چار دہائیوں سے اقتدار میں موجود مسلم لیگ (ن) آج کل سخت مشکل اور پریشانی میں ہے۔ اس وقت یہ جماعت اقتدار میں بھی ہے اور اپوزیشن میں بھی۔ خود اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس کی حقیقی پوزیشن کیا ہے… ایوانِ اقتدار یا حزبِ مخالف۔ وفاق اور چار صوبائی درجے کی اکائیوں میں اس کی حکومت بھی ہے اور یہ جماعت اور اس کے سربراہ مخالفانہ جلسے جلوس بھی کررہے ہیں اور شکوے شکایات بھی… دبائو بڑھانے کی سرتوڑ کوششیں بھی کررہے ہیں اور مفاہمت اور ایڈجسٹمنٹ کی درونِ خانہ کاوشیں بھی جاری ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کی تاریخ کا شاید یہ پہلا واقعہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی وفاق اور چار اکائیوں میں حکومت موجود ہے، پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں اس کی اکثریت ہے اور اس کے سربراہ احتجاجی سیاست کررہے ہیں، یہ بتائے بغیر کہ وہ یہ احتجاج کس کے خلاف کررہے ہیں؟ انہیں اپنی نااہلی کی شکایت ہے جو کسی اور نے نہیں، ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کی ہے۔ انہیں کرپشن، منی لانڈرنگ، ذرائع آمدن سے زیادہ آمدنی اور اپنی سرکاری حیثیت کو خاندانی کاروبار کے لیے استعمال کرنے کے مقدمات کا سامنا ہے، مگر رونا جمہوریت کا رویا جارہا ہے۔ اس وقت انتہائی عبرتناک صورت حال ہے کہ کسی کو خاطر میں نہ لانے والی یہ جماعت اور اس کے لیڈر دوسروں سے مدد کی اپیل کررہے ہیں اور ماضی کے اُن واقعات کی مذمت کررہے ہیں جن میں سے بہت سوں کے ذمے دار وہ خود ہیں۔ ان کے وقوع پذیر ہونے پر وہ خوشی کے شادیانے بجا چکے ہیں۔ اب تک نااہلی کے بعد ایک آئینی ترمیم کراکے دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب ہونے والے نوازشریف جمہوریت کی بقا، پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوری سسٹم کو بچانے کے لیے سیاسی رہنمائوں اور جماعتوں کو غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں، اور اب پارٹی کے سینئر رہنما اور نوازشریف بچائو مہم اور مزاحمتی سیاست کے اہم لیڈر خواجہ سعد رفیق نے سیاسی جماعتوں سے مدد کی اپیل کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کڑے وقت میں سیاسی جماعتوں کو ہماری مدد کرنی چاہیے۔ اگرچہ اُن کے اپنے جذباتی اور مزاحمتی رویّے میں بہت زیادہ لچک اور مفاہمت آگئی ہے حالانکہ وہ 28 جولائی کو بڑے جذباتی تھے اور نوازشریف کو لے کر جی ٹی روڈ پر نکلے تھے، آج وہ خود بھی کسی ادارے کے ساتھ ٹکرائو کی مخالفت کررہے ہیں، اداروں کے درمیان تصادم کو ملک کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں، مگر سیاسی جماعتوں سے مدد کی اپیل کررہے ہیں۔ یہ اپیل اُن سیاسی جماعتوں سے کی جارہی ہے، جنہیں نوازشریف، ان کی پارٹی اور ان کی سیاست نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سعد رفیق اپنے ماضی پر نظر ڈالیں اور نوازشریف اپنے ماضی کے اقدامات کا جائزہ لیں تو انہیں خود اندازہ ہوجائے گا کہ اُن کا یہ مطالبہ کسی طرح بھی اُن کے ماضی کے اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ نہ صرف ماضی میں خود سیاسی جماعتوں اور مخالف رہنمائوں کو تنگ کرتے رہے، ان کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے، بلکہ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے موقع پر انہوں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا۔ انہیں یاد ہونا چاہیے کہ جب پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری پر سوئس بینک اکائونٹس کے سلسلے میں شدید دبائو تھا تو وہ کالا کوٹ پہن کر عدالت میں پہنچے ہوئے تھے تاکہ پیپلزپارٹی کو کوئی ریلیف نہ مل سکے۔ جب عدالت نے پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت میں سزا سنائی تو انہوں نے بے پناہ مسرت کا اظہار کیا تھا۔ جب اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے ایک انٹرویو کے بعض مندرجات کو میڈیا نے کسی کی شہ پر متنازع بنایا اور آئی ایس پی آر نے نہ صرف امیر جماعت کے خلاف بیان داغا بلکہ جماعت اسلامی کے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے امیر کے خلاف آواز اٹھائیں، لیکن جماعت اسلامی نے اس معاملے میں ہر طرح کے خطرات اور خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اس معاملے کی مزاحمت کرتے ہوئے حکومت اور فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے اندر آئی ایس پی آر کی مداخلت پر کارروائی کرے تو نوازشریف جماعت اسلامی اور سید منورحسن کا ساتھ دینے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاکھڑے ہوئے اور اگلے ہی روز جی ایچ کیو میں شہداء کی یادگار پر فاتحہ خوانی کرنے اور پھول چڑھانے کے لیے پہنچ گئے، اور وہاں جاکر انہوں نے صرف سید منورحسن اور جماعت اسلامی کی مخالفت میں لمبی چوڑی تقریر کرڈالی۔ نوازشریف اپنی وطن واپسی کے بعد سے مسلسل مسلم لیگ (ق) کو ختم کرنے کے لیے سرگرم رہے، چنانچہ انہوں نے ترغیب و تحریص کے ذریعے قاف لیگ کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو توڑ کر اپنی پارٹی میں شامل کیا مگر چودھری برادران کے ساتھ ان کا کینہ برقرار رہا، حالانکہ چودھری برادران نے شریف فیملی کی جلاوطنی کے دوران ہمیشہ مدد کی تھی، لیکن جواب میں نوازشریف چودھری شجاعت حسین کی والدہ کے انتقال پر جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جب تیار ہوئے تو اتنی بے دلی سے شریک ہوئے کہ جنازہ لیٹ ہوگیا۔ حالانکہ یہی نوازشریف عاصمہ جہانگیر کی والدہ کے جنازے میں سب سے پہلے پہنچنے والے لوگوں میں شامل تھے۔ سندھ میں جب ایم کیو ایم کے خلاف رینجرز کا آپریشن شروع ہوا، نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا، ایم کیو ایم کے کئی کارکن اس دوران مارے بھی گئے، ایم کیو ایم احتجاج کرتی رہی مگر نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کیا گیا، اُن پر مقدمات بنائے گئے، پیپلزپارٹی احتجاج کرتی رہی کہ مقدمات بوگس ہیں، مگر نوازشریف نے پیپلزپارٹی کا ذرہ برابر بھی ساتھ نہیں دیا۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس کے ملزم ممتاز قادری کے مقدمے کی تیز رفتار سماعت اور دورانِ سماعت وکلائے صفائی کے بہت سے اہم اعتراضات کا نوازشریف اینڈ کمپنی نے کبھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اور جب اس مقدمے میں سزائے موت کا حکم سنادیا گیا تو ممتاز قادری کی سزا پر عملدرآمد میں نہایت عجلت سے کام لیا گیا۔ اس ملک کی تمام دینی جماعتیں، مذہبی حلقے اور بہت سی سیاسی جماعتیں اس عجلت کے خلاف تھیں، ان کا کہنا تھا کہ جب ملک میں سزائے موت کے سیکڑوں سزا یافتہ قیدی جیلوں میں بند ہیں تو محض عام مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے اور امریکہ کو خوش کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مگر ان کے احتجاج اور اپیلوں کے باوجود ممتاز قادری کو رات کے اندھیرے میں اچانک پھانسی دے دی گئی۔ اور نواز حکومت نے اس خبر کو چینلز اور اخبارات میں نمایاں ہونے سے روکا۔ اس مقصد کے لیے پیمرا نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کیے جس کا اعتراف خود چیئرمین پیمرا ابصار عالم کرچکے ہیں۔ نوازشریف حکومت نے صبح سویرے ممتاز قادری کو خاموشی سے دفنا دینے کی بھی کوشش کی مگر علماء، دینی حلقوں اور سوشل میڈیا نے یہ کوشش ناکام بنادی۔ جس روز ممتاز قادری کی تدفین ہونا تھی اور ملک بھر سے لاکھوں افراد اس کے جنازے میں شرکت کے لیے راولپنڈی اسلام آباد پہنچ رہے تھے، وزیراعظم نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ایک مغرب زدہ فلم میکر شرمین عبید چنائے کی پذیرائی کے لیے وزیراعظم ہائوس میں تقریب کررہے تھے۔ نوازشریف کے اس اقدام سے دینی جماعتوں کے دل چھلنی ہوئے مگر نوازشریف، ان کی جماعت اور حکومت نے ان کی ایک نہ سنی، اور وہی کیا جو امریکہ اور اسلام دشمن چاہتے تھے۔ اب وہ کس منہ سے ان جماعتوں سے مدد کی اپیلیں کررہے ہیں! نوازشریف، اُن کی حکومت اور جماعت پاکستان عوامی تحریک کے دفاتر پر پولیس اور اپنے غنڈوں کے ذریعے حملہ کرکے 14 افراد کو شہید کرچکی ہے۔ یہ معاملہ ابھی تک زیر التوا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقاری براہِ راست نوازشریف اور شہبازشریف کو اس قتلِ عام کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ ان کے دھرنے کے دوران مسلم لیگ (ن) کے سیاسی بغل بچے اور ان کے حاشیہ بردار اخبار نویس جس انداز میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی تضحیک کرتے رہے ہیں کیا اب اُن سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے انہیں شرم نہیں آئے گی! ایم کیو ایم کا الزام ہے کہ ان کی جماعت کے تین ٹکڑے کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا بڑا ہاتھ ہے۔ کیا اب وہ نوازشریف کو بچانے کے لیے ان کی کوئی مدد کریں گے!
جمعیت العلمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق پر نوازشریف کے پچھلے دور میں سرکاری سرپرستی میں بدکرداری کا الزام لگا۔ نوازشریف ایک طرف بیٹھے مزے لیتے رہے۔ کیا نوازشریف اب اُن سے مدد مانگ سکیں گے، اورکیا مولانا سمیع الحق اس ماضی کو بھلا کر اُن کی مدد کرنے کو تیار ہوجائیں گے؟ تحریک انصاف کو تو نوازشریف سے بے پناہ شکایات ہیں۔ ان کے وزیراعلیٰ پر اسلام آباد آتے ہوئے پولیس کے ذریعے لاٹھی چارج اور فائرنگ کی گئی۔ اس پارٹی کے افراد توڑنے کی مسلم لیگ (ن) نے کئی کوششیں کیں۔ عائشہ گلالئی کا معاملہ بھی تحریک انصاف کے مطابق مسلم لیگ (ن) ہی نے اٹھایا ہوا ہے۔ کیا وہ اب نوازشریف کی مدد کو آئیں گے؟
یہ وہ حالات ہیں جن میں نوازشریف اور ان کی پارٹی تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے ذمہ دار ہیں، یا اس معاملے میں وہ سیاسی جماعتوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے طرفدار اور حامی رہے ہیں۔ ایسے میں ان سیاسی جماعتوں سے مدد کی اپیل انہیں زیب نہیں دیتی۔ اور اگر وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنی ماضی کی تمام غلطیوں اور سازشوں پر قوم اور سیاسی جماعتوں سے معافی مانگیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ان کی معافی قبول کرلیں تو پھر شاید انہیں کوئی اخلاقی یا سیاسی سپورٹ مل جائے، ورنہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر ہیں جس طرح ماضی میں بہت سی جماعتیں اور رہنما اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر تھے۔