نعتیہ مجموعے کا نام : نگاہِ مصطفیؐ نعت گو شاعرہ : شاہدہ لطیف ناشر : ماورا پبلشرز، لاہور، 60، مال روڈ، لاہوررابطہ : 0300-4020955 mavrabooks@yahoo.com قیمت : 500 روپےاردو ادب میں نعت گوئی کو ایک مستند اور معروف صنف کا مقام حاصل ہے۔ نعت گوئی صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے عقیدت کا اظہار ہی نہیں بلکہ معیاری نعت لکھنا قرآن ،سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مکمل آگہی اور اس صنف کے فنی، علمی، لسانی، تہذیبی اور دینی تقاضوں کو پورا کرنے سے عبارت ہے۔اردو نعت گوئی کے مؤرخین کا کہنا ہے کہ جدید نعت گوئی کی بنیاد خواجہ الطاف حسین حالی نے رکھی۔ ’’مدوجزر اسلام‘‘ وہ پہلی جدید طویل نعتیہ نظم ہے جس نے اردو نعت گوئی کو ایک نئی جہت دی، جس میں پہلی بار امتِ مسلمہ کی فریاد ہے اور مسلمانوں کے سیاسی و سماجی مسائل اور ان کے زوال کے بارے میں مضامین اس سے پہلے نعتیہ مضامین میں شامل نہ تھے۔ مولانا حالی کی نعتیہ شاعری ایک شاعرانہ اجتہاد ہے جس نے نہ صرف نعت کی تاثیر میں اضافہ کیا بلکہ اسے حقیقت نگاری کا ایک شاہکار بنادیا۔ حالی کے اس فکری اسلوب اور اجتہادی نظریے کو بعد میں مولانا احمد رضا خاں، مولانا ظفر علی خاں، مولانا شبلی نعمانی، علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری نے اپناکر عصری شعور اور امتِ مسلمہ کے مسائل کو بھرپور طور پر پیش کیا، جبکہ قدیم روایتی نعتیہ شاعری محض اظہارِ عقیدت، مدینے کی آرزو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و حُسنِ اخلاق اور بصیرت تک محدود تھی۔جدید اردو نعت کا یہ سفر جاری ہے۔ محسن کاکوروی، بہزاد لکھنوی، راغب مراد آبادی، عبدالعزیز خالد، حنیف اسعدی، ماجد خلیل، قمر وارثی، رفیع الدین راز، منور بدایونی، ماہر القادری، اقبال عظیم، مظفر وارثی، اعجاز رحمانی اور دیگر کے نمائندہ نعت گو شاعر ہیں۔ محترمہ شاہدہ لطیف بھی اردو نعت گو شعراء کی صف میں ایک اچھا اور خوبصورت اضافہ ہیں۔ ادب و صحافت کے شعبے میں انہیں صدارتی اعزاز برائے حُسنِ کارکردگی بھی مل چکا ہے۔ اس سے پہلے محترمہ شاہدہ لطیف کئی شعری مجموعے اور نثری تصانیف پیش کرچکی ہیں۔ نسائی لب و لہجے میں جدید نعت کا اظہاریہ اردو شاعری کی ایک نئی جہت ہے اور اپنی نعتیہ روایت کے ساتھ اپنی الگ پہچان ہے۔ شاہدہ لطیف صاحبہ، نسائی نعت گوئی کے فن میں سب سے جدا اور منفرد شاعرہ ہیں جو عہدِ جدید میں دوسرے نعت گو شعرائے کرام سے مختلف اور ماورا ہیں۔ شاہدہ لطیف صاحبہ کی نعتیہ شاعری میں جدید غزل اور نظم کی ہیئت کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کا نسائی لب و لہجہ نہ صرف دلکش و دل پذیر ہے بلکہ فکر انگیز ہے۔ ان کی سہل ممتنع کی رواں بحروں میں نعتیہ کلام جدید ادبی اسلوب کا حامل ہے۔ چھوٹی بحروں اور مثنوی کے قالب میں جدید نعتیہ نظمیں رزمیہ اسلامی تاریخی واقعات، غزوات اور متبرک مقامات کے بارے میں بہت مؤثر اور معلومات افزا ہیں۔ عشقِِ رسولؐ کے جذب و کیفیت سے سرشار ہوئے بغیر خوبصورت اور فکر انگیز نعتیہ کلام تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔ شاہدہ لطیف صاحبہ کو نظموں اور نعت کی غزلیہ ہیئت میں بحروں کے انتخاب کا سلیقہ اور قدرت حاصل ہے۔ ان کی تصنیفات و تالیفات میں نثری اور شعری مجموعے شامل ہیں۔ اس سے پہلے ان کا منظوم سفرنامہ ’’بیت اللہ پر دستک‘‘ منظرعام پر آکر داد وتحسین حاصل کرچکا ہے۔ ’’نگاہِ مصطفیؐ‘‘ کی یہ اشاعتِ دوم ہے اور اشاعتِ اول سے بدرجہا بہتر گیٹ اپ کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اس کا کاغذ، کمپوزنگ، سرورق دیدہ زیب اور دلکش ہے۔ سرورق اور پس کتاب گردپوش پر بھی آرٹ پیپر پر رنگین طباعت کے ساتھ سرورق اور شاہدہ لطیف صاحبہ کی تصویر اور اشعار ہیں۔ان کے مجموعے نگاہ مصطفیؐ میں ایک حمد، ساٹھ نعتیں، چھبیس مختصر اور طویل نعتیہ نظمیں ہیں جن میں مدحتِ رسولؐ کے علاوہ دیگر مضامین بھی رقم کیے گئے ہیں۔ غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر، صلح حدیبیہ، بیعت رضوان، یہودی عورت، نصیحت ایک بڑھیا کی، جبلِ ثور، جبلِ نور (حرا)، جبلِ ابوقیس، غار حرا، گنبدِ خضراء، اعلانِ رسالت، حجر اسود، حجۃ الوداع، مسجدِ جن، کشمیر کے لیے مدد، مقام نور، دربار مصطفیؐ میں متاثر کن اور جذب کی کیفیت والی نظمیں ہیں۔ صلح حدیبیہ، بیعتِ رضوان اور غزوات والی نظموں میں واقعاتی تاریخی حقائق خوبصورت اور رواں بحروں میں پیش کیے گئے ہیں جس سے ان کی شاعرانہ گرفت اور مشق کا اندازہ ہوتا ہے۔ جبلِ نور کا عنوان ’’غارِ حرا‘‘ ہوتا تو بہتر تھا، اور صفحہ 29 پر ’’غارِ حرا‘‘ کے عنوان سے جو نظم ہے اس کا عنوان ’’نزولِ رسالت مآبؐ‘‘ ہوتا تو موضوع سے ہم آہنگی ہوجاتی۔ نظم ’’مقامِ بیعت رضوان‘‘ کے پہلے شعر میں دوسرے مصرعے کا وزن بحر کے مطابق نہیں ہے، اس لیے مصرعے میں سکتہ آرہا ہے۔ یہ مصرع ’’ہوئی تھی بیعتِ رضواں‘‘ کے بجائے ’’نذرِ عثماںؓ تھی بیعتِ رضواں‘‘ کردیا جائے تو سکتہ بھی ختم ہوجاتا ہے اور وزن بھی صحیح ہوکر مصرع رواں ہوجاتا ہے۔کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں کہ ’’عصر حاضر کی طرح شاہدہ لطیف نے جب اپنے جذبات و کیفیات کا اظہار نسائی، نرم و شیریں لب و لہجے میں کیا تو جدید نعت اظہار کی ایک ایسی نئی جہت سے آشنا ہوئی جو اردو شاعری کی نعتیہ روایت میں جداگانہ پہچان رکھتی ہے اور نسائی محسوسات سے ملی ہوئی ہے۔ شاہدہ لطیف کا رنگِ نعت عام شاعرات سے کچھ مختلف ہے، اس کی انفرادیت کا ایک تعلق ان نعتیہ زمینوں سے ہے جو شاہدہ لطیف کی نعتوں میں ندرت، شیفتگی اور والہانہ پن کی حامل ہیں۔ اس مجموعے میں شاہدہ لطیف کی نعتیہ شاعری پر ڈاکٹر ریاض مجید، افتخار عارف اور قمر وارثی کی تقاریظ شامل ہیں۔سچ پوچھیے تو شاہدہ لطیف کے عرق ریز مطالعے اور بالخصوص حیرت انگیز مشاہدے سے سجی ہوئی نعتیں ایک ایسی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں جنہیں اردو نعتیہ ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ کہا جاسکتا ہے۔ محترمہ شاہدہ لطیف کی نظموں اور نعتوں کے چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔اے خدایا ترے محبوبؐ کی خاطر ہی تو ہےنعت کہنا، میرا جینا، میرا مرنا سب کچھ٭٭٭کوئی سوال نہ ٹھہرے سماعتوں کے لیےمیں انؐ کا ذکر کروں لا جواب ہو جائوں٭٭٭آپؐ کے ذوق کے صدقے مِرا فن جاگتا ہےنعت کہتی ہوں تو معیارِ سُخن جاگتا ہے٭٭٭سفر حیات کا کچھ اس طرح سے کٹتا ہےفزوں ہے شوق مرا اور رہنما آقاؐ٭٭٭جس سمت سے چاہے مرا آغازِ سفر ہومنزل مری آقائےؐ مدینہ کا نگر ہو٭٭٭بڑھتا جاتا ہے اضطراب وہاںاور سکون بھی وہیں سے ملتا ہےہے یقیں آپؐ کی کنیز ہوں میںاور سب کچھ یقیں سے ملتا ہے٭٭٭دین و دنیا سنوارنے کے لیےذکرِ خیرُالانام آئینہ٭٭٭حجرِ اسود کو میرے آقاؐ کالمسِ دستِ شفیق حاصل ہےحجرِ اسود کا لے کے ہم بوسہایسی سرشار کیفیت میں ہیں٭٭٭کلام اک آپؐ سے رکھنا ہے اور بستکلّم کو اثر کی آرزو ہے٭٭٭جب بھی جہاں بھی ذِکر چلے مختصر نہ ہوجس شب میں انؐ کی یاد ہو اُس کی سحر نہ ہو٭٭٭نبی پاکؐ کا جب شاہدہؔ تصور ہوقسم ہے غیب سے گویا پیام اترتے ہیں٭٭٭مری آنکھوں کی دو جو پُتلیاں ہیںمدینے کے چمن کی تتلیاں ہیںمدینے کی طرف میں گامزن ہوںمِرے تلووں میں کیسی بجلیاں ہیں٭٭٭جذبات مشترک ہیں خیالات مشترکہر نعت گو سے مجھ کو بہت پیار ہو گیا٭٭٭اسمِ محمدؐمیری طاقتآپؐ کی یادیںہر دم راحت٭٭٭اللہ سے تقاضے کی جرأت نہیں مجھےچشمِ کرم پہ آپؐ کی رکھتی ہوں انحصار٭٭٭صرف آپؐ سے رجوع ہے دنیا برائے خیرآپؐ ابتدائے خیر ہیں آپؐ انتہائے خیر٭٭٭خدایا! میرے سُخن میں وہ مرحلہ آئےغزل کا شعر کہوں، ذکرِ مصطفیٰؐ آئے