شفق ہاشمی
اُٹھ کہ اس نظمِ جہاں کو تہ و بالا کر دیں
ظلم ظلمت ہے تو پھر حق کا اجالا کر دیں
کتنا ارزاں ہے یہاں آج بھی انساں کا لہو
شان پھر عظمتِ آدم کی دوبالا کر دیں
وہی آویزشِ سرمایہ و محنت ہے جو تھی
خونِ مزدور کو رشکِ گلِ لالہ کر دیں
طفلِ دہقاں کو ملے کِشتِ زمیں کی میراث
خوگرِ جور کے حرماں کا زالہ کر دیں
فقر کے در پہ جھکا دیں سرِ نخوت کا غرور
خاک زادوں کو اٹھا کوہِ ہمالہ کر دیں
جہل سے بڑھ کے بھی دنیا میں ہے نکبت کوئی
شہپرِ علم سے ہر پست کو بالا کر دیں
اپنے خالق سے نظر آتی ہے مخلوق جدا
شعلۂ عشق سے سینوں میں اجالا کر دیں
اپنے مرکز سے الگ خوار و زبوں فردِ بشر
پھول بکھرے ہیں، پرو کر انہیں مالا کر دیں
کیسے کیسے ہیں صنم دل میں جگہ دی ہے جنہیں
پاک ہر بت سے نہ کیوں دل کا شوالہ کر دیں
ہے علاجِ غمِ دوراں یہ پیامِ اقبال
’’دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دیں‘‘