تبصرۂ کتب

نام کتاب : تذکارِ رفیع(ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: حیات و خدمات)ترتیب و تہذیب : ڈاکٹر ظفر حسین ظفرایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردوعلامہ اقبال یونیورسٹی۔ اسلام آباد صفحات : 304  قیمت 500 روپےفون : +92 322 5177413ای میل alfathpublications@gmail.com تقسیم کنندہ : وی پرنٹ بک پروڈکشنز+92-345-1138927+92-300-5192543ای میل : vprint.vp@gmail.comویب گاہ : www.vprint.com.pkوی پرنٹ392-A ،گلی نمبر 5-A ، لین نمبر 5 گلریز ہائوسنگ اسکیم 2- راولپنڈی تذکارِ رفیع بہت ہی عمدہ کتاب ہے جو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی حیات و خدمات پر بہت خوبصورتی سے ترتیب دی گئی ہے۔ ہم اپنا یہ تعارف ڈاکٹر عبدالعزیز ساحرؔ کی تحریر سے شروع کرتے ہیں جو خود ایک حسین نثر ہے:’’اس عہدِ کم توفیق میں عظمت کا معیار یہ رہ گیاہے کہ کوئی بھی شخصیت اپنے علمی اور ادبی کروفر کا قدم قدم پر یقین دلائے، چاہے اس اظہارِ ذات کے عمل میں شخصیت کا جمال ہی متاثر کیوں نہ ہو۔ لیکن ہمارے ہاشمی صاحب اس گروہ سے متعلق ہیں، جنہیں خلوص اور محبت کی دولت سے وافر حصہ ملا ہے۔ یہ لوگ تعداد میں کم سہی، قدرو منزلت میں کم نہیں ہوتے۔ یہ علمی گہر ہائے آب دار رولتے نہیں، ان کی نمائش نہیں لگاتے، بلکہ اپنے شاگردوں اور عزیزوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ اس گروہ کے افراد سادگی اور خلوص کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں۔ نمود و نمائش کے سکے ان کے ہاں بار نہیں پاتے۔ افسوس ان سے میرؔ کو صحبت نہیں رہی۔ہاشمی صاحب متحمل مزاج، متواضع اور بے انتہا محبت اور شفقت کرنے والے آدمی ہیں۔ سادگی ان کا شعار بھی ہے اور وقار بھی۔ ان کی زندگی اور زندگی کے تمام تر معاملات سادگی میں ڈھل گئے ہیں۔ بناوٹ اور تصنع کا ان کی زندگی میں کہیں گزر نہیں۔ اور یہ وہ خوبی ہے جو انہیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتی ہے۔ وہ مشرقی تہذیب کے پروردہ ہیں۔ ان کی شخصیت اس تہذیب اور روایت کی علامت بن گئی ہے۔ سَچے اور سُچے جذبوں کے امین۔ سراپا خیر۔ بے مثال و بے نظیر۔ہاشمی صاحب زندہ دل بھی ہیں اور شگفتہ مزاج بھی۔ ان کی سنجیدگی شگفتگی اور زندہ دلی سے ضیا بار ہے۔ وہ باغ و بہار آدمی ہیں۔ ان کے رویوں میں تازگی بھی ہے اور شادابی بھی۔ بہت کم دوست جانتے ہیں کہ ان کی آواز بہت اچھی ہے۔ ان کا ترنم اپنے اندر سوز اور گداز کی مہکار رکھتا ہے۔‘‘ڈاکٹر ظفر حسین ظفرؔ تحریر فرماتے ہیں:’’رفیع الدین ہاشمی صاحب نے 1960ء کی دہائی میں جس علمی سفر کا آغاز کیا تھا وہ آج بھی پوری مداومت کے ساتھ اس پر عازم سفر ہیں۔ استقامتِ عمل کی ایسی مثالیں ہمارے معاشرے میں نایاب تو نہیں لیکن کم یاب ضرور ہیں۔علمی ریاض کے اس طویل سفر میں ہاشمی صاحب نے علم و ادب کی تقریباً ساری ہی جہتوں میں کم یا زیادہ حصہ ڈالا ہے، مثلاً: طالب علموں کی نصابی ضرورت کے مطابق ’’تفہیم اردو اور اقبال کی طویل نظمیں‘‘، ’’سرور اور فسانۂ عجائب‘‘، ’’اصنافِ ادب‘‘، ’’اقبال بحیثیتِ شاعر‘‘ جیسی کتب انہوں نے تالیف کیں جن سے گزشتہ پچاس برسوں میں ہزاروں طالب علم مستفید ہوئے۔ تخلیقی ادب میں بھی انہوں نے جاپان اور اندلس کے سفرنامے تحریر کیے جن پر ایم فل کا ایک سندی مقالہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ انشائیہ نگاری بھی ان کا موضوع رہا۔ اس طرح فکرِ مودودی کے شارحین میں بھی اُن کا نام بہت معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ مولانا مودودی کے خطوط کے دو مجموعے، ’’سیرتِ سرورِ عالم‘‘ (مدنی دور) اور ’’کتابیاتِ مودودی‘‘ کی ترتیب جیسے وقیع کام وہ مکمل کرچکے ہیں، لیکن ان سارے کاموں کے باوجود اقبالیات اُن کے فکر و فن کی پہچان ٹھیرا ہے۔ اقبالیات میں اُن کا کہا اور لکھا اب ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔سید حسن البنا سے کسی نے استفسار کیا تھا کہ آپ کتابیں تصنیف نہیں کرتے، تو انہوں نے جواب میں فرمایا تھا: انا اصنف الرجال (میں انسان تصنیف کرتا ہوں۔) ہاشمی صاحب نے بھی تحقیق و تنقید کے مختلف موضوعات پر اعلیٰ درجے کی کتابیں تصنیف کرنے کے ساتھ ساتھ تنقیدی و تحقیقی شعور اور علمِ نافع بانٹنے والے شاگردوں کی ایک ٹیم تصنیف کی ہے۔ڈاکٹر ہاشمی کی سوانح اور کتابیات کی ترتیب کا اوّلین کام ڈاکٹر عبدالعزیز ساحرؔ نے 2005ء میں مکمل کیا تھا، ازاں بعد ڈاکٹر ظہور احمد مخدومی (سری نگر) نے 2013ء میں ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: حیات و خدمات‘‘ اور ڈاکٹر خالد ندیم نے ’’ارمغانِ رفیع الدین ہاشمی‘‘  (2013ء) پیش کرکے اپنی اس علمی و تہذیبی روایت کے احیا کی کوشش کی، جہاں استاد کا فیضانِ نظر ہی شاگرد کی متاعِ کُل سمجھی جاتی تھی۔ زیر نظر مجموعہ بھی دراصل اسی تہذیبی روایت کا تسلسل ہے۔ اس کتاب کی ترتیب کا خیال جونہی سامنے آیا تو دل سے دعا نکلی:’یہ‘ اک خیال کہ کاش لفظوں میں ڈھل سکےاحباب کا کرم ہے کہ انہوں نے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ ہاشمی صاحب کے ساتھ بیتے دنوں کی یادوں کو مرتب کرکے راقم کے خوابوں کو تعبیر کی روشنی عطا کی، اور استادِ گرامی کی شخصیت پر محیط یادوں کا ایک گلدستہ جمع ہوگیا۔ زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر ہاشمی کے معاصرین کے ساتھ ساتھ ان کے شاگردوں اور عزیزوں کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ ہر تحریر سے ڈاکٹر ہاشمی کی شخصیت کا کوئی نہ کوئی پہلو نمایاں ہوتا ہے۔‘‘ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام آباد نے کتاب پر مقدمہ ’’عرضِ ناتمام‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے:’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی (پ:1942ء) کا شمار ہمارے عہد کے اُن برگزیدہ اور چنیدہ اہلِ علم میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو علم و ادب کے فروغ کے لیے وقف کررکھا ہے۔ نصف صدی سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا اُن کا شان دار علمی و ادبی سفر علم و ادب کے ساتھ اُن کی سچی اور اٹوٹ وابستگی کا مظہر اور ان کی بے پناہ تصنیفی، تخلیقی اور ادبی صلاحیتوں کا اظہاریہ ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صحیح معنوں میں ہشت پہلو شخصیت ہیں۔ متخصصینِ اقبال میں انہیں سند اور اعتبار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی تحقیقات، تدوینات، مرتبات اور انتخابات نے بلاشبہ اقبالیات کے شعبے کی ثروت مندی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ انہوں نے اپنے بعض اسفار کے احوال کو نہایت عمدگی کے ساتھ سفرنامے کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کے سفرنامے مندرجات کی ندرت اور اندازِ تحریر کی دل کشی کے باعث عوام و خواص میں بے حد مقبول ہوئے۔ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے انہوں نے نہایت فعال اور مؤثر کردار ادا کیا۔ اولاً وہ پنجاب کے مختلف کالجوں سے بہ طور استاد وابستہ رہے، ازاں بعد اورینٹل کالج، جامعۂ پنجاب کے ساتھ وابستہ ہوئے اور صدرِ شعبہ کے منصب تک پہنچے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بہ طور ایمی نینٹ پروفیسر اور اب شعبۂ اقبالیات کے جزوقتی پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ متذکرہ بالا شعبوں میں فعال اور مثالی کار گزاری کے باوصف وہ عجز اور انکسار کا مجسمہ ہیں۔ شہرت اور نام وری کے باوجود شخصی اوصاف و کمالات کا نمونہ۔ فطری درویشی اور مسکینی نے ان کی شخصیت کو ایسی کشش اور دل پذیری عطا کی ہے جو ہر کسی کا مقسوم نہیں ہوتی۔ قدرت نے انہیں بڑی فیاضی کے ساتھ اعلیٰ انسانی اوصاف و خصائل سے متصف کیا ہے۔ وہ ہمارے عہد کی آبرو اور وقار ہیں۔ وہ بلاشبہ اسلاف کی نشانی اور بزرگانِ گزشتہ کی یادگار ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی کا یہ شعر اُن کی شخصیت پر پورا پورا صادق آتا ہے:بہت جی خوش ہوا، حالیؔ سے مل کرابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میںڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی عمل کے خوگر اور تحرّک کے داعی ہیں۔ اگر انہیں علامہ اقبالؒ کے فلسفۂ جدوجہد و تحرک کی عملی مثال قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وہ وقت کو متاعِ گراں ارزش خیال کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے آپ کو مصروفِ کار رکھتے ہیں۔ سفر ہو یا حضر، ان کے اس معمول میں فرق نہیں پڑتا، وہ ہر طرح کے حالات میں اس پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا ہر کام وقت پر اور بسااوقات وقت سے بھی پہلے انجام دے کر سرخرو ٹھیرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، شاگردوں اور دوستوں کو بھی وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ان کے اندر کا استاد جاگتا رہتا ہے، وہ دردمندی، دل سوزی اور محبت کے ساتھ اپنے وابستگان کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا فرض ادا کیے جاتے ہیں۔ ان کی اس بے غرض اور بے لوث خبرگیری کے باعث ان کے کئی نیازمندوں نے بروقت اپنا تحقیقی اور تصنیفی کام کرکے عزت حاصل کی ہے۔ عہدِ رواں میں جب ہر کوئی اپنی ذات کے حصار سے باہر جھانکنا گناہ سمجھتا ہے، ہاشمی صاحب یہ گناہ تسلسل اور تواتر کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ڈاکٹر ہاشمی کی شخصیت کا دوسرا بڑا وصف اُن کی سادگی اور بے تکلفی ہے۔ بناوٹ اور ظاہر داری سے انہیں لگائو نہیں۔ ان کی باتیں، ان کا رہن سہن، ان کا کھانا پینا اور ان کا لباس ہمیشہ سادگی کا مظہر رہا ہے۔ تعیش اور فضول خرچی سے وہ ہمیشہ مجتنب رہے ہیں، مگر جہاں خرچ کرنے کی ضرورت ہو، بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ منصورہ، لاہور میں چار مرلے کا ایک چھوٹا سا گھر ان کی شخصی درویشی کا واضح ثبوت ہے۔ وہ لاہور میں اس سے کہیں بڑا اور کشادہ گھر بناسکتے تھے، مگر انہوں نے ’’دنیا‘‘ کو کم کم اپنے قریب آنے دیا ہے۔ وہ اس چھوٹے سے گھر پر شاکر اور قانع ہیں۔ اولاد کی تربیت بھی انہوں نے صبر و شکر، توکل اور قناعت کے رنگوں سے کی ہے، کہ وہ بھی اس چھوٹے سے گھر میں ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ عزیز، رشتے دار، طالب علم، دوست اور دوسرے مہمانوں کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں پاتا، یہ چھوٹا سا گھر مہمان نوازی اور خاطر تواضع کو ہر وقت اور ہر کسی کے لیے حاضر ہے۔ ریاکاری اور دکھلاوے کا یہاں گزر نہیں، سادگی اور محبت کا یہاں رواج عام ہے۔ وہ خود جب کسی کے مہمان بنتے ہیں، یہی سادگی ہم رکاب ہوتی ہے۔ میزبان متمول ہو یا غریب، گھر شاندار اور پُرآسائش ہو یا معمولی اور واجبی، ہاشمی صاحب کا معمول نہیں بدلتا۔ رات کو جلدی سونا اور سویرے جلدی بیدار ہونا ان کی عادت ہے۔ اپنا گھر ہو یا دوسرے کا، اس عادت میں تعطل نہیں آتا۔ اپنے معمولات اور عادات پر اس قدر مداومت بے حد مشکل کام ہے۔ہاشمی صاحب معاملات کے کھرے اور سچے ہیں۔ جس سے جو بھی معاملہ ہو، خوش اسلوبی سے انجام پاتا ہے۔ دوستوں حتیٰ کہ شاگردوں کی فرمائش پر مختلف کتب خانوں اور طباعتی اداروں سے کتابیں خریدنا اور بھجوانا ان کا روز کا معمول ہے۔ اپنے پَلّے سے رقم خرچ کرکے (چاہے وہ بعد میں مل بھی جائے)، لاہور کے بے ہنگم رش اور شور شرابے کو برداشت کرکے کتابوں کی جمع آوری اور ان کی ترسیل تک کے مراحل کو طے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہاشمی صاحب جیسے ایثار پیشہ اور دردمند انسان ہر دور میں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ عام لوگ ان کے سنجیدہ اور ثقہ علمی کاموں کو دیکھتے ہوئے انہیں زاہدِ خشک خیال کرتے ہیں، تاہم ایسا نہیں ہے۔ نجی محفلوں اور دوستوں کے حلقوں میں ان کی شگفتہ گفتاری دیدنی ہوتی ہے۔ وہ حسبِ موقع ظرافت اور مزاح سے بھی کام لیتے ہیں اور طنز سے بھی۔ ان کے کاٹ دار جملوں سے میں نے کئی اصحاب کو تلملاتے اور مرغِ بسمل کی طرح لوٹتے دیکھا ہے۔ دل آزاری ان کا مسلک نہیں مگر حق گوئی اور بے باکی اُن کا شعار ہے۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے فکر و فن پر کئی جامعات میں ایم اے اور ایم فل کی سطح کے کئی تحقیقی اور تنقیدی مقالات لکھے جاچکے ہیں۔ معاصر علمی و ادبی شخصیات نے ہمیشہ اُن کے تصنیفی و تحقیقی کارناموں کو بہ نگاہِ تحسین دیکھا ہے اور دل کھول کر داد دی ہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحرؔ نے اُن کے سوانح اور کتابیات مرتب کرکے، اور ڈاکٹر خالد ندیم نے ارمغانِ علمی پیش کرکے اپنے استادِ گرامی کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ان سب کے باوجود ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زندگی کے بہت سے رنگ، مختلف افراد کے ساتھ اُن کے شخصی روابط، اور عزیز واقارب کے ساتھ اُن کے مثالی برتائو کے متعدد نمونے جمع ہوں۔ خوشی کی بات ہے کہ ڈاکٹر ہاشمی کے شاگرد اور نیازمند ڈاکٹر ظفر حسین ظفرؔ نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے زیرنظر کتاب مرتب کی ہے۔یہ کتاب رنگا رنگ اور خوش نما تحریروں کا گل دستہ ہے۔ ’’ہر گلے رارنگ و بوئے دیگر است‘‘ کے مصداق ہر تحریر کا اپنا رنگ، رس اور ذائقہ ہے۔ یہ ہاشمی صاحب کے دوستوں، عزیزوں، قدردانوں، شاگردوں اور نیازمندوں کے تجربات و مشاہدات اور ڈاکٹر ہاشمی کے ساتھ اُن کے روابط اور تعلقات کے تذکارِ جمیل پر مشتمل ہے۔ ان تحریروں کے آئینے میں ایک ایسی جامع کمالات اور متنوع صفات بزرگ شخصیت کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے، جسے بلاشبہ ہمارے عہد کی آبرو قرار دیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ظفر تحسین و تبریک کے سزاوار اور داد کے مستحق ہیں جنہوں نے ان مضامین کی جمع آوری، ترتیب و تہذیب اور اشاعت کے مراحل خوش اسلوبی سے سر کیے ہیں۔ اللہ کریم اُن کی اس بے لوث خدمت کو قبول کرے اور اُن کے جذبوں و شوق کی دنیا کو ہمیشہ شاداب رکھے۔ آمین بجا سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔کتاب سات حصوں میں منقسم ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:(1) ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: سوانحی جھلکیاں‘‘ ڈاکٹر خالد ندیم۔ ’’بھائی جان‘‘ ڈاکٹر عبداللہ شاہ ہاشمی(2) ’’فکرِ اقبال کا امین‘‘ پروفیسر خورشید احمد۔ ’’شاہراہِ اقبال کے سنگِ نشاں: رفیع الدین ہاشمی‘‘ پروفیسر عبدالحق۔ ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: علمی لگن کی نادر مثال‘‘ ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: ہم سفری کے چند تاثر‘‘ ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ ’’ہاشمی صاحب‘‘ عبدالعزیز ساحر۔ ’’لاہوری تاج محل‘‘ رئوف پاریکھ۔ ’’اک اجنبی سا آشنا یا آشنا سا اجنبی‘‘ غلام قادر آزادؔ۔ ’’ہمارے ہاشمی صاحب‘‘ ملک حق نواز خاں۔ ’’ہاشمی صاحب: میری نظر میں‘‘ م۔ب کیف عرفانی۔ ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور جے جے تھامسن‘‘ یعقوب نظامی۔ ’’استادِ محترم: تحرک اور جدوجہد کی علامت‘‘ جاوید اصغر۔ ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: میرے مرشد، میرے استاد‘‘ ڈاکٹر راشد حمید۔ ’’بھلا مانس پروفیسر‘‘ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک۔ ’’آگے اندھیرا ہے‘‘ ڈاکٹر شفیق انجم۔ ’’شجر سایہ دار: پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘‘ سکندر حیات میکن۔ ’’اچھا تو ٹھیک ہے‘‘ محمد ایوب لِلّٰہ۔ ’’دادا اُستاد‘‘ ڈاکٹر سلمان علی۔ ’’نامِ تو برلوحِِ سینہ صد جانوشتہ ایم‘‘ قاسم محمود احمد۔ ’’آئینۂ قبلہ نما‘‘ محمد عمران طاہرؔ۔ ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: میرے استاد میرے مربی‘‘ ذوالفقار احمد ساحرؔ۔ ’’ہاشمی صاحب: میرے پیر، میرے مرشد‘‘ مظہر دانش۔ ’’میرے استادِ گرامی‘‘ حمید اللہ خٹک۔ ’’ہاشمی صاحب‘‘ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر(3) ’’دنیائے تحقیق کا قطب‘‘ ڈاکٹر طالب حسین سیال۔ ’’ہاشمی صاحب اور ان کی علمی رہنمائی‘‘ محمدراشد شیخ۔ ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تحقیقی شخصیت کے چند پہلو‘‘ ڈاکٹر رفاقت علی شاہد۔ ’’غیر روایتی قسم کے حقیقی سفرنامہ نگار: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘‘ ڈاکٹر محمد افتخار شفیع۔ ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بطور انشائیہ نگار‘‘ڈاکٹر سکندر حیات میکن۔ ’’تصانیف اور تالیفاتِ ہاشمی کا تعارف‘‘ فیاض نقی (4)’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مسافرت نامے‘‘ ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔ ’’مکاتیبِِ رفیع الدین ہاشمی بہ نام ملک حق نواز خاں‘‘ سید نصرت بخاری۔ ’’درویش منش استاد‘‘ زیب النساء(5)’’مکتوب بنام استادِ محترم‘‘ محمد اکرم۔ ’’استادِ گرامی کے نام خط‘‘ نسیم سرفراز(6) ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے ایک مصاحبہ‘‘ ظفر حسین ظفر۔ ’’کوائف نامہ: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘‘ سلیم منصور خالد(7)منظومات… ’’اسلامی تہذیب اور روایت میں گندھا ہوا آدمی‘‘ عبدالعزیز ساحرؔ۔ ’’ہاشمی صاحب کے لیے ایک نظم‘‘ ارشد محمود ناشاد۔ ’’حضرتِ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی نذر‘‘ محمد افتخار شفیع۔غرض یہ کتاب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے شایانِ شان اور مرتب ڈاکٹر ظفر حسین ظفرؔ کے لیے باعثِ عزت اور توقیر ہے۔ جناب ارشد محمود ناشاد نے نظم میں بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔نام کتاب : اقبال کی تیرہ نظمیںمصنف : پروفیسر اسلوب احمد انصاریصفحات : 276   قیمت 300 روپےناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلسِ ترقی ادب 2کلب روڈ۔ لاہورفون : 042-9920056-9920057ای میل : majlista2014@gmail.comپروفیسر اسلوب احمد انصاری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں استاد تھے۔ علم و ادب میں اعلیٰ مقام کے حامل تھے۔ ان کی علامہ اقبال کی تیرہ نظموں کی تحلیل و تجزیہ پر یہ کتاب دوسری دفعہ مجلسِ ترقی ادب نے شائع کی ہے۔ ان نظموں کے نام ہیں:تسخیرِ فطرت، تنہائی، شمع و شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، خضرِ راہ، طلوعِ اسلام، مسجدِ قرطبہ، ذوق و شوق،ساقی نامہ، لاالہ الا اللہ، ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام، شعاعِِ امید، ابلیس کی مجلسِِ شوریٰ۔ آخر میں اشاریہ بھی لگایا گیا ہے۔ اشاریہ اشخاص، مقامات، موضوعات اور کتب کا ہے۔ منظومات کے حوالے سے بھی اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری تحریر فرماتے ہیں:’’اقبال کی شاعری کے سلسلے میں اکثر یہ کہا گیا ہے کہ یہ تاثرات یا تجربات کے برعکس تصورات کی شاعری ہے، یعنی اس کے پسِ پشت ایک مربوط اور منظم نظامِ فکر کے آثار پائے جاتے ہیں جس سے یہ قوتِ نمو حاصل کرتی ہے۔ اس محاکمے میں ایک حد تک صداقت ہے لیکن پوری صداقت نہیں۔ اقبال  تنقید کا مجموعی طور سے یہ نقص رہا ہے کہ اس میں زیادہ تر اُن کے تصورات کے تجزیے اور اُن کی تعبیر و تفسیر ہی سے سروکار رکھا گیا ہے۔ لیکن شاعری میں مجرد خیال کی اہمیت زیادہ نہیں ہوتی، بلکہ خیال اور فکر کے حسّی متبادلات قابلِ قدر ہوتے ہیں، بہ الفاظ دیگر یہ کہ خیالات یا مجردات کو محسوس طریقے پر محاکات اور علائم کے ذریعے کس طرح پیش کیا گیا ہے۔ اقبال کی بہترین نظمیں اور غزلیں فن کے ایسے ہی نمونے ہیں جن کی تعمیر و تنظیم میں فکر کو بھی دخل ہے، لیکن وہ اس فکر کی موضوعی تجسیم بھی ہیں۔ اس کتاب میں ان کی تیرہ منتخب نظموں کو تحلیل، تجزیے اور چھان بین (Evaluation)کے اس عمل سے گزارا گیا ہے، یعنی ان نظموں کی بیرونی ہیئت اور جسمانیت پر نظریں جماکر یہ پتا لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے اندر خیالات اور مرکزی اقدارِ حیات کس طرح کے تفاعل سے منسوب کیے جاسکتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب نظموں کی ساخت اور ان کے ڈھانچے پر بھی غور کیا جائے اور ان کے اس اندرونی آہنگ کو بھی متعین کیا جائے جس کے لیے یہ ڈھانچہ وضع کیا گیا ہے یا جس میں اسے متشکل کیا گیا ہے۔ اقبال کی شاعری کے بعض پہلوئوں پر ان کے انگریزی خطبات جن میں اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیلِ جدید سے بحث کی گئی ہے، بہت اہم اور دلچسپ روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کے مطالعے کے بغیر بعض نظموں کے فکری ماخذ کو سمجھنا دشوار ہے۔ انفرادی نظموں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ اقبال کی شاعری کی تنقید کے سلسلے میں سرسری تعمیمات ہی تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھا جائے بلکہ شعری عمل کو بھی تجزیے کی زد میں لایا جائے۔ عملی تنقید کا یہی وہ طریقۂ کار ہے جو شاعر کے ذہن اور مزاج کی تفہیم میں مؤثر طور پر سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے لیے میں اپنے عزیز اور مخلص دوست احمد ندیم قاسمی صاحب کا مرہونِ منت ہوں جن کی ذاتی دلچسپی کے بغیر یہ کتاب منظرعام پر نہ آسکتی تھی۔‘‘کتاب سفید کاغذ پر نسخ ٹائپ میں چھپی ہے، مجلّد ہے۔