سائنس و ٹیکنالوجی

اسموگ کیا ہوتی ہے اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

پنجاب سمیت پاکستان کے مختلف اضلاع میں صبح کے وقت شدید دھند اور اسموگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ موسمی تبدیلیوں اور سردی کی آمد کے ساتھ ہی اسموگ نے مختلف شہروں پر قبضہ جما لیا ہے، جب کہ دھند کے باعث شہری مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں اور گرمی کے بعد سردی کی آمد کے ساتھ ہی ملک میں اسموگ اور دھند کا راج بڑھ جاتا ہے۔ ہر سال اسموگ کی وجہ سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں سانس لینے میں دشواری، گلے میں تکلیف اورآنکھوں کے امراض جیسے آنکھوں کا سوجنا، جلنا اورآنکھوں سے پانی نکلنا وغیرہ شامل ہیں۔
اسموگ دراصل آلودگی کی ایک قسم ہے جو دھند اور دھوئیں کی آمیزش سے بنتی ہے۔ لفظ اسموگ بیسویں صدی کی ابتدا میں لندن میں استعمال کیا گیا تھا۔ یہ دو لفظوں اسموک اور فوگ کا مرکب ہے۔ اسموگ ہوا میں موجود نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ،کاربن مونوآکسائیڈ، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں، مٹی اور آگ کے دھوئیں کے مرکب سے بنتی ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اسموگ کے باعث انسانوں میں دمہ، ٹی بی اور جِلدی امراض جنم لینے لگتے ہیں۔ اگر بارش نہ ہو تو فضا میں اسموگ بڑھ جاتی ہے اور ہوا نہ چلنے کی صورت میں زمین سے کم فاصلے پر ایک گہری تہہ کی شکل اختیار کرلیتی ہے، جب کہ اسموگ کی وجہ سے اوزون کی تہ میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوجاتا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ انسانوں کو شدید نقصان پہنچانے والی اسموگ سے محفوظ رہنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر لازم ہیں۔ سب سے پہلے تو اسموگ اور دھوئیں میں فرق کرنا لازمی ہے۔ کچھ لوگ اسموگ کو معمولی دھواں سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں، لیکن ان کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اسموگ اور دھواں دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ اگر فضا میں اسموگ موجود ہے تو کوشش کریں کہ کم سے کم باہر نکلیں، اور وہ افراد جو سائیکلنگ یا جوگنگ کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی ان سرگرمیوں کو کچھ دنوں کے لیے مؤخر کردیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو شام کے وقت باہر نکلیں جب فضا میں اوزون کی تہ گہری نہیں ہوتی۔ اسموگ صرف آلودگی اور گاڑیوں کے دھوئیں کی وجہ سے نہیں بنتی بلکہ ہریالی اور درختوں کی کمی کی وجہ سے بھی اسموگ وجود میں آتی ہے، لہٰذا اپنے علاقے میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی کوشش کریں۔ درخت اسموگ کو بننے سے روکتے ہیں۔

افغان حکومت نے واٹس ایپ پر پابندی عائد کردی

افغانستان کی حکومت نے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ملک میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ واٹس ایپ اور ٹیلی گرام پر عارضی پابندی عائد کردی۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغان ٹیلی کام اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹرکا کہنا ہے کہ طالبان اور شدت پسند گروپ اکثر حکومتی تنصیبات اور شخصیات کو نشانہ بنانے کے لیے واٹس ایپ اور ٹیلی گرام کے ذریعے پیغام رسانی کرتے ہیں، اس لیے سیکورٹی خدشات کی وجہ سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ واٹس ایپ اور ٹیلی گرام سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا ہے۔
وزارتِ مواصلات کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی خفیہ ایجنسی نے 20 روز کے لیے واٹس ایپ اور ٹیلی گرام پر پابندی لگانے کی تجویز دی تھی جس پر حکومت نے عملدرآمد کرتے ہوئے عارضی طور پر پیغام رسانی کی مذکورہ سروسز کو معطل کردیا ہے، تاہم انہوں نے پابندی کی مدت کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ یہ پابندی کتنے عرصے کے لیے برقرار رہے گی۔

خوفو کاہرم: ’جس کا اعلان کیا گیا ہے وہ دریافت نہیں ہے‘

مصر کی آثارِ قدیمہ کی وزارت نے کہا ہے کہ ماہرین کو خوفو کے ہرم میں ایک بہت بڑا خلا دریافت ہونے کے بارے میں اعلان کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ گزشتہ ہفتے سامنے لائی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ خوفو کے ہرم میں ایک بہت بڑا خلا موجود ہے۔فی الحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس خلا کا مقصد کیا ہے اور آیا اس کے اندر کوئی چیز بھی موجود ہے یا نہیں۔ کیوں کہ اس تک رسائی کا راستہ نہیں ہے۔ جاپانی اور فرانسیسی سائنس دانوں نے اہرام پر دو سال تحقیق کرکے اس خلا کا سراغ لگایا۔ مصر کی وزارتِ آثار قدیمہ کے سیکریٹری جنرل مصطفی وزیری کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اہرام کی اسکیننگ کے 2015ء میں شروع کیے جانے والے منصوبے سے منسلک سائنس دانوں نے وزارت کے ماہرینِ آثار قدیمہ سے مشاورت کیے بغیر ہی اچانک غلطی سے نام نہاد نئی دریافت کا اعلان کردیا۔وزارتِ آثار قدیمہ کا ماننا ہے کہ محققین کو موجودہ مرحلے میں عوام کے سامنے اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا اور نہ ہی اس منصوبے کے تشہیری قواعد و ضوابط کو استعمال کرنا چاہیے تھا جیسا کہ یہ کہنا کہ ’دریافت اور ایک کمرے یا خلا کو تلاش کرنا‘۔ مصر کے سابق وزیر آثار قدیمہ ظاہر حواص نے نئی دریافت پر اتفاق نہ کرتے ہوئے امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ سوال یہ ہے کہ یہ ’دریافت نہیں ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر سمجھتے ہیں کہ ہرم کو کس طرح تعمیر کیا جاتا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہرم کے اندر متعدد خالی جگہیں ہیں۔ خلا کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کمرہ ہے اور خلا کا مطلب دریافت نہیں، اور جس کا اعلان کیا گیا ہے وہ دریافت نہیں ہے۔ اس سے پہلے جاپانی اور فرانسیسی سائنس دانوں کے مطابق اہرام پر تحقیق کے دوران میوگرافی کی تکنیک استعمال کی گئی جس کی مدد سے چٹانوں کی اندرونی ساخت کا پتا چلایا جاتا ہے۔
’خوفو کا ہرم‘ جسے ہرم الکبیر بھی کہا جاتا ہے، فرعون خوفو کے دور میں 2509 تا 2483 قبلِ مسیح تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی بلندی 460 فٹ ہے اور یہ دنیا کا بلند ترین ہرم ہے۔ خوفو کے ہرم میں تین چیمبر اور کئی راستے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا چیمبر گرینڈ گیلری کہلاتا ہے اور یہ 154 فٹ چوڑا اور 26 فٹ اونچا ہے۔ خوفو کا حرم نودریافت شدہ خلا گرینڈ گیلری کے عین اوپر واقع ہے اور اس کا رقبہ اسی جتنا ہے۔ پیرس میں واقع ایچ آئی پی انسٹی ٹیوٹ کے مہدی تیوبی نے کہا: ’ہمیں معلوم نہیں کہ یہ خلا افقی ہے یا ترچھا بنا ہوا ہے، یا آیا یہ ایک ہی کمرہ ہے یا کمروں کا سلسلہ ہے۔ لیکن جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہرم کے اندر اتنا بڑا خلا موجود ہے۔ یہ بہت متاثر کن ہے، اور اب تک (اہرام کی تعمیر کے سلسلے میں) پیش کیے جانے والے کسی نظریے کے اندر اس کی توقع نہیں تھی۔‘اہرام کو اسکین کرنے والا ادارہ اسکین پِرامڈ اس قدر محتاط ہے کہ اس خلا کو چیمبر کہنے سے گریز کررہا ہے۔ خوفو میں کئی کمپارٹمنٹ بنے ہوئے ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ ان کا مقصد تعمیر پر پڑنے والے بوجھ میں کمی لانا تھا۔ تاہم سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ ہینی ہلال کا خیال ہے کہ یہ خلا اتنا بڑا ہے کہ اس کا صرف بوجھ کم کرنے کے لیے استعمال قرینِ قیاس نہیں ہے۔ ’ہم اہرام کی اندرونی ساخت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماہرینِ مصر اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے پاس چند نظریات موجود ہیں۔ ہم انھیں ڈیٹا فراہم کررہے ہیں۔ وہ ہمیں بتائیں گے کہ اس خلا کا مقصد کیا ہے۔‘