اہل علم کی ایک بڑی تعداد ہے جو اس دنیا سے جاچکی ہے ان کے علمی آثار بھی موجود ہیں لیکن ان کو بھلا دیا گیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں یاد کریں اور یاد رکھیں معاً تصور میں پروفیسر عبدالرشید فاضل ؒ کی تصویر نمایاں ہوگئی او ران کی صحبت کے علمی فوائد بھی نمایاں ہوگئے۔ خیال ہوا ان کو اور کوئی یاد نہیں کرتا لیکن مجھے ان کو ضرور یاد کرنا چاہیے۔
مولانا عبدالرب کے گھر درس قرآن ہوتا تھا درس مولانا جعفر شاہ پھلواروی دیتے تھے درس کے بعد حاضرین کے سوالات کے جوابات بھی دیتے پندرہ بیس لوگ شریک ہوتے۔ مولانا عمر احمد عثمانی‘ طاہر مکی‘ مولانا ظہیر الدین‘ سلیمان صاحب وغیرہ بھی شریک مجلس ہوتے۔ درس کے بعد چائے اور بسکٹ حاضرین کو پیش کیے جاتے درس کے بعد موٹر بھر کر پانچ چھے حضرات پروفیسر عبدالرشید فاضل صاحب کے ہاں پیر الٰہی بخش کالونی جاتے اور وہاں درس کلام اقبال میں شامل ہوتے۔ پروفیسر صاحب کلام اقبال کے عاشق، فارسی و اردو کے فاضل، بڑی عمدگی سے کلام اقبال کی تفہیم و تشریح فرماتے میں بھی ان حضرات کے ساتھ پانچ چھے بار اس درس میں شریک ہوا۔
ایران عراق جنگ کے دوران میں جنرل ضیاء الحق نے ایران کے ساتھ نرمی برتی یہاں سے ان کی ضرورت کی چیزیں وہاں جاتیں اور وہاں سے بہت سی چیزیں پاکستان آتیں ہمارے مطلب کی جو چیز تھی وہ تھیں کتابیں ۔عربی‘ فارسی‘ انگریزی کتب کا ایک سیلاب آگیا جو بہت سستی بھی ہوتیں۔ عربی زبان کی مشہور لغت ’’لسان العرب ‘‘جو اٹھارہ بیس جلدوں پر مشتمل تھی سفید کاغذ پر آفسٹ پر چھپی ہوئی پانچ پانچ سو روپے میں ہم نے خریدی ،اسی طرح تفسیر کبیر ایران کی نہایت خوبصورت طبع شدہ سات سو روپے میں خریدی آمدم بر سر مطلب ایک نیا اسٹاک ایران سے وایا کوئٹہ کراچی پہنچا۔ بنوری ٹائون میں پٹھانوں کی دکانوں پر کتابوں کے ڈھیر لگے تھے بہت سے لوگ اپنے اپنے مطلب کی کتابیں چھانٹ رہے تھے ہم بھی ان میں شامل ہوگئے۔ ایک پتلی سی کتاب غالباً مولانا روم پر لیتھو میں چھپی نظر آئی میرے دل میں خیال آیا کہ یہ پروفیسر عبدالرشید فاضل کے کام کی ہوگی یہ کتاب نستعلیق میں تھی جب کہ تمام جدید فارسی کتب نسخ ٹائپ میں طبع ہوتی ہیں۔ کسی خوش ذوق ناشر نے قدیم چھاپے کی فلم لے کر اس کو شائع کردیا وہ میں نے خرید لی۔ دکان پر آکر پروفیسر عبدالرشید فاضل صاحب کو فون کیا اور کتاب کا بتایا۔ انہوں نے اللہ اکبر کا پرجوش نعرہ لگایا اور فرمایا اس کتاب کو میں تیس سال سے تلاش کررہا ہوں۔ الحمد للہ آج بالآخر مل ہی گئی۔ فرمایا مجھے کب ملے گی میں نے کہا حضرت بس میں اسے لے کر روانہ ہورہا ہوں۔ پروفیسرصاحب کا گھر جس گلی میں تھا وہ اندر تھی میں سڑک سے اندر جاکر ان کی گلی میں مڑنا پڑتا تھا‘ پروفیسر صاحب اپنے گھر سے نکل کر مین سڑک پر کھڑے تھے جب میں پہنچا تو بڑے اشتیاق سے وہ کتاب لی اور مجھے لے کر بیٹھک م یں آئے اور مجھے کہا کہ چائے پی کر جائیں اور خود کتاب کے مطالعے میں غرق ہوگئے کچھ دیر انتظار کے بعد میں اٹھا اور اپنی موٹر سائیکل گھسیٹ کر مین سڑک پر آیا اور وہاں اسٹاک کی۔ دو تین گھنٹے بعد پروفیسر صاحب نے ٹیلی فون پر میرا شکریہ ادا کیا آپ کی مدد سے یہ کتاب حاصل ہوئی میں عرض کیا حضرت آپ کے سچے جذبے کو اللہ نے پورا کیا خواہش ہوئی کہ ان کے حالات زندگی مل جائیں تو وہ بھی اس مضمون میں شامل کردوں۔ اچانک سید محمد قاسم صاحب کی کتاب خاک میں پنہاں صورتیں (کراچی کے مرحوم اہل قلم پر پہلی کتاب) ہاتھ میں آگئی اس کو کھولا تو سامنے پروفیسر عبدالرشید فاضل کا تذکرہ تھا خوشی ہوئی۔ میں اس کو یہاں درج کرتا ہوں۔
پروفیسر محمد عبدالرشید کا قلمی نام فاضل تھا۔ آپ کے والد نثار حسین نثار شاعر اور علوم ظاہری و باطنی سے بہرہ ور تھے۔ فاضل صاحب ریاست قرولی راجستھان بھارت میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عربی اور فارسی کی تعلیم مولوی سید طالب حسین مرحوم سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم حکیم سید محمد عبدالرزاق اور اپنے والد سے حاصل کی۔1927 ء تا 1929 ء میں ریاست کی طر ف سے وظیفہ پر لاہور میں زیر تعلیم رہے اور انٹر اور گریجویشن کیا۔ اس زمانے میں فاضل صاحب کو دو مرتبہ علامہ اقبال سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اور ایک مرتبہ علامہ اقبال کا انگریزی لیکچر (One of the Seven lecture)انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں سننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
1930 ء سے 1949 ء تک بسلسلہ ملازمت جے پور میں رہے۔ وہاں مختلف ادبی اور علمی اجتماعات میں مقالے اور نظمیں پڑھیں۔ جے پور میں تقریباً تمام ہی علمی اور ادبی انجمنوں اور سوسائٹیز سے آپ کا تعلق رہا۔ مئی 1949 ء میں جے پور سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی کو مستقل مسکن بنایا۔
جولائی 1949ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان نے کراچی میں ایک ڈگری کالج بنام ’’اردو کالج‘‘ جواب ’’اردو یونی ورسٹی‘‘ ہے قائم کیا تو فاضل صاحب ان چھ سات اساتذہ میں شامل تھے جن کا تقرر قیام کالج کے وقت ہوا تھا۔ ابتداً اردو اور فارسی دونوں مضامین کی تدریس آپ کے ذمہ تھی۔ مگر 1950 ء میں جب کالج کا سندھ یونیورسٹی سے باقاعدہ الحاق ہوگیا تو آپ کو شعبۂ فارسی سے متعلق کردیا گیا۔ آپ لیکچرار کے عہدے سے ترقی کرتے ہوئے پروفیسر بنے اور بیس سال تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد اکتوبر 1970 ء میں پروفیسر کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے۔ آپ کی سابقہ خدمات کے پیش نظر اس وقت کالج کے ایڈمسٹریٹر جمیل الدین عالی نے آپ کو اعزازی پروفیسر کی حیثیت سے دوبارہ اسی خدمت پر مامور کردیا۔ چنانچہ دو سال تک آپ نے مزید یہ خدمات انجام دیں تاآنکہ اکتوبر 1972 ء میں اپنی خدمات سے سبکدوش ہوگئے۔
فاضل صاحب نے علوم مشرقی میں منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیے۔ اور ایم اے فارسی اور ایم اے اردو کے امتحانات آگرہ یونیورسٹی سے پاس کیے۔ عربی صرف و نحو اور ادب کی تعلیم قابل اساتذہ سے حاصل کی۔ دینی علوم کا حصول از خود وسیع مطالعہ سے کیا۔
فاضل صاحب کو تصنیف وتالیف کا شروع سے شوق تھا۔ اقبال اور غالب آپ کے مطالعہ اور تحقیق کا خصوصی موضوع تھے۔ اقبال پر آپ کا پہلا مضمون ’’اقبال ایک مصلح قوم کی حیثیت میں‘‘ 1932 ء کو ’’نیرنگِ خیال‘‘ اقبال نمبر میں شائع ہوا۔ فاضل صاحب کا شعری کلام جملہ شعری اصناف پر پھیلا ہوا ہے‘ غزل‘ قصیدہ ‘ رباعیات‘ قطعات‘ نظم‘ مرثیہ انہوں نے کس صنفِ میں شعر نہیں کہے۔ ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کی فہرست یہ ہے۔
’’شرح دیوان غالب‘‘ (کچھ حصے پر تقریباً سو صفحات)’’ترجمہ : مہر نیم روز‘‘ (غالب کی مایہ ناز کتاب) ’’علامہ اقبال‘‘،’’ترجمان خودی کا منظوم ترجمہ‘‘،’’اقبال اور عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، ’’علامہ اقبال اور تصوف‘‘،’’شرح بالِ جبریل‘‘،’’ترجمہ گلستان‘‘ (اور اس پر متعدد مضامین)’’شرح لوائح‘‘ (مولانا جامی کی کتاب کی شرح اور س پر ایک وقیع مقدمہ)’’مطالعۂ مثنوی‘‘ (مثنوی مولانا روم پر)’’فانی میری نظر میں‘‘ (فانی بدایونی پر تحقیق)’’حکیم نباتات‘‘ (یہ بھی کسی کتاب کا ترجمہ ہے)’’مضامین فاضل‘‘ (فاضل صاحب کے شائع شدہ علمی و ادبی مضامین کا مجموعہ)
’’نقوشِ جاویداں‘‘ فاضل صاحب کے اردو اور فارسی کلاموں کا مجموعہ ہے جس میں ان کی کہی ہوئی حمد اور نعتیں شامل کی گئی ہیں۔ ادارہ تنویراتِ علم و ادب نے یہ مجموعہ 1973 ء میں شائع کیا اس کتاب پر پیش لفظ علامہ محمد حسین عرشی امرتسری نے لکھا۔ جبکہ ایک مبسوط مقدمہ ڈاکٹر غلام مصطفی خان مرحوم صدر شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی نے تحریر فرمایا‘‘۔
میری درخواست پرعلامہ محمد اقبالؒ کی دو فارسی رباعیوں کی تشریح پر ایک صفحہ پروفیسر صاحب نے لکھ کر دیا جناب خالد جاوید یوسفی تلمیذ جناب حافظ محمد یوسف السدیدی نے علامہ اقبال کی فارسی رباعی کی خطاطی خوبصورت لاہوری نستعلیق میں مجھے لکھ کر دی اس مرتبہ فرائیڈے اسپیشل کا سرور ق اسی خطاطی سے مزین ہے اور پروفیسر عبدالرشید فاضل کی اردو تشریح بھی شامل اشاعت ہے۔
اللہ پاک پروفیسر عبدالرشید فاضلؒ صاحب: کو مقامات علیین سے نوازے۔ آمین