ٹیکنوکریٹس حکومت، امریکی امداد کی بحالی اور شریف فیملی کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس اس ہفتے اہم ترین موضوع رہے، اور پارلیمنٹ کے اندر لابیوں میں اس پر بہت گفتگو ہوئی۔ کہا جارہا ہے کہ شریف فیملی اگرچہ دبائو میں ہے لیکن قانون کا سہارا اسے ریلیف دے سکتا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ جس پر مقتدر لابیوں میں بھی گفتگو ہوتی رہی، یہ ہے کہ جمہوری اور غیر جمہوری نظام کے لیے جو بھی فیصلہ ہونا ہے اس پر حتمی رائے لی جارہی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور حکومت کے درمیان مفاہمت کی زندگی کتنی ہوگی یہی وہ نکتہ ہے جو مستقبل کے سیاسی خاکے میں رنگ بھرے گا۔
سب سے پہلے امریکی امداد کی بحالی۔ امریکی کانگریس نے پاکستان کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت 70 کروڑ ڈالر دینے کی منظوری دے دی ہے، امریکی حکومت کے اس فیصلے کا ڈی این اے ٹیسٹ بتاتا ہے کہ فنڈز کی بحالی کا یہ فیصلہ اس بات سے مشروط ہے کہ اسلام آباد، کابل میں واشنگٹن کے مفادات کی آبیاری کے لیے زمین ہموار کرے گا۔ ہدف یہی ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو نشانہ بنایا جائے۔ کانگریس کے مطابق امریکی انتظامیہ 35 کروڑ ڈالر کی محدود رقم اُس وقت جاری کرے گی جب وزیر دفاع کانگریس کمیٹی میں تصدیق کریں گے کہ پاکستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں، حقانی نیٹ ورک اور لشکرِطیبہ کے خلاف مناسب کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور پاکستان میں موجود ان کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لیے بھی فوجی آپریشن میں مصروف ہے۔ نائن الیون کے بعد سے امریکہ پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں16ارب ڈالر ادا کرچکا ہے۔ بظاہر16ارب ڈالر ایک بڑی رقم ہے، مگر ان سولہ برسوں میں پاکستان کے جتنے بچے، خواتین، بوڑھے، سویلین شہری اور عسکری جوان شہید ہوئے ہیں ان قربانیوں کے مقابلے میں یہ رقم خاک کے وزن کے مساوی تک نہیں۔ امریکہ نے جب چاہا اسے بحال کردیا اور جب چاہا روک لیا اور کٹوتی کردی، اور ہماری آزادی و خودمختاری کا مذاق اڑایا گیا۔ حکمرانوں کی مصلحتوں اور ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو قربان کرنے کے باعث امریکہ کو یہ جرأت ہوتی رہی۔ جنرل پرویزمشرف کی بزدلی کے باعث امریکہ کی جنگ آج تک پاکستان کے سر پر سوار ہے۔ مُکّے لہرانے اور خود کو طاقت کا محور سمجھنے والا فوجی آمر امریکہ کے نائب وزیر دفاع کی ایک فون کال پر ڈھیر ہوگیا۔ 16ارب ڈالر وصولی کے مقابلے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی معیشت کو 120ارب ڈالر کا نقصان پہنچا اور لاکھوں معصوم پاکستانی اس جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں، جس کا مداوا ممکن ہی نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود امریکہ ’’ہل من مزید‘‘ کے مطالبات کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کے لیے اس کا افغانستان میں موجودہ کردار ناقابلِ برداشت ہے۔ امریکہ بھارت کی چرب بیانی سے متاثر ہوکر اسے چین کے مقابل لاکر خطے کا لیڈر بنانا چاہتا ہے۔ اسے جدید اسلحہ سے لیس کرنے کے معاہدے ہوچکے ہیں۔ امریکہ حقائق اور تاریخ کو مدنظر رکھے، بھارت کو اپنے کان اور آنکھیں نہ بنائے۔ ان تمام تر حقائق کی روشنی میں پاکستان کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کی بحالی آزمائش بھی ہے اور امتحان بھی۔
عمران خان نے چھے ماہ کی مدت کے لیے کسی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی حمایت کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن تقاضا کیا جارہا ہے کہ وہ کم از کم دو سال پر محیط کیئر ٹیکر سیٹ اپ کی حمایت کریں تو بات آگے چل سکتی ہے، لیکن عمران خان فی الحال نہیں مان رہے۔ اگر معاملہ طے ہوگیا تو پھر اگلے پلان پر کام ہوگا۔ ٹیکنوکریٹ حکومت اس پلان کا حصہ ہوگی۔ ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کرنے کے لیے ملک میں سیاسی بحران پیدا کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ آجائے گا۔ اس کے لیے پہلا ہدف وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہوں گے اور پارلیمنٹ کے اندر سے انہیں کارنر کیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر بحران پیدا کرنے کے لیے تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں متحرک ہوجائیں گی اور صورت حال اس حد تک خراب ہوجائے گی کہ صدر مملکت کو بالآخر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا آئینی مطالبہ کرنا پڑے گا۔ سیٹی بجنے پر مسلم لیگ (ن) کے سدھائے ہوئے گھوڑے بھی سرپٹ بھاگنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ پلان اصل میں سینیٹ کے انتخابات روکنے کے لیے ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری نے قبل از وقت خیبر پختون خوا اسمبلی توڑنے کی بات اسی پلان کے مطابق کی ہے تاکہ ردعمل معلوم کرلیا جائے۔ لیکن فی الحال تمام سیاسی جماعتیں اپنے وقت پر ہی انتخابات چاہتی ہیں اور پیپلزپارٹی اب نئی پیدا ہوتی ہوئی صورت حال میں مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے این آر او ٹو کی طرف جارہی ہے۔ اگر متحدہ اور پاک سرزمین پارٹی کو ایک دھاگے سے نہ باندھا جاتا تو پیپلزپارٹی کبھی مسلم لیگ (ن) کی طرف نہ دیکھتی۔ یہ بات عمران خان کے ہاتھ پر اقتدار کی لکیر تلاش کرنے والوں کو معلوم نہیں، یا انہیں ادراک ہی نہیں۔ پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے اتحاد کے بعد اختلاف اصل میں دو ہاتھوں سے سات گیندیں گھمانے کا کھیل ہے۔ اسے اس کے سوا کوئی اور نام نہیں دیاجاسکتا۔ دونوں گروپوں کے الائنس کے دروازے آج بھی کھلے ہوئے ہیں۔ 5 نومبرکے جلسے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار نے قیمت بڑھا دی ہے اسی لیے متحدہ اور پاک سرزمین پارٹی کا انجینئرڈ ملاپ 24 گھنٹے کے اندر ہی ناکام ہوگیا۔ تاہم اتفاق اور اختلاف دونوں ہی انجینئرڈ ہیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے سخت ردعمل دیا ہے۔ پیپلز پارٹی تو اس حد تک آگے آئی کہ اس ملاپ کی تحققات کے لیے عدالتی کمیشن کا مطالبہ کردیا۔ قمر زمان کائرہ نے یہ مطالبہ اپنی قیادت کے مشورے کے بغیر نہیں کیا۔ اس مطالبے کا اصل پیغام یہ ہے کہ سیاست کے اندر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بند ہوجانی چاہیے۔ پیپلزپارٹی اب قومی حکومت اور ٹیکنوکریٹ حکومت کی بھی مخالفت کرے گی کیونکہ اسے یقین ہوگیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی طرح اسے بھی کٹ ٹو سائز کیا جارہا ہے۔ اس معاملے پر پارٹی میں انتہائی سنجیدہ بحث ہوئی ہے۔ تبدیل ہوتی ہوئی اس صورت حال میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی باقاعدہ مل کر ایسی کوششوں کے خلاف کوئی محاذ بنا لیں تاکہ پیپلز پارٹی مردم شماری کے ایشو پر مسلم لیگ(ن) سے اپنی بات منوا سکے۔ اس کا خیال ہے کہ مردم شماری میں 60 لاکھ لوگوں کو شمار نہیں کیاگیا۔ پیپلزپارٹی کی طرح مسلم لیگ(ن) نے بھی ردعمل دیا کہ سیاسی جماعتیں بنانے اور توڑنے کا مشغلہ ترک کرنا ہوگا، قومی سیاست کا فیصلہ ایوانوں میں نہیں بلکہ گلیوں بازاروں میں ہوگا، اداروں کی انائیں ٹکرانے سے جمہوریت تباہ ہوگی، اتفاق کیا کہ مائنس نوازشریف فارمولا کسی صورت قبول نہیں ہوگا، نوازشریف سمیت تمام رہنما اپنے حلقوں میں جلسے کریں گے، جن میں اداروں کے آئینی حدود سے تجاوز پر آواز اٹھائی جائے گی۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارٹی قیادت کی کردار کشی کی مہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے، جبکہ پارٹی الیکشن میں تاخیر اور دھاندلی کے خلاف بھرپور مزاحمت کرے گی۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ الیکشن سیل قائم کرکے انتخابات کی تیاری کی جائے گی۔ مزاحمت یا مفاہمت کی سیاست کے حوالے سے اجلاس کے شرکا میں اختلافِ رائے پایا گیا۔ شاہد خاقان عباسی، شہبازشریف اور احسن اقبال نے مفاہمت کی سیاست پر زور دیا۔ شہبازشریف کا کہنا تھا کہ محاذ آرائی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، صرف نقصان ہوگا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت کرنے والے بینچ سے الگ ہوگئے ہیں، ان کی معذرت کے بعد اب چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دیں گے۔ شریف خاندان کے وکلا کی جانب سے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی شمولیت کو چیلنج کرنے کی تیاری مکمل تھی۔ پنجاب ہائوس میں وکلا کی ٹیم کا ایک اجلاس ہوا جس میں قانونی نکات کے لیے مشاورت ہوئی تھی۔ وکلا میں مشاورت کے بعد طے پایا کہ جسٹس کھوسہ پاناما کیس میں نوازشریف اور اُن کے خاندان کے خلاف فیصلہ دے چکے ہیں اس لیے انہیں حدیبیہ پیپر ملز کیس سے ہٹادیا جائے۔ حدیبیہ پیپر ملز کیس ری اوپن ہونے پر نوازشریف نے شہبازشریف سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اس کیس کے حوالے سے جو بینچ بنایا گیا اُس پر اعتراض کیا جائے گا۔ نوازشریف نے اپنی قانونی ٹیم کو درخواست تیار کرنے کے احکامات دے دیئے تھے۔ جسٹس کھوسہ نے حدیبیہ کیس سے متعلق 14 پیراگراف لکھے ہیں، اسحاق ڈار کے سلسلے میں یہ فیصلہ بھی دے چکے ہیں کہ اسحاق ڈار پہلے ملزم تھے پھر وعدہ معاف گواہ بن گئے، اسی لیے اسحاق ڈار کے خلاف نیب کو کارروائی کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ عدالتِ عالیہ کے دو ججوں کے درمیان اس کیس پر فیصلہ ٹائی ہوا تھا اور تیسرے ریفری جج نے کیس ختم کرنے کا کہا تھا، جبکہ سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹتے ہی رائے ونڈ میں نوازشریف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ پہنچ گئے جہاں تازہ ترین صورت حال پر نئے لائحہ عمل کے لیے مشاورت ہوئی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے شریف برادران کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس خارج کردیا تھا، جس کے بعد پاناما پیپر کیس کے دوران سپریم کورٹ کے فل بینچ کی آبزرویشن پر نیب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ کے اُس پانچ رکنی بینچ کی سربراہی کی تھی جس نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا تھا۔ پاناما فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست پر اسی پانچ رکنی بینچ کے فیصلے پر سابق وزیراعظم نے چند روز پہلے کہا تھا کہ جج بغض سے بھرے بیٹھے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس ریفرنس کو تین سال پہلے ختم کرنے کا حکم دیا تھا اور اُس وقت لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نیب کے حکام نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی تھی۔ حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے میں نوازشریف کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی شامل ہیں۔ حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا بیان بھی قابلِ ذکر ہے جس میں انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ شریف برادران کے لیے منی لانڈرنگ میں ملوث تھے۔ سابق وزیراعظم کے خلاف پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت کے دوران اُس وقت کے نیب کے چیئرمین قمر زمان چودھری نے حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے اور اس مقدمے کو دوبارہ کھولنے سے انکار کردیا تھا۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ان کی نظر میں نیب وفات پا گیا ہے۔ تاہم انہی درخواستوں کی سماعت کے آخری روز نیب کے حکام نے حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے کے بارے میں عندیہ دیا تھا۔ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس دائر کرنے کی منظوری مارچ 2000ء میں نیب کے اُس وقت کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد نے دی تھی۔ اُس وقت بھی ابتدائی ریفرنس میں نوازشریف کا نام شامل نہیں تھا تاہم جب نیب کے اگلے سربراہ خالد مقبول نے حتمی ریفرنس کی منظوری دی تو ملزمان میں نوازشریف کے علاوہ ان کی والدہ شمیم اختر، دو بھائیوں شہباز اور عباس شریف، بیٹے حسین نواز، بیٹی مریم نواز، بھتیجے حمزہ شہباز اور عباس شریف کی اہلیہ صبیحہ عباس کے نام شامل تھے۔ یہ ریفرنس ملک کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000ء کو لیے گئے اُس بیان کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا جس میں انھوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔ اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہوگئے تھے اور اُن کا مؤقف تھا کہ یہ بیان انھوں نے دباؤ میں آکر دیا تھا۔ اکتوبر 1999ء میں فوجی بغاوت کے بعد اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویزمشرف نے وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کے خلاف کرپشن کے 3 ریفرنس دائر کیے تھے جن میں سے ایک حدیبیہ پیپر ملز کیس بھی تھا۔ 2014ء میں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں حدیبیہ پیپر ملزکیس میں نیب کی تحقیقات کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد احتساب عدالت نے اس ریفرنس کو خارج کردیا تھا۔