گرینڈ قبائلی جرگہ‘ مولانا فضل الرحمن کا فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ

جمعیت العلماء اسلام (ف) نے فاٹا انضمام کی مخالفت میں ریفرنڈم کے اپنے مطالبے سے رجوع کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کو الگ صوبے کا درجہ دینے کے لیے رابطہ عوام مہم شروع کرنے کا اعلان کرکے اس سیدھے سادے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ جمعیت(ف) نے یہ فیصلہ مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت پشاور میں ہونے والے ایک گرینڈ قبائلی جرگے میں کیا ہے۔ جرگے کے بعدمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے لیے ایک بھرپور مہم شروع کی جائے گی جس میں تمام ہم خیال جماعتوں اور سرکردہ مذہبی وسیاسی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ انضمام سے متعلق حکومتی مؤقف میں عدم استحکام ہے، اس مسئلے کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے، حکومت نے پہلے انضمام کا اعلان کیا اور بعد ازاں رواج ایکٹ پیش کیا، حکومت اپنے فیصلے پر خود ہی قائم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کی جماعت فاٹا کے لیے اٹھائے گئے اب تک کے تمام اقدامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گرینڈ قبائلی جرگے میں سپریم کونسل کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے جو سارے معاملے کا ازسرِنو جائزہ لے گی۔ انضمام قبائلی عوام کا فیصلہ نہیں ہے۔ فاٹا انضمام سے متعلق حکومتی مؤقف میں عدم استحکام اور ابہام ہے، ہمارے تمام فیصلے آج جرگے سے ملاقات میں ہوئے ہیں۔ حکومت کو اس جرگے کو بھرپور جواب دینا چاہیے۔ تمام سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ فاٹا انضمام کے اپنے نظریے پر نظرثانی کریں، ہم ہر وقت کہتے ہیں کہ فاٹا اصلاحات کے لیے فاٹا کے عوام کی رائے لی جائے، حکومت کبھی رواج ایکٹ،کبھی انضمام اور کبھی الگ صوبے کی بات کرتی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے واضح مؤقف اپنانا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن نے فاٹا انضمام پر اب تک جو سخت اور غیر لچک دار مؤقف اپنا رکھا تھا اُس کو دیکھتے ہوئے اُن کی جانب سے اپنے پرانے مؤقف سے رجوع کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ بنانے کا جو اعلان سامنے آیا ہے بظاہر اس میں کوئی خاص جان نہیں ہے، اور انضمام کی حامی دیگر جماعتیں تو ایک طرف، خود شاید جمعیت(ف) کی اپنی صفوں میں بھی اس حوالے سے یکسوئی نہیں ہوگی، کیونکہ مولانا صاحب نے جو سب سے الگ اور منفرد مؤقف اپنا رکھا ہے اس کی توضیح کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آرہی ہے۔ دراصل الگ صوبے کے مطالبے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں اور اس مطالبے کا حالیہ غیر یقینی اور بگڑی ہوئی صورت حال میں سامنے آنا کئی مسائل اور سوالات کو جنم دے سکتا ہے۔ الگ صوبے کے نعرے اور مطالبے میں عام لوگوں خاص کر نوجوانوں کے لیے یقینا بہت کشش معلوم ہوتی ہے، لیکن قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ بنانے کے کیا ملکی اور بین الاقوامی دوررس نقصانات اور اثرات ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ لگانے کی شاید مولانا فضل الرحمن سمیت یہ مطالبہ کرنے والی قوتوں نے کبھی کوشش نہیں کی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی میدان میں کیے جانے والے فیصلے چونکہ ذاتی مفادات کے اردگرد گھومتے ہیں اس لیے فاٹاکے مستقبل پر آج تک وہاں کے عام مقامی قبائل کے احساسات اور خواہشات کا کسی بھی مرحلے پر خیال رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ قبائل کی قسمت کے فیصلے چند ٹکوں کے عوض یا تو وہاں کے مٹھی بھر ملک، یا پھر لامتناہی اختیارات کی حامل سیاسی انتظامیہ کرتی رہی ہے ۔ اس تناظر میں الگ صوبے کا مطالبہ بظاہر بڑا دلکش نظر آتا ہے، لیکن پاکستان جیسی وفاقی ریاست جہاں صوبائی اکائیوں کی مرضی کے بغیر ایک ڈیم بنانا بھی مشکل ہے، وہاں ایک نئے سرحدی صوبے کا قیام کوئی آسان کام نہیں ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک قبائلی علاقوں میں اصلاحات اور انہیں خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کا مطالبہ زبان زدِ عام تھا، لیکن اب اس مطالبے کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے الگ صوبے کے مطالبے کی صورت میں جو پنڈورا باکس کھولنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ کسی بھی طرح نہ تو بین الاقوامی حالات کے تناطر میں قرین مصلحت ہے اور نہ ہی اس طرح کے غیر حقیقت پسندانہ مطالبات کے ذریعے قبائل کی محرومیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ قبائل جو پچھلی سات دہائیوں سے پاکستان میں غیر مشروط طور پر اپنی مرضی سے شامل ہونے کے باوجود آئین اور قانون کے لحاظ سے پاکستان کے شہری بننے کے بنیادی حق سے محروم ہیں، ان کے متعلق گزشتہ ستّر برسوں میں کسی بھی حکمران کو یہ خیال نہیں آیا کہ انہیں ایف سی آر کے شکنجے سے آزاد کروایا جائے اور وہ حقوق اور اختیارات دیئے جائیں جو ملک کے دیگر شہریوں کو کسی نہ کسی شکل میں حاصل ہیں۔ اب جب ایک طویل عرصے کے بعد قبائل کو بنیادی انسانی حقوق دینے کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے تو خودغرضی اور لالچ کے بیوپاری ایک بار پھر نت نئے مطالبات کی آڑ میں قبائل کی آزادی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے میدان میں نکل آئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا کہ فاٹاکے مستقبل کے فیصلے کا اختیار قبائلی عوام کو ملنا چاہیے اور اگر اس سلسلے میں ریفرنڈم بھی کرانا پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، بظاہر ایک خوشنما بات نظر آتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ فاٹا اصلاحات سے متعلق سرتاج عزیز کمیٹی نے
تمام قبائلی علاقوں کے دورے کرنے کے بعد جو رپورٹ مرتب کی ہے اور جس کی سوائے جمعیت(ف) کے کوئی جماعت مخالفت نہیں کررہی ہے بلکہ تمام جماعتوں نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے، تو پھر اب ایک طویل اور صبر آزما عمل کی تکمیل کے بعد دوبارہ قبائل سے رائے لینے کی بات کا سوائے اس کے اور کوئی مقصد نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمن اپنے اس مطالبے کی آڑ میں اصلاحات کے عمل کو پھر سرد خانے کی نذرکرنا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے فاٹا اصلاحات اور خاص کر انضمام پر جو سخت اور غیر لچک دار مؤقف اپنا رکھا ہے اُس سے وہ اور اُن کی جماعت چونکہ قبائل کے اس دیرینہ مسئلے پر پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں اس لیے سیاسی تجزیہ کار ان کے تازہ مؤقف کو ان کے سابقہ غیر لچک دار اور سخت مؤقف کے مقابلے میں ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کررہے ہیں ۔
دوسری جانب فاٹا انضمام کی حامی قوتیں بھی نہ صرف ایک بار پھر متحرک ہوگئی ہیں بلکہ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے اس ضمن میں انضمام کی تمام حامی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور قومی وطن پارٹی کا ایک گرینڈ الائنس بنانے کے اعلان کے ذریعے سیاسی میدان کو مزید گرم کردیا ہے۔ جب کہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپائو، جماعت اسلامی کے مرکزی اور صوبائی امراء سراج الحق اور مشتاق احمد خان پہلے سے بھی زیادہ جارحانہ انداز میں فاٹا انضمام کے حق میں نکل آئے ہیں۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے تو 10نومبر کی باقاعدہ ڈیڈلائن بھی دے دی ہے جس کے بعد انہوں نے اسلام آباد میں دھرنے کی دھمکی تک دے ڈالی ۔
یہ بات بجا ہے کہ قبائل کو ایف سی آر کے سیاہ اور ظالمانہ قانون کے شکنجے کے تحت اکیسویں صدی میں مزید جکڑ کر رکھنا ہرگز قرین مصلحت نہیں ہے، لہٰذا توقع ہے کہ حکومت تمام دیگر متعلقہ اداروں کی مشاورت اور راہنمائی سے فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام اور 2018ء کے عام انتخابات میں قبائل کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کا حق دے کر انہیں پاکستان سے محبت کرنے والوں کی صف میں کھڑا کرنے میں مزید کسی تاخیر سے کام نہیں لے گی۔