ڈاکٹر اﷲ نذر کے اہل خانہ کی گرفتاری کی دھماکہ خیز خبر

بلوچستان میں نواب بگٹی کے قتل کے بعد کئی مسلح تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں۔ ان میں ڈاکٹر اللہ نذر کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے۔وہ بولان میڈیکل کالج کا طالب علم تھا زمانہ طالب علمی میں گرفتار رہ چکا ہے اور وہ مولانا عبدالحق بلوچ امیر جماعت اسلامی بلوچستان کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ مولانا عبدالحق بلوچ ایک بار تربت پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر اللہ نذر جیل میں گرفتار ہے تو مولانا عبدالحق بلوچ گھر جانے کے بجائے سیدھا ڈاکٹر اللہ نذر سے ملنے چلے گئے جب وہ اللہ نذر سے ملے تو اس نے عقیدت سے مولانا کے ہاتھ چوم لیے اور کہا کہ آپ میرے مرشد ہیں مرحوم مولانا عبدالحق بلوچ کے لیے قوم پرستوں میں بڑی عقیدت اور احترام پایا جاتا تھا ان کی برسی کے موقع پر ایک تقریب میں میری تقریر تھی تو ان کے حوالہ سے کہا کہ مولانا عبدالحق بلوچ جماعت اسلامی میں قوم پرستوں کے نمائندہ تھے اور قوم پرستوں میں جماعت اسلامی کے نمائندہ تھے۔ وہ ان دونوں قوتوں اور رجحانات کے نمائندہ شخصیت تھی ان کی پہلی برسی کی تقریب بی ایس او نے کی اور جماعت اسلامی نے بعد میں کی اور عبدالحق بلوچ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ مثل جمال الدین افغانی تھے۔ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں ان کو اپنا نمائندہ تسلیم کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد سے یہ سلسلہ ٹوٹ گیا جماعت کو بڑا انتظار کرنا پڑے گا کہ ان کی صف میں کوئی عبدالحق بلوچ پیدا ہو۔ بات اللہ نذر سے چلی تھی تو اس حوالہ سے مولانا عبدالحق بلوچ کا ذکر ضروری تھا ایک دور تھا تاریخ میں مکران ڈویژن کبھی گرم محاذ نہیں رہا بلکہ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق کے دور تک سبی ڈویژن اور قلات ڈویژن گرم محاذ تھے۔ مکران ڈویژن تعلیمی لحاظ سے گرم محاذ گردانا جاتا تھا لیکن مسلح مزاحمت کے حوالے سے بالکل خاموش تھا۔2004 ء میں مکران ڈویژن سے کچھ کچھ خبریں آتی تھیں لیکن اہل بلوچستان نے اس طرف دھیان نہیں دیا اس لیے کہ اس علاقہ کا رجحان تعلیم کی طرف زیادہ تھا اور بیورو کریسی میں ان کی نمائندہ شخصیات زیادہ تھیں۔ لیکن دھیرے دھیرے گرم گرم خبروں کا سلسلہ شروع ہوگیاایک بار نواب بگٹی سے ملاقات ہوئی تو انہیں بتایا گیا کہ مکران ڈویژن میں کچھ کچھ مسلح کارروائیاں ہورہی ہیں تو انہوں نے بے ساختہ کہا واہ واہ۔ مکران ڈویژن گرم ہورہا ہے لیکن انہیں زیادہ یقین نہیں تھا۔اس لیے کہ 1958 ء سے لے خر 1998 ء تک اس حصہ میں کوئی مسلح کارروائی نہیں ہوئی تھی اور 1998 ء سے لے کر2005 ء تک بھی یہ محاذاتنا بیدار نہیں ہوا تھا۔2006 ء کے آتے آتے باقی محاذ سرد ہورہے تھے تو مکران ڈویژن کا محاذ گرم ہونا شروع ہوگیا اور نواب بگٹی کے بہیمانہ قتل کے بعد تو مکران ڈویژن خون اور آگ اگلنے لگا۔ سبی ڈویژن کا محاذ دوبارہ گرم ہوگیا اور بی ایل اے دوبارہ سرگرم ہوگئی اور قلات ڈویژن کا ایک حصہ بھی گرم ہوگیا اور بلوچستان ہمہ اضطراب نظر آنے لگا۔ ڈیرہ بگٹی اور دونوں ایک ساتھ کا علاقہ سبی ڈویژن کا حصہ ہے قلات ڈویژن میں خضدار اور قلات شامل ہیں۔ اس حصہ میں سردار عطا اللہ مینگل کے بیٹے جاوید مینگل نے محاذ سنبھال لیا ہے۔ لشکر بلوچستان کے نام سے متحرک ہے وہ سینیٹر رہ چکا ہے اور قلات ڈویژن میں عبدالنبی بنگلزئی متحرک ہے وہ بی ایس او کا سابق چیئرمین رہ چکا ہے او ریہ علاقہ خان سلیمان دائود کا علاقہ ہے۔ ڈیرہ بگٹی کا محاذ براہمداغ بگٹی کی کمان میں ہے بلوچستان ری پبلکن آرمی کے نام سے سرگرم ہے۔ وہ نواب بگٹی کا پوتا ہے بی ایل اے کی سب سے متحرک کمانڈو بالاچ مری کے ہاتھ میں تھی۔ جنرل (ر) مشرف کے دور میں پاک افغان سرحد پر ایک جھڑپ میں مارا گیا اور اسے افغانستان کے ایک علاقہ میں سپرد خاک کیا گیا اس کا صدمہ نواب خیر بخش خان مری کو بہت زیادہ تھا، بالاچ کی جگہ کوئی نہیں لے سکا بلوچستان میں جتنی مسلح جدوجہد ہورہی ہیں ان سب کی کمان باہر ہے صرف ڈاکٹر اللہ نذر مکران ڈویژن میں اپنے لشکر کی کمان کررہا ہے اورسب سے زیادہ یہ علاقہ مضطرب ہے گزشتہ سال اطلاع تھی کہ ڈاکٹر اللہ نذر کسی تعزیت میں اپنے گائوں آرہا ہے تو اس گائوں کے حصہ میں حملہ کیا گیا یہ آپریشن تھا لیکن اتفاق سے وہ اس موقع پر موجود نہ تھا اس لیے بچ گیا اس حملہ میں اس کا بھائی اور دیگر لواحقین مارے گئے ابتدا میں یہ خبر تھی کہ ڈاکٹر اللہ نذر مارا گیا ہے بعد میں مکمل خاموشی تھی۔ وزیر داخلہ نے بھی بیان دیا تھا کہ اللہ نذر مارا گیا اگر وہ زندہ ہے ظاہر ہوجائے مگر ایک طویل عرصہ تک اللہ نذر روپوش ہوگیا تھا۔ ایک اطلاع تھی کہ اس نے کچھ عرصہ کے لیے علاقہ چھوڑ دیا تھا بعض حلقوں کی رائے تھی وہ افغانستان چلا گیا ہے ایک طویل عرصہ کی خاموشی کے بعد اس نے اپنا وجود ظاہر کردیا اور بیانات بھی آنا شروع ہوگئے۔ اب جو خبر اخبارات کی زینت بنی ہے وہ ایک دھماکہ خیز خبر تھی کہ باڈر سے ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ ایک بچی اور ایک خاتون گرفتار ہوئی ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ اس ہوائی حملہ میں زخمی ہوئی تھی اور اس کا علاج جاری تھا اب وہ علاج کے لیے کوئٹہ آئی تھی کہ گرفتار ہوگئی ہے او ران کے ساتھ بی ایل اے کے ایک کمانڈڑ اسلم بلوچ کی بہن گرفتار ہوئی ہے۔ اسلم بی ایل اے کا آپریشنل کمانڈر ہے اور افغانستان میں موجود ہے۔ اس خبر نے پورے صوبہ میں ایک ہلچل پیدا کردی ہے اس اہم خبر پر بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ بچی سمیت ان کے ہمراہ دو خواتین اور ان کے بچوں کو لاپتہ کیا گیاہے۔ پریس ریلیز میں کہاگیا کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں اسلم بلوچ کی ہمشیرہ کو اس کے چار بچوں ایک بھتیجے اور ایک کزن کو گرفتار کیا گیا ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان سب کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے اہل خانہ کی گرفتاری پر سینٹ میں بھی بحث کی گئی اور احتجاج کیاگیا ہے سینٹ کے چیئرمین نے اس واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اس واقعہ پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عورتوں کی گرفتاری سے حالات درست نہیں ہوں گے اس قسم کے واقعات سے نفرت مزید بڑھے گی۔ ہماری مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ بھونڈے مذاق کا سلسلہ روکا جائے۔ میں اس واقعہ کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہوں اس لیے کہ اس قسم کے واقعات سے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ اس سے مزید نفرتیں بڑھیں گی۔ میرا حکومت اور اداروں کو مشورہ ہے جو بلوچستان کے حالات درست کرنا چاہتے ہیں اس قسم کے واقعات کا فوری تدارک کریں تاکہ ماحول کو سازگار بنایا جاسکے اللہ نذر کی فیملی کو فوراً رہا کیا جائے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں مذاکرات کے حوالے سے اچھی پیش رفت ہوئی تھی اور مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا لیکن ان کے بعد یہ سلسلہ نہ صرف رک گیا بلکہ اب جو کچھ ہوا ہے اس سے حالات بہتری کی طرف نہیں جائیں گے بلکہ بگڑنے کا زیادہ احتمال ہے اور خواتین کی گرفتاری کسی صورت میں درست نہیں ہے بلوچ اور پشتون معاشرہ میں اور روایات میں عورتوں کو قتل کرنا ان کی بے عزتی کرنا ان کی روایات کا حصہ نہیں ہے اور خواتین کو گرفتار کرنا شعلوں کو ہوا دینے کے مترادف ہے اس پالیسی سے ہاتھ اٹھانا چاہیے اور بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔