سعودی عرب اور ’’ماڈریٹ اسلام کی ایجاد‘‘

مسلمان کہتے ہیں کہ مغرب انہیں جدید سائنس اور جدید ٹیکنالوجی منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ مغرب کی جامعات میں اب مسلم طلبہ و طالبات کو جوہری طبعیات کے شعبوں میں داخلہ نہیں دیا جارہا۔ مسلمانوں کی یہ شکایت درست نہیں۔ مغرب مسلم ممالک کو اپنی ایک دو نہیں کئی ’’جدید مصنوعات‘‘ برآمد کررہا ہے۔ مثلاً سیکولرازم، لبرل ازم، روایتی اسلام، صوفی اسلام، سیاسی اسلام، ماڈریٹ اسلام۔ مغربی دنیا سعودی عرب کو عالمِ اسلام کا سب سے ’’قدامت پسند‘‘ ملک باور کراتی ہے، لیکن امریکہ اور یورپ کے اثر کا یہ عالم ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد اور مستقبل کے ’’بادشاہ‘‘ محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں ’’ماڈریٹ اسلام‘‘ ایجاد کرنا شروع کردیا ہے۔ ولی عہد نے 24 اکتوبر 2017ء کو ریاض میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کئی اہم باتیں کہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ سعودی عرب بہت جلد اپنی شمال مغربی ساحلی پٹی پر ایک عظیم الشان شہر تعمیر کرے گا۔ اس شہر کی تعمیر پر ’’صرف‘‘500 ارب ڈالر صرف کیے جائیں گے۔ اس شہر کے ’’قوانین‘‘ اور ’’ضابطے‘‘ سعودی عرب کے دوسرے علاقوں کے قوانین اور ضابطوں سے ’’مختلف‘‘ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے 70 فیصد نوجوانوں کی عمر32 سال سے کم ہے، اور ہم اپنے آئندہ 30 برسوں کو ’’تخریبی خیالات‘‘ پر صرف ہوتے نہیں دیکھنا چاہیں گے، بلکہ ہم انہیں آج اور ہمیشہ کے لیے تباہ کردیں گے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے مزید کہا کہ ہم اپنے اُسی تشخص کی طرف لوٹ رہے ہیں جو کبھی ہماری پہچان تھا، یعنی ایک میانہ رو یا ’’ماڈریٹ اسلام‘‘ جو دنیا کے کسی مذہب یا کسی روایت کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کرتا۔
مسلم دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ مسلم دنیا میں اسلامی فکر کی تخریب کا عمل کسی نہ کسی طرح مغرب سے متعلق رہا ہے۔ امام غزالیؒ کے عہد میں یونانی فلسفہ اتنا قوی ہوگیا تھاکہ اس نے وحی کی بالادستی کے تصور کو چیلنج کردیا تھا اور ابن رُشد اور ابن سینا جیسے لوگوں کی فکر میں عقل کو فیصلہ کن مرکزیت حاصل ہوگئی تھی، اور یہ عقل کہہ رہی تھی کہ وحی کا جو حصہ عقل کے مطابق ہے وہ قابلِ قبول ہے اور جو حصہ عقل کے مطابق نہیں اس سے ہمیں سروکار نہیں رکھنا چاہیے۔ امام غزالیؒ کو یونانی فکر کے پیدا کردہ مسائل کے مضمرات کا اندازہ تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر یونانی فلسفے کو چیلنج کرکے مسترد نہ کیا گیا تو یہ فلسفہ مذہب کو ہڑپ کرجائے گا۔ چنانچہ غزالیؒ نے یونانی فلسفے کو دو بنیادوں پر مسترد کردیا۔ انہوں نے ایک جانب مذہب کے عقائد و تصورات کی بنیاد پر یونانی فکر کو مسترد کیا، اور دوسری جانب انہوں نے فلسفے کے داخلی تضادات کو ظاہر کرکے فلسفے کی کشش اور اس کی قوت کو زائل کیا۔ نتیجہ یہ کہ مسلم دنیا میں فلسفے کی روایت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئی اور اسے شیعت کے سوا کسی نے گھاس نہیں ڈالی۔ یہاں زیرِ بحث موضوع کے حوالے سے کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ غزالی کو فلسفے میں مذہب کے لیے جو خطرات نظر آرہے تھے وہ یورپ کی تاریخ میں پوری طرح آشکار ہوئے۔ یورپ میں مارٹن لوتھر نے عقل کی بنیاد پر اصلاحِ مذہب کی تحریک برپا کی۔ ابتدا میں یہ تحریک بہت ’’معصومانہ‘‘ اور ’’مذہب مرکز‘‘ نظر آرہی تھی، مگر بالآخر اصلاحِِ مذہب کی یہ تحریک یورپ میں مذہب کے استرداد پر منتج ہوئی۔ غزالی نے یونانی فکر کا زور نہ توڑا ہوتا تو مسلم دنیا میں بھی عقل پرستی وہی نتائج پیدا کرتی جو اس نے یورپ میں کیے تھے۔
سرسید نے 19 ویں صدی کے وسط میں اسلامی فکر، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ پر جو رکیک حملے کیے اُن کا مرکز بھی مغرب تھا۔ انگریز چونکہ اتفاق سے پروٹسٹنٹ یعنی مارٹن لوتھر کے پیروکار تھے، اس لیے سرسید بھی لوتھر کی طرح عقل پرست بن کر ابھرے۔ جس طرح لوتھر نے معجزات کا انکار کیا اسی طرح سرسید نے بھی معجزات کا انکار کیا۔ جس طرح لوتھر نے وحی کے بجائے صرف عقل کے ذریعے مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی اسی طرح سرسید نے بھی صرف عقل کو اپنا رہنما بنایا۔ جس طرح لوتھر نے مذہب کی قدیم تعبیر کو ماننے سے انکار کیا اسی طرح سرسید نے مسلمانوں کے پورے تفسیری علم پر خطِ تنسیخ پھیر دیا اور صاف کہا کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین قرآن کو سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ انگریز پیدائشی طور پر کانے نہیں تھے۔ اگر انگریز پیدائشی طور پر کانے ہوتے تو سرسید برصغیر کے مسلمانوں کو مشورہ دیتے کہ اپنی ایک آنکھ پھوڑ ڈالو کیونکہ ’’فضلیت‘‘ تو کانا بن کر ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ بعض لوگ سرسید کو ایک ’’شخص‘‘ سمجھتے ہیں۔ سرسید ایک شخص نہیں ایک ذہنی سانچہ تھے، ایک مغلوب ذہنی سانچہ۔ ایک تناظر تھے، ایک مغلوب تناظر۔ خوش قسمتی سے یہ ذہنی سانچہ اور یہ تناظر اپنی کلیت میں مقبول نہ ہوا۔ ہوتا تو یہ سانچہ اور یہ تناظر ہماری ہر چیز کو کھاچکا ہوتا۔ پھر نہ کوئی اکبر الٰہ آبادی ہوتے، نہ کوئی اقبال۔ پھر نہ مولانا مودودی کا وجود ہوتا، نہ قائداعظم کا۔ ظاہر ہے کہ پھر کوئی پاکستان بھی نہ ہوتا۔ جس طرح انگریزوں کا پروٹسنٹ ازم ایک ’’ماڈریٹ عیسائیت‘‘ تھا، اسی طرح سرسید کا اسلام بھی اعلان کیے بغیر ایک ’’ماڈریٹ اسلام‘‘ تھا۔ ماڈریٹ اسلام کو ہم کوئی نام دینا چاہیں تو وہ کسی آفت زدہ کی طرح ایک ’’مغرب زدہ اسلام‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ مسلم دنیا میں مغرب زدہ اسلام کی مثالوں کی کوئی کمی نہیں۔ کمال اتاترک کا اسلام مغرب زدہ تھا۔ محمد عبدہ کا اسلام مغرب زدہ اسلام ہے۔ مصر، الجزائر اور تیونس میں جو لوگ گزشتہ پچاس سال میں برسراقتدار رہے ہیں اُن کا اسلام مغرب زدہ اسلام تھا۔ پاکستان میں مغرب زدہ اسلام کے پہلے علَم بردار جنرل ایوب خان تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن کے توسط سے سود کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی، عائلی قوانین متعارف کرائے، انہوں نے اسلام کے کئی احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی۔ مغرب کے نام نہاد ماڈریٹ یا مغرب زدہ اسلام کی حالیہ مثال جنرل(ر) پرویزمشرف ہیں۔ موصوف نائن الیون سے قبل “Normal”تھے، مگر نائن الیون کے بعد انہوں نے اچانک ’’روشن خیال میانہ روی‘‘ یاEnlightened moderation عرف ’’ماڈریٹ اسلام‘‘ ایجاد کرلیا۔ وہ نائن الیون سے قبل مغربی دنیا سے کہا کرتے تھے کہ وہ جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرے۔ مگر نائن الیون کے بعد انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ جہاد جہالت اور غربت کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہ تو امریکہ کی مہربانی ہے کہ اُس نے جنرل (ر) پرویزمشرف پر ایک حد سے زیادہ دبائو نہ ڈالا، ورنہ امریکہ اگر اُن سے کہتا کہ تم توحید کے تصور کو ترک کرکے مغرب کے عقیدۂ ’’تثلیث‘‘ کو مانو تو جنرل صاحب ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کہتے کہ توحید اور تثلیث میں زیادہ فرق نہیں ہے، اس لیے کہ توحید میں بھی خدا کا تصور موجود ہے اور تثلیث میں بھی خدا کا تصور موجود ہے، بلکہ معاذ اللہ تثلیث میں خدا کا تصور تھوڑی سی ’’ترقی‘‘ کرگیا ہے۔
جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو وہ اسلام کا روحانی مرکز ہے، اسلام کا تہذیبی مرکز ہے، اسلام کا علمی مرکز ہے۔ اس لیے کہ سعودی عرب اسلام کی جائے پیدائش ہے۔ سعودی عرب میں مکۂ معظمہ اور مدینۂ منورہ ہے۔ چنانچہ سعودی عرب میں اسلام ’’وہابی‘‘ تو ہوسکتا ہے لیکن ’’ماڈریٹ اسلام‘‘ نہیں ہوسکتا، بلکہ سعودی عرب کی فضائوں میں ماڈریٹ اسلام کی اصطلاح کی گونج بھی نامحمود ہے، اور مغرب زدہ اسلام کا تصور لے کر کوئی شخص خانۂ کعبہ یا روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے حاضری دے سکتا ہے؟ لیکن یہ تو اس مسئلے کا محض ایک پہلو ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں ’’ماڈریٹ اسلام‘‘ ایجاد تو کرلیا ہے مگر وہ ماڈریٹ اسلام کو عمل میں ڈھالنے کے لیے 500 ارب ڈالر کی خطیر رقم سے ایک نیا شہر آباد کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ماڈریٹ اسلام اچھی چیز ہے تو محمد بن سلمان اس کے نفاذ کی ابتدا مکہ اور مدینہ سے کیوں نہیں کررہے؟ چونکہ سعودی ولی عہد کے نزدیک ماڈریٹ اسلام ہی اصل اسلام ہے اس لیے یہ اسلام جیسے ہی مکہ اور مدینہ میں ظاہر ہوگا لوگ فوراً اس کو پہچان لیں گے اور اسے سینے سے لگالیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ولی عہد کو ماڈریٹ اسلام ایجاد کرنے پر ’’داد‘‘ بھی دیں گے۔ مگر سعودی ولی عہد کی ’’حکمت عملی‘‘ بتا رہی ہے کہ ماڈریٹ اسلام، اسلام کی تخریب ہے اس لیے پہلے اس کے لیے ایک الگ تھلگ شہر آباد کیا جائے گا۔ اس شہر کو ماڈریٹ اسلام کی ’’تجربہ گاہ‘‘ یا لیبارٹری میں ڈھالا جائے گا، اور اگر تجربے کے ’’اچھے نتائج‘‘ برآمد ہوئے تو ماڈریٹ اسلام سعودی عرب کے ’’تمام شہروں‘‘ میں نافذ کیا جائے گا۔
ظاہر ہے کہ ماڈریٹ اسلام 32 سالہ سعودی ولی عہد کی ایجاد ہے تو اس کے حوالے سے انہیں سعودی عرب کے بڑے بڑے مدبرین، بڑے بڑے دانش وروں اور بڑے بڑے علماء کی حمایت حاصل ہوگی۔ ظاہر ہے کہ جس منصوبے کی پشت پر سیکڑوں بڑے لوگ کھڑے ہوں وہ یقینا زبردست ہوگا۔ چنانچہ سعودی ولی عہد اس ’’زبردست منصوبے‘‘ پر عام بحث کیوں نہیں کرا لیتے؟ وہ سعودی عرب کے اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر صاحب الرائے اور صائب الرائے لوگوں کو بلائیں اور دیکھیں کہ ’’ماڈریٹ اسلام‘‘ کے حامی اور مخالفین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ماڈریٹ اسلام کی روحانی، علمی، تہذیبی اور اخلاقی بنیادیں مستحکم ہوں گی تو مذاکروں اور مباحثوں میں ماڈریٹ اسلام کے حامی ہی غالب رہیں گے۔ سعودی عرب کے عوام جب یہ دیکھیں گے تو وہ خود ماڈریٹ اسلام زندہ باد کا نعرہ لگاکر اسے دلوں میں بسائیں گے اور پھر سعودی ولی عہد کو ماڈریٹ اسلام کے لیے 500 ارب ڈالر یعنی 52,500,000,000,000پاکستانی روپے کی ’’حقیر‘‘ رقم خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لیکن سعودی ولی عہد ماڈریٹ اسلام پر دانش ورانہ یا عوامی مباحثہ کرانے کے بجائے اپنے ناقدوں کو گرفتار کرا رہے ہیں، اور اب تک درجنوں افراد جیل میں ڈالے جاچکے ہیں۔ اتفاق سے یہ اطلاع بھی ماڈریٹ اسلام ایجاد کرنے والے مغرب کے ذرائع ابلاغ نے مہیا کی ہے۔
سعودی ولی عہد کا اصرار ہے کہ وہ ماڈریٹ اسلام کے راستے سے اپنی اصل کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اس سلسلے میں ماڈریٹ اسلام کی اصطلاح استعمال کرنے کی ضرورت ہے نہ ماڈریٹ اسلام پر عمل کے لیے ایک الگ شہر آباد کرنے کی حاجت ہے۔ اس سلسلے میں سعودی ولی عہد کی یہ ذمے داری بھی ہے کہ وہ سعودی عوام بلکہ پوری امتِ مسلمہ کو بتائیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک سے آج تک کب کب ہمارے کسی مستند عالم یا مستند صوفی نے ماڈریٹ اسلام کی اصطلاح استعمال کی ہے؟
اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ سعودی ولی عہد کو اسلام تو ماڈریٹ یا جدید یا مغرب زدہ درکار ہے مگر اقتدار کا ڈھانچہ انہیں تین ہزار سال پہلے والا مطلوب ہے، یعنی بادشاہت پر مبنی۔ بدقسمتی سے بادشاہت نہ اسلامی چیز ہے نہ مغربی شے ہے۔ چنانچہ سعودی ولی عہد کو اگر ماڈریٹ اسلام درکار ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ سعودی عرب کے بادشاہ بنتے ہی بادشاہت کے خاتمے کا اعلان کریں اور سعودی عرب کو جمہوریت کے دائرے میں لے آئیں۔ اس طرح سعودی عرب کے حکمرانوں اور عوام کا مذہب بھی جدید اور ماڈریٹ ہوجائے گا اور سیاسی نظام بھی جدید اور ماڈریٹ کہلائے گا۔ جمہوری نظام میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ چنانچہ سعودی ولی عہد کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب کو مشرف بہ جمہوریت کرتے ہی مشرف بہ آزادیٔ اظہار بھی فرمادیں۔ بلکہ یہ کام تو وہ اِس وقت بھی کرسکتے ہیں۔ آخر جب سعودی عرب کے اسلام کو ماڈریٹ ہونا ہے تو سیاسی نظام اور ابلاغی بندوبست کیوں ’’پسماندہ‘‘ اور ’’انتہا پسندانہ‘‘ رہے؟ اسے بھی کیوں ناں ’’ماڈریٹ‘‘ بنایا جائے؟ اسلام اللہ کا دین ہے اور مسلم حکمران اس میں کسی تبدیلی کا حق نہیں رکھتے، مگر اس کے باوجود پاکستان، مصر اور تیونس کے جرنیل ہوں یا سعودی عرب کے ولی عہد… سبھی اسلام کو بدل کر اسے ’’ماڈریٹ‘‘ بنانے پر تلے ہوئے ہیں مگر اقتدار کا ڈھانچہ جو انسانوں کا بنایا ہوا ہے اسے مسلم دنیا کا کوئی جرنیل، کوئی سیاست دان اور کوئی بادشاہ حقیقی معنوں میں ’’جدید‘‘ یا ’’ماڈریٹ‘‘ نہیں بنانا چاہتا۔
سعودی عرب کے ولی عہد نے اپنے خطاب میں ایک اور بات بھی کہی۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم ’’معمول کی زندگی‘‘ یا Normal Life بسر کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق اس سے ولی عہد کی مراد ایسی زندگی ہے جس میں موسیقی ہو، فلم ہو، فیشن کرتی ہوئی خواتین ہوں، کھیل کود ہوں، ایک مغربی ذریعے کے مطابق ایسے سرکس ہوں جن میں خواتین بھی کام کرتی ہوں۔ ہمیں یقین ہے “Normal Life”کا یہ تصور مزید ترقی کرے گا، یعنی زندگی جب مزید “Normal” ہوگی تو اس میں رقص گاہیں، جوا خانے اور طوائفیں وغیرہ بھی شامل ہوجائیں گی۔ یہاں ہمیں اقبال کا ایک بے مثال شعر یاد آگیا۔ اقبال نے کہا ہے:
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علم نباتات
اقبال کہہ رہے ہیں کہ مغربی اقوام نے اپنے غلاموں کے لیے جن فنون کو ’’اچھا‘‘ سمجھا ہے اُن میں سے ایک موسیقی ہے، ایک مصوری ہے، اور ایک علم نباتات یعنی Botany۔ محکوم کی ’’نارمل زندگی‘‘ یہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سعودی ولی عہد کی ’’نارمل زندگی‘‘ سے یہی مراد ہوگی، اور اس ’’نارمل زندگی‘‘ میں نہ ایسا خدا ہوگا جو کسی بھی جھوٹے خدا کو برداشت نہیں کرتا۔ نہ ایسی کتاب ہوگی جو خود کو ’’اُم الکتاب‘‘ کہتی ہو۔ نہ اس نارمل زندگی میں تقویٰ ہوگا، نہ علم ہوگا، نہ وہ تصورِ زندگی ہوگا جو زندگی میں انقلاب برپا کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور زندگی کو کچھ سے کچھ بنادیتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سعودی ولی عہد کی نارمل زندگی دراصل محکوموں کی زندگی ہے، مُردوں کی زندگی ہے، محتاجوں کی زندگی ہے، معذوروں کی زندگی ہے۔ اسلام کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سعودی ولی عہد کی “Normal Life” اپنی اصل میں “Abnormal Life” ہے۔
بدقسمتی سے مسلم دنیا کے دانش ور، سیاسی و مذہبی رہنما اور علماء یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مغرب اسلام اور امتِ مسلمہ کے خلاف جو جنگ برپا کیے ہوئے ہیں اُس میں اسلام اور اسلامی تہذیب پر مغرب کا دبائو بے انتہا بڑھ چکا ہے۔ اس دبائو کے کئی مظاہر سامنے آئے عرصہ ہوچکا۔ مثلاً بنگلہ دیش کے آئین کا اسلامی تشخص ختم کیا جاچکا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی عائد ہوچکی۔ تیونس کی اسلامی تحریک النہضہ نے دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا کرکے ان کی علیحدگی تسلیم کرلی ہے۔ طیب اردوان ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اسلام اور سیکولرازم میں کوئی تضاد نہیں۔ گلبدین حکمت یار افغانستان میں امریکی بندوبست کا حصہ بننا قبول کرچکے۔ مغرب اور خود مسلم معاشروں میں توہینِ رسالت کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان تک میں کوئی ریاستی ادارہ انہیں روکنے اور ذمے داروں کو سزا دینے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان ہی نہیں پوری مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ میں ایسے مواد کا سیلاب آچکا ہے جو ہماری اقدار کو تاراج کرنے والا ہے۔ جنرل (ر) پرویزمشرف ماڈریٹ اسلام ایجاد کرکے جاچکے، اور میاں نوازشریف کو موقع ملا تو وہ ’’سیکولر اسلام‘‘ لازماً ایجاد کریں گے، ٹھیک اُسی طرح جس طرح بھٹو صاحب نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کیا تھا۔ خدانخواستہ عمران خان اقتدار میں آئے تو اُن کے اندر سے بھی سیکولر اسلام یا ماڈریٹ اسلام کی طرح کی بلا نمودار ہوگی۔ خیر سے اسلام کے مرکز سعودی عرب میں بھی ولی عہد اور مستقبل کے بادشاہ ماڈریٹ اسلام ایجاد کررہے ہیں اور بظاہر اُن کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اصول ہے ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ہوتا ہے۔ بلاشبہ اسلام ہم سب کو عزیز ہے، مگر ’’آرام‘‘ کے ساتھ۔
مذکورہ بالا کالم جمعہ 3نومبر 2017ء کو رات 10 بجے تحریر کیا گیا تھا، خیال تھا کہ اس کالم میں سعودی عرب کے حال، بالخصوص مستقبل کے حوالے سے جو اندیشہ مضمر ہے اس کو سطح پر آنے میں کچھ وقت لگے گا، لیکن 6 نومبر 2017ء کے اخبارات کی شہ سرخیوں سے معلوم ہوا کہ مسلم دنیا کے حکمران امکانات کو حقیقت بنانے میں خواہ کتنے ہی ’’کنجوس‘‘ کیوں نا ہوں، اندیشوں کو حقیقت بنانے میں بڑے ’’فراخ دل‘‘ ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے 6 نومبر کے اخبارات کو جو شہ سرخیاں ’’عطا‘‘ کی ہیں ان کے مطابق سعودی عرب میں کھرب پتی ولید بن طلال سمیت 11 شہزادوں، 4 موجودہ اور 38 سابق وزراء کو کرپشن کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں گرفتار کرنے کی سفارش جس اعلیٰ سطحی کمیٹی نے کی وہ گرفتاریوں سے چار پانچ گھنٹے پہلے وجود میں آئی، اور کمیٹی کے سربراہ خود ولی عہد محمد بن سلمان ہیں۔ اس موقع پر جاری ہونے والے شاہی فرمان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی معاونت پر سزائے موت دی جائے گی، جبکہ ولی عہد کی شان میں گستاخی پر 10 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گرفتاریوں کے ساتھ ہی سعودی علماء کے ایک بورڈ نے نہ صرف یہ کہ گرفتاریوں کی تائید کی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ کرپشن دہشت گردی کی سطح کا جرم ہے۔ سعودی عرب سے آنے والی ان خبروں کے دو پہلو ہیں، ایک یہ کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے شاہی خاندان میں اپنی سیاسی پوزیشن بہت مضبوط کرلی ہے اور ان کے ’’شاہ‘‘ بننے کی راہ میں حائل تمامممکنہ رکاوٹیں دور کرلی گئی ہیں۔ ان خبروں کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب میں ’’ماڈریٹ اسلام‘‘ کی ’’ایجاد‘‘ اور فروغ کی رفتار ہمارے چند روز پہلے کے اندازے سے کہیں زیادہ تیز ہے۔ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب میں نہ صرف یہ کہ ’’علمائے حق‘‘ کوگرفتار کیا جارہا ہے اور ’’درباری علماء‘‘ کو ابھارا جارہا ہے بلکہ 6 نومبر 2017ء کے ڈان کراچی میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ’’انتہا پسندانہ‘‘ متن یعنی ایکسٹریمسٹ ٹیکسٹ کی روک تھام کے لیے اسلامی سینٹر قائم کیا گیا ہے جو بتائے گا کہ کون سی حدیث مستند ہے اور کون سی حدیث مستند نہیں ہے۔ ڈان ہی کی اطلاع کے مطابق سعودی عرب کے ممتاز صحافی جمال خشوگی کو سرکاری سعودی اخبار ’’الحیات‘‘ میں اس لیے لکھنے سے روک دیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے کچھ ٹوئٹس میں اخوان المسلمون کا دفاع کرنے کا ’’جرم‘‘ کر ڈالا ہے۔ سعودی عرب میں دہشت گردی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں، تاہم اس کے باوجود شاہی فرمان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی معاونت کی سزا موت ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ’’جہادی اسلام‘‘ ہی نہیں ’’سیاسی اسلام‘‘ کی حمایت بھی بھیانک جرم ہوگی۔
سعودی عرب میں اہم شخصیات کی گرفتاریوں پر ٹرمپ کا خیرمقدم
سعودی عرب میں کئی شہزادوں اور اہم شخصیات کی گرفتاریوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاض حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ان گرفتاریوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہیں شاہ سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان پر مکمل اعتماد ہے۔ ٹرمپ کا اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہنا تھاکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ جنہیں سخت برتاؤ کا سامنا ہے، برسوں سے اپنے ملک کو نچوڑ رہے تھے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد ان اقدامات کے ذریعے ملکی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط تر بناتے جا رہے ہیں۔