما دیکھنا چاہا تھا۔ آگے سے بالمقابل جوڑ توڑ کے پارلیمانی مان والے سائیں (محترم سائیں) خورشید شاہ اور اقتداری سیاست کے بادشاہ آصف علی زرداری تھے، جنہوں نے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ عمران خان کی حزبِ اختلاف کا سربراہ بننے کی خواہش پوری ہونے نہیں دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی پی پی اور اس کی قیادت نے نہ صرف حزبِ مخالف کی کرسی بلکہ نیب چیئرمین کی اضافی کرسی بھی حکومتی حمایت میں ایک طرح سے ہاتھ کرکے ان کے لیے بچا رکھی ہے، جس کے بعد آج کل اسلام آباد میں اس قومی احتساب کمیشن کا تذکرہ زبان زدِ عام ہے جو نیب کی جگہ پر میثاقِ جمہوریت کے تسلسل میں آنے والے ایام میں تشکیل پانے جارہا ہے۔ باقی تبدیل شدہ نیب قوانین میں ہلکے پھلکے قانونی معاملات خاص طور پر ’’پلی بارگین‘‘ اور رضاکارانہ واپسی شامل ہیں، اور جنہیں اب شاید ختم کردیا جائے گا۔ لیکن اس قانون میں اصل تعطل اس کی پہلی سطر سے متعلق ہے جس کے بارے میں 1999ء میں نیب آرڈیننس نے ججوں اور جرنیلوں کو ان کے اداروں میں خود احتسابی کے نظام کے باعث بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔ حال ہی میں جب فرحت اللہ بابر نے اس بل کے متعلق منعقدہ اجلاس کی کمیٹی میں یہ ترمیم پیش کی تو اندر ایک طرح سے ہنگامہ سا برپا ہوگیا اورکھلبلی مچ گئی کہ یہ کس طرح سے ہوپائے گا؟ ممکن ہے اس شق میں ترمیم کرنے کے تحرک کے باعث نواز لیگ اور شریفوں کی ان دونوں حلقوں سے کوئی خاموش مفاہمت طے پاجائے۔ کیونکہ یہ بظاہر اس وقت پی پی پی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ پی پی پی اور حکومتِ سندھ اس سے کہیں بڑھ کر اس بارے میں متفکر ہیں کہ ان کی جانب سے نیب کے خاتمے کے صوبائی بل کو قومی احتساب کمیشن میں اس طور سے نبھایا جائے کہ دونوں قوانین ایک دوسرے سے ٹکرائو میں بھی نہ آئیں اور احتساب کا نظام صوبائی خودمختاری کے تناظر میں کسی بہتر توازن میں آسکے۔ یہ ایک ایسا توازن ہے جو ملک میں ہمیشہ ہی عدم توازن کا شکار رہا ہے۔ اب جب کہ سندھ کے بعد مرکز بھی نیب قانون کو بڑھانے اور بہتر کرنے جارہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کہیں شریف خاندان احتساب کے نظام میں ترتیب کے دوران اپنے لیے کوئی ایسی ڈیل نہ کرلے جو دیگر حلقوں اور افراد کو اسی طرح سے نہ بھگتنی پڑجائے جیسے سویلین ادارے اور افراد گزشتہ اٹھارہ برس سے نیب سے خوف کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ اگر حکومت اس معاملے کو سیدھا کرلے تو پھر اس صورت میں دسمبر دور نہیں۔ ملک میں ہر کسی سے کچھ نہ کچھ فراموش ہونا شروع ہوگا، کیونکہ فروری 2018ء آنے کے ساتھ ہی ایک تو ملک میں مارچ میں سینیٹ کے ارکان کی نصف تعداد ریٹائر ہوجائے گی اور دیگر سینیٹر منتخب کیے جائیں گے، جس میں نواز لیگ کو اگر دلانے والوں نے دلائیں تو سیٹیں ملیں گی، ورنہ سینیٹ میں خفیہ رائے دہی کا استعمال ہوتا ہے، اس لیے وہاں کوئی بڑی خرید و فروخت جنم لے سکتی ہے۔ اس سے بھی کہیں بڑھ کر جب ملک میں ماہ جون میں اسمبلیاں اپنی میعاد پوری کریں گی تو نگراں سیٹ اپ کے لیے حکومت اور اپوزیشن میں مشاورت ہوگی۔ اس لیے اصل دنگل لگ بھگ ماہِ اگست میں ملک میں ہوگا۔ جب تلک ملک کے اندر کمزور معیشت، الزام کی زد میں آئی ہوئی سیاست، سول اور ملٹری تعلقات کی ’’داستانیں‘‘ تشکیل دی جاتی رہیں گی۔ کیونکہ ملک میں اب نہ تو فوج ہی اقتدار میں آنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی سول ادارے فوج سے کوئی پنگا لے سکتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ تھوڑے بہت فرق سے سب چیزیں ویسی کی ویسی ہی رہیں گی، بس محض اصل حلقوں کو جنہیں شریف شہنشاہیت کا سورج غروب کرانا مقصود تھا، وہ سورج یا تو غروب ہوچکا ہوگا، یا پھر غروب ہونے کے قریب ہوگا۔‘‘