معین کمالی صاحب بڑے سینئر صحافی اور اہلِ علم و اہلِ قلم ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے روزنامہ ’’امت‘‘ میں اپنے مضمون کو ’’ایتر کے گھر تیتر‘‘ کا عنوان دیا۔ اس طرح انہوں نے ایک ایسے محاورے یا ضرب المثل کا احیا کیا ہے جس سے اب بہت کم لوگ واقف ہوں گے، حالانکہ یہ بڑا جامع اور بامعنی محاورہ ہے۔ ہم اس کی دوسری صورت سے خوب واقف ہیں جو یہ ہے ’’اوچھے کا تیتر، باہر باندھوں کہ بھیتر‘‘۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری کسی اوچھی حرکت پر ہمارے والد مرحوم ہم کو یہی کہا کرتے تھے۔ بہت عرصے بعد یہ ’’ایتر کے گھر تیتر‘‘ سامنے آیا۔ لغت میں یہ دونوں ہی موجود ہیں۔ ایتر کا مطلب حضرتِ معین کمالی تو جانتے ہی ہوں گے، عام قاری کے لیے وضاحت کردیں کہ یہ اِترانے سے ہے جسے اردو میں ’’اترایا مارا‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہندی کا لفظ ہے اور اسے ایترا بھی کہتے ہیں یعنی خود نما، کم ظرف۔
ایک شعر ہے:
ایتر ہیں کتنے حضرتِ دل بھی خدا گواہ
تم نے جو ہنس کے بات کی اترائے جاتے ہیں
ایترا پن یعنی ذرا سی بات میں اپھر جانا، اترانا، شیخی مارنا۔ ایتر کے گھر تیتر اس نااہل کی نسبت کہتے ہیں جس کو اپنی لیاقت سے بڑھ کر مرتبہ حاصل ہو۔ کم ظرف کو جب کوئی چیز مل جاتی ہے تو بولا جاتا ہے اور طرح طرح اس کی نمود چاہتا ہے۔ معین کمالی نے انہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ لیکن اب تو ہماری تمام افسر شاہی اور اہلِ اقتدار کے گھر گھر میں یہ تیتر موجود ہیں۔ اس تحریر میں دو الفاظ شاید ہماری نئی نسل کے لیے نامانوس ہوں۔ ایک تو ’’اپھر جانا‘‘ دوسرے ’’بولا جانا‘‘۔ جس کو مطلب نہ معلوم ہو وہ اپنے کسی بڑے سے پوچھ لے۔
بہت دنوں کے بعد لاہور سے جناب افتخار مجاز نے خبر دی ہے کہ پیر 13 نومبر کو کیپٹل ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ ’’توہین عدالت کیس میں پیش رفت آگے نہ بڑھ سکی‘‘۔ ٹی وی چینلز کے کئی ایڈیٹرز سے یہ شکایت سننے کو ملی ہے کہ خبر بنانے والے ایسے مشکل الفاظ شامل کردیتے ہیں جن کی ادائیگی مشکل ہوتی ہے۔ ایک صاحب نے خبر میں لفظ ’’سراسیمگی‘‘ پر اعتراض کیا کہ یہ کیا ہے اور اسے کون سمجھے گا۔ اعتراض بجا ہے، علمیت جس سطح پر آگئی ہے اس سے سراسیمگی تو پھیلے گی۔ چنانچہ کیپٹل ٹی وی پر پیش کی جانے والی خبر میں جس نے بھی ’’پیش رفت‘‘ کے الفاظ شامل کیے اس نے خبر پڑھنے والے پر ظلم کیا، اور اس نے یہ ظلم سامعین پر الٹ دیا۔ اب خبر پڑھنے والے کو کیا معلوم ’پیش رفت‘ کیا ہوتی ہے اور یہ آگے بڑھتی ہے یا پیچھے ہٹتی ہے۔
ڈان چینل والے اتوار کو بھی ’’جان سنگھ‘‘ پر قائم تھے۔ 10 نومبر کو جاگ ٹی وی پر ٹیپو سلطان کے بارے میں ایک پروگرام پیش کیا گیا لیکن رپورٹ پیش کرنے والے صاحب ان کا نام ’’فاتح علی ٹیپو‘‘ بتا رہے تھے جب کہ بقول اقبال وہ برعظیم میں مسلمانوں کے ترکش کا آخری تیر تھا لیکن اس شہید کا نام ’’فاتح علی‘‘ نہیں ’’فتح علی‘‘ تھا جو اُن بزرگ کے نام پر رکھا گیا جن کی دعا سے حیدر علی کے گھر میں یہ مردِ مجاہد پیدا ہوا۔ ایسے پروگرام پیش کرنے سے پہلے تھوڑا سا مطالعہ بھی کرلینا چاہیے، یا اگر اپنے ادارے میں کوئی پڑھا لکھا ہو تو پہلے اسے سنا بھی دینا چاہیے۔
مفتی منیب الرحمن بڑے عالم فاضل ہیں اور ایک بڑے مدرسے کے مہتمم اور استاد بھی ہیں۔ 13 نومبر کو ان کا ایک مضمون جسارت میں شائع ہوا جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ہند دراصل ابوجہل کی بیوی تھی۔ ہم نے تو پڑھا تھا کہ وہ ابوسفیان کی بیوی تھیں اور بعد میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ مفتی منیب الرحمن کا مضمون ایک اور اخبار میں چھپتا ہے لیکن اس میں بھی ہند کو ابوجہل کی بیوی قرار دیا گیا ہے۔ اب اتنے بڑے عالم فاضل اور تاریخِ اسلامی پر گہری نظر رکھنے والے استاد سے سہو ہوسکتا ہے تو نوجوان صحافیوں کا کیا قصور۔
بی بی عابدہ رحمانی کے دوسرے سوال کا جواب ابھی آیا نہیں تھا کہ انہوں نے ایک اور خط ارسال کردیا۔ اس خط میں انہوں نے مطلع کیا کہ وہ آج کل اسلام آباد میں ہیں اور عنقریب واپس شمالی امریکا جارہی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’کان میں دَم کرنا زیادہ مناسب ہے کہ تمام تر شور کان ہی میں آتا ہے، ناک سے تو محض سونگھنے کا کام لیتے ہیں۔‘‘ اب ان کے دوسرے سوال کا جواب یعنی ’’ذمے واری‘‘ یا ’’ذمے داری؟‘‘
بی بی! ذمہ داری اور ذمہ واری کے بارے میں پہلے بھی انہی کالموں میں تفصیل سے لکھا جاچکا ہے۔ اُس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار کا حوالہ بھی دیا تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پہلے ذمہ وار کہا اور پھر ذمہ دار (ذمے دار) کہہ کر وضاحت کی کہ میں اپنی اردو صحیح کررہا ہوں۔ وہ لوگ جو ذمہ وار کہتے ہیں، شوق سے کہیں۔ یہ عابدہ رحمانی کے علاقے ہی تک محدود نہیں بلکہ پنجاب میں بھی عام ہے۔ کہتے ہیں ’’میں ذمہ وار آں‘‘۔ تاہم اہلِ علم یہ غلطی نہیں کرتے۔ اگر یہ ذمہ وار ہے تو دین دار ’دین وار‘ کیوں نہیں، ’ایمان وار‘ کیوں نہیں، ’دیانت وار‘ کیوں نہیں؟ وار ہندی کا کلمہ نسبت ہے جیسے امیدوار، سوگو ار، سزاوار وغیرہ۔ دار (لاحقہ فاعلی) فارسی کے مصدر داشتن سے صیغۂ امر ہے جو کسی اسم کے بعد آکر اسے اسم فاعل ترکیبی بنادیتا ہے اور رکھنے والا کے معنی دیتا ہے، مثلاً دلدار، آبدار وغیرہ۔ چنانچہ ذمہ دار کا مطلب ہوا ذمہ لینے یا رکھنے والا۔ دار کے اور بھی بہت سے معانی ہیں اور عربی میں گھر کو کہتے ہیں۔ دار پھانسی کو بھی کہتے ہیں۔ میر تقی میرؔ کہتے ہیں:
موسم آیا تو نخلِ دار پہ میرؔ
سر منصور ہی کا بار آیا
اب کراچی ہی سے عزیزم سعود صدیقی کا خط۔
’’محترم عبدالمتین منیری صاحب! اطہر ہاشمی صاحب کا ہر کالم بہ عنوان ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ بہت معلوماتی ہوتا ہے لیکن ہاشمی صاحب اکثر بال کی کھال نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا لفظ ’لیجے‘ صحیح ہے؟ یا ’لیجیے‘ یا پھر ’لیجئے‘ صحیح ہے۔ اسی طرح اس کالم میں بھی مخبوط الحواس کو صحیح لکھا ہے لیکن میں نے اکثر اردو داں حضرات کو خبط الحواس کہتے سنا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے۔ اب ہاشمی صاحب بتائیں کہ کیا صحیح ہے۔ ہاشمی صاحب سے معذرت کے ساتھ یہ عرض ہے کہ اکثر جب ان کا کوئی قاری کسی غلطی کی نشاندہی کرتا ہے یا کرتی ہے تو وہ فوراً اس کو کمپوزر پر ڈال دیتے ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ نہ صرف مجھے بلکہ اطہر ہاشمی صاحب کے ہر قاری کو ان کے کالم پڑھ کر اپنی اردو بلخصوص (بالخصوص) ہجے صحیح کرنے کا موقعہ (موقع) میسر آتا ہے اور ان کا لکھنے کا پیرایہ بھی دلچسپ ہے۔‘‘
سعود صدیقی کا یہ اعتراض تسلیم کہ ہم بال کی کھال نکالتے ہیں، اور یہ بھی بجا کہ اپنی غلطی کمپوزر کے سر منڈھ دیتے ہیں۔ لیکن انہوں نے شاید اس پر توجہ نہیں کی کہ ہم یہ وضاحت بھی کرتے ہیں کہ چونکہ پروف ریڈنگ میں ہم بھی شامل رہے ہیں اس لیے غلطی میں بھی شامل ہیں۔ اب ’لیجیے‘ اور ’لیجے‘ کی بات لے بیٹھے تو بال کی کھال نکالنے کا طعنہ سننے (یا پڑھنے) کو ملے گا۔ تاہم لیجے پر ہمزہ بالکل ہی غلط ہے۔ صحیح تو لیجیے (لی جیے) اور ’’کیجیے‘‘ ہے ۔ لغت (نوراللغات) میں لیجیے اور لیجئے دونوں موجود ہیں تاہم لکھنؤ میں بروزن فعلن متروک اور بروزن فاعلن مستعمل ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ لیجئے کے سر پر ہمزہ بٹھانے سے تلفظ مختلف ہوجاتا ہے یعنی ’لی۔ جئے‘ بروزن گئے، رہے، سہے وغیرہ۔ ہمزہ کا غلط استعمال لیے، دیے، کیے پر بھی ہورہا ہے چنانچہ لیجئے پر بھی غلط ہے۔
اب مخبوط کے بال کی کھال نکالتے ہیں۔ یہ عربی کا لفظ ہے۔ مطلب ہے خبطی، مجنوں، بدحواس۔ اور مخبوط الحواس کا مطلب ہوا دیوانہ، پاگل، سودائی، خبطی وغیرہ۔ اور یہ ہم نہیں کہہ رہے، لغت کہتی ہے۔ ہم کہاں کے چاچائے اردو ہیں! اور خبط بھی عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے جنون، دیوانگی، سودا۔ خبط اچھلنا اور خبط سوار ہونا مستعمل ہے لیکن خبط الحواس صحیح نہیں ہے۔