سائنس و ٹیکنالوجی

Pollution فضائی آکودگی
Pollution فضائی آکودگی

فضائی آلودگی ہڈیوں کی کمزوری اور قبل ازوقت موت کی وجہ

فضائی آلودگی سانس، دل اور دیگر امراض کی وجہ تو بنتی ہی ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ آلودہ علاقوں میں رہنے سے ہڈیوں کی کمزوری اور گٹھیا کا مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے اور انسان وقت سے قبل موت کی آغوش میں جاسکتا ہے۔سائنسداں اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی پیراتھائرائیڈ ہارمون پر اثر انداز ہوتی ہے جو کیلشیئم کی پیداوار کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس طرح کیلشیئم کم بنتا ہے ہڈیاں بھربھری ہوکر کمزور ہوتی رہتی ہیں۔ اس طرح مریض بار بار فریکچرکا شکار ہوتا ہے اور اسے ہسپتال داخل کرنا پڑتا ہے۔اس سے قبل یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ٹریفک کیدھویں سے بھرپور علاقوں کیلوگ فالج، امراضِ قلب، پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں ، دمے اور ڈیمنشیا جیسے مرض کے شکار ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس مطالعے سے پہلی مرتبہ یہ ثابت ہوا ہے کہ آلودگی اب ہڈیوں کی بھی دشمن ہے۔کولمبیا یونیورسٹی کی ماہر ڈاکٹر آندرے بیکرالی کہتے ہیں کہ اب ثابت ہوچکا ہے کہ ہواؤں میں گھلی ہوئی آلودگی ہڈیوں کے لیے بھی یکساں طور پر تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے اور صاف ہوا میں رہنا خود بہت سے فوائد کے ساتھ ہڈیوں کیلیے بھی مفید ہوتا ہے۔

دن میں لگنے والے زخم نسبتاً جلدی بھر جاتے ہیں

Wound
Wound

ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دن کے وقت لگنے والے زخم رات کو لگنے والے زخموں کے مقابلے میں جلدی بھر جاتے ہیں۔تحقیق کے مطابق رات کو لگنے والے زخم بھرنے میں اوسطً 28 دن لگتے ہیں جبکہ دن کے وقت لگنے والے زخم محض 17 دنوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔برطانیہ میں مولیکیولر بائیولوجی کی ایم آر سی لیبارٹری کے سائنسدانوں کے مطابق وہ جھلسے ہوئے 118 مریضوں کے مشاہدے میں سامنے آنے والے نتائج میں پائے جانے والے فرق پر حیران رہ گئے۔اس کا اثر اس طرح سمجھایا گیا ہے جس طرح جسم کی گھڑی اندر چل رہی ہو اور وہ ہر انسانی سائیکل کا 24 گھنٹے کا دورانیہ پورا کرتی ہے۔
اس ٹیم کی تحقیق ٹرانسلیشن میڈیسن میں شائع ہوئی ہے جس میں جلے ہوئے 118 مریضوں پر تحقیق کی گئی۔تحقیقاتی ٹیم کو رات اور دن کے وقت زخمی ہونے والے افراد کے زخم بھرنے میں اوسطً 11 روز کے فرق کا پتہ چلا۔تحقیق کاروں میں سے ایک ڈاکٹر کے مطابق ‘یہ سو میٹر کی طرح ہے۔ دوڑ لگانے والے بلاکس پر جھکتے ہیں، بھاگنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور ہمیشہ کھڑے ہوئے شخص کو مارنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ وہ اس علم کو سرجری کو مزید بہتر بنانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔

اب استعمال شدہ پلاسٹک سے سڑکیں بنائیں جائیگی

بھارت میں پلاسٹک کے استعمال سے ہزاروں کلومیٹر پلاسٹک کی سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔ورلڈاکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ضائع شدہ پلاسٹک کی چیزوں کو ری سائیکل کرکے سڑکوں کی تعمیر کیلیے قابل استعمال بنایا گیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی بھارت میں ہی ایجاد کی گئی ہے اور اس تکنیک کے ذریعے باریک پلاسٹک کو تارکول کی طرح گرم ٹھوس مادے میں شامل کیا جاتا ہے اور پھر اسے پتھروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں 33 ہزار 500 کلومیٹر کے لگ بھگ طویل سڑکیں پلاسٹک کے استعمال سے بنائی گئی ہیں جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ کلومیٹر سڑکیں پلاسٹک کے استعمال سے بنائی گئی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹافیوں کے ریپر سے لے کرپلاسٹک کی بوتلوں تک کے استعمال شدہ پلاسٹک کو 170 ڈگری تک گرم کرکے پگھلایا جاتا ہے اور اسے تارکول کے طور پر روڈ کی تعمیر میں استعمال کیا جاتا ہے۔پلاسٹک کے استعمال سے تیار کردہ سڑکیں پائیدار اور دیرپا ہوتی ہیں جو شدید گرم موسم اور سیلابی صورتحال میں بھی خراب نہیں ہوتیں۔ دوسری جانب سڑکوں پرتارکول کی نسبت پلاسٹک سے گڑھے پڑنے کی شرح بھی بہت کم ہے۔