تبصرۂ کتب

کتاب : ذکر کچھ دلی والوں کا
مصنف : محمود عزیزصفحات : 155طباعت : بقائی یونیورسٹی پریس

قیمت : 250 روپے تقسیم کار : فضلی بک ‘ سپر مارکیٹ‘ اردو بازار کراچی 32629724کتاب سرائے‘ الحمد مارکیٹ اردو بازار لاہور

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب‘‘بھائی محمود عزیز جو کہ دلی کے ہیں اور آج بھی وسکی یادیں سمیٹے رات کو سپنوں میں گھمی کبابی کے کبابوں کے چٹخارے لیتے ہیں‘ اور صبح گنجے نہاری والے کے تھڑے پہ بیٹھے رکابی میں چار نلیاں جھڑوا کے بگھاری نہاری کا مزا لے کے جب بیدار ہوتے ہیں تو ’’ذکر کچھ دلی والوں کا‘‘ زبان پر آہی جاتا ہے۔’’دلی کی تہذیب و ثقافت کو لال قلعے کے ذکر کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا‘ اردو معلیٰ وہاں بولی جاتی تھی‘ مشاعرے وہاں ہوتے تھے۔ دربار سے منسلک صاحبان عقل و خرد‘ مشاعر‘ مصنف‘ فنکار اور دوسرے عمائدین سلطنت قلعہ کی رونق تھے‘ ان کے کمالات‘ فنون‘ تصورات ہی رفتہ رفتہ دلی میں رائج ہوجاتے۔ مرزا چپاتی جو بہادر شاہ ظفر کے بھانجے کہے جاتے تھے ان کی گواہی معتبر تھی۔ وہ زبان کی ٹکسال قلعے میں بتاتے ہیں کہ زبان کی ٹکسال قلعے ہی میں تھی‘ وہاں محاورات نہ ڈھلتے تو کہاں ڈھلتے ‘ طبعتیں ہر وقت حاضر رہتی تھیں‘ ہر بات میں جدت تھی ۔ ہنسی مذاق میں جو منہ سے نکل گیا گویا سکہ ڈھل گیا۔ کسی کے پھٹے پھٹے دیدے ہوئے مرزا بٹو کہہ دیا‘ لمبا چہرہ چگی داڑھی دیکھی‘ مرزا چگا‘ یا مرزا کدال کہنے لگے۔ چکلے چہرے والے پر چوپال کی اور ٹھگنے پر گھٹنے کی بھبتی اڑا دی۔ غرض کہ مرزا چیل‘ مرزا چھپٹ‘ مرزا یاہو‘ مرزا رنگیلے‘ مرزا رسیلے‘ بیسویں اسم باسمیٰ تھے۔ میں جمعرات کو چپاتیاں اور حلوا بانٹا کرتا تھا‘ میرا نام مرز اچپاتی مشہور کردیا۔‘‘بقائی میڈیکل یونیورسٹی سے سید محمد ناصر علی لکھتے ہیں ’’دلی کو برصغیر پاک و ہند کے تہذیب و تمدن کا ایک منفرد شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی انفرادیت ہمہ جہت ہے۔ یہ دنیا کا وہ تاریخی شہر ہے جو سیاسی مصلحتوں اور اقتدار کی رسہ کشی میں کئی بار اجڑا اور بسا۔ اس اٹھا پٹخ میں۔کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئےایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے’’شاہ فقیر ہوگئے اور فقیر شاہ ہوگئے‘‘ اس کے باوجود دلی کی معاشرت‘ ثقافت اور ادبی محافل کی تابانی باقی رہی۔ ہر بار اس میں نئی امنگ نئی جہت پیدا ہوئی‘ دلی والوں کی اعصابی مضبوطی‘ علمی تحبر‘ ولولہ‘ انگیزی دلی کی مضبوط تہذیب و تمدن کو نکھارتی رہی ہے۔ زندگی کو متحرک رکھنے میں دلی کا مزاج اور اس کا بانکپن ان ہستیوں کے مرہون منت ہے جنہوں نے دلی کو دلی والوں کی دلی بنادیا۔‘‘ان دل والوں میں سرسید احمد خان سے لے کر علامہ راشد الخیری‘ خواجہ حسن نظامی‘ ملاواحدی‘ شان الحق حقی‘ عالی جی‘ مسٹر د ہلوی و دیگر معروف ہستیوں کے ساتھ دلی کے عام شہری بھی شامل ہیں۔ روزہ مرہ زبان اور شائستہ اسلوب میں لکھی گئی یہ حکایت جتنی بار آپ پڑھیں گے اتنا ہی لطف آئے گا۔ محمود عزیز نے اپنی تحڑیر کو جابجا اکابرین کے اقتباسات سے سجا کر بڑا حسن پیدا کردیا ہے۔باتیں ہماری یاد رہیں‘ پھر باتیں ایسی نہ سنیے گاپڑھتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا(منیر)چند اقتباسات دیکھیے‘ اشرف صبوحی صاحب اہل کمال کی ناقدری کا ذکر یوں کرتے ہیں۔’’قلعہ آباد تھا‘ امرا کی ڈیوڑھیاں برقرار تھیں۔ ملک گیری او رملک داریوں والے تو خلد آشیاں او رجنگ مکاں ہوچکے تھے‘ رہ گئی تھی صرف شاہی اور امارت کی ٹن بازیاں‘ عیاشیاں اور کھانا اڑانا‘ خالی بیٹھے کیا کرتے‘ لباس کی تراش خراش ہوتی یا دستر خوان کی زیبائش‘ درزی اپنی کاری گریاں دکھاتے ‘ باورچی ‘ نان بائی ‘ رکاب دار طرح طرح کی استادیوں سے کھانے کے اقسام بڑھاتے‘ انعام پاتے‘ بادشاہت اجڑی‘ اہل کمال دربدر کی ٹھوکریں کھا کر بازاروں میں نکلے‘ پیٹ بری بلا ہے۔ کیسی آن اور کس کی شان؟ کوئی کبابی بن گیا۔ کسی نے نہاری کی دکان کرلی۔ اس طرح اکثر خاص کھانے جو سچی چینی کے پیالوں اور بلوری قابوں میں تورہ پوشوں سے ڈھکے ہوئے شاہ زادوں اور شاہزادیوں کے سامنے آتے تھے‘ ڈھاک کے پتوں کے دونوں اور مٹی کے جھوجرے برتنوں میں نکلنے لگے‘ عوام الناس کا بھلا ضرو رہوا مگر فن کی ترقی رک گئی۔ جو مرا اپنا فن ساتھ لے گیا۔ کسی نے اپنا جانشین نہ چھوڑا۔‘‘اُدھر جو دیکھتا ہے‘ وہ ادھر بھی دیکھ لیتا ہےتری تصویر بن کر ہم تری محفل میں رہتے ہیںآغا شاعر قزلباش دہلوی کے تعارف میں شاہد احمد دہلوی کی رائے دیکھے ’’داغ تو میرے پیدا ہونے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے ‘ ہاں آغا صاحب کو متعدد شاعروں میں سننے کی سعادت مجھے نصیب ہوئی۔ ان سے بہتر تحت اللفظ میں نے کسی کو پڑھتے نہیں دیکھا‘ آواز میں وہ کڑک‘ دھمک تھی کہ بڑے سے بڑے مشاعرے میں بھی ان کی آواز آخر تک پہنچ جاتی تھی (اس زمانے میں مائیکرو فون نہیں تھا) اپنا کلام سنانے سے پہلے آغا ضاحب اپنے استاد کے دو ایک شعر تبرکاً ضرور سنایا کرتے تھے۔ ان کا لب و لہجہ شعر کے نفیس مضمون سے اس قدر ہم آہنگ ہوتا تھا کہ شعر میں ڈرامائی کیفیت پیدا ہوجاتی اور سننے والے تڑپ اٹھتے تھے۔‘‘محمود عزیز کا طرز نگارش بھی دیکھی‘ ملاواحدی کے بارے میں لکھتے ہیں۔’’واحدی صاح: دہلی میں اپنا جما جمایا گھر‘ کاروبار اور جائیداد چھوڑ کر کراچی آگئے تھے‘ جہاں ان کو جھگی نشیں بننا پڑا۔ عثمان آزاد کے خلوص مروت نے ان کو روزنامہ انجام کا منیجر بنادیا دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے محکمہ راشنگ میں چار س روپے ماہوار پر ملازمت کرلی تھی جہاں ان کی دیانت اور فرض شناسی کی مثال دی جاتی تھی۔واحدی صاحب گوناں گو خوبیوں کے حامل تھے۔ چنانچہ وہ ایک کامیاب تاجر بھی تھے۔ ان کا منجن‘ خصاب اور دوسری دوائیں خوب فروخت ہوتی تھیں۔ ان کی تصنیفات میں ’’حیات سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ سوانح عمری خواجہ حسن نظامی‘ میرے زمانے کی دلی‘ دلی جو ایک شہر تھا‘ تاثرات وغیرہ مشہور ہوئیں۔ کراچی آکر وہ ناموافق حالات کا مقابلہ کرتے رہے مگر آنکھوں اور کانوں نے جواب دے دیا او ران کے اعصاب کمزور ہوگئے۔ ویسے بھی اٹھاسی سال میں قویٰ میں کہاں اعتدال رہتا ہے‘ مسلسل بول میں مبتلا ہوئے اور غضب یہ کہ فالج کا اثر ہوگیا‘ بالاخر یہ بلبل ہزار داستاں لوگوں کو دہلی کی داستاں سناتے سناتے 17 مئی 1976 ء کو خود بھی داستاں ہوگیا۔‘‘مرا قصہ سنا سن کر ہنسے‘ ہنس کر یہ فرمایاابھی جو کہہ رہے تھے ‘ کیوں جی یہ قصہ کہاں تک ہے(شاعر)محمود عزیز صاحب ہمارے شہر کا اعتبار ہیں‘ اردو زبان سے پیار اور اس کی خدمت مختلف رسائل و جرائد میں وقتاً فوقتاً ہمیں دکھائی دیتی رہتی ہے۔ روزنامہ مقدمہ کراچی کے ادبی صفحہ کے مدیر رہے ۔ پروفیسر خواجہ حمید الدین شاہد کے ماہنامہ ’’سب رس‘‘ میں بطور معاون مدیر خدمات انجام دیں‘ شعری کیلنڈروں کی ترتیب و تدوین میں جو چند اصحاب سرگرم عمل رہے ہیں ان میں آپ کا نام بھی نمایاں ہے۔ آفسٹ پیپر پر نفاست سے شائع کی گئی یہ کتاب فضلی سنز اردو بازار کراچی سے 250 روپے میں حاصل کی جاسکتی ہے۔ تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ بیش بہا خزانہ ہے۔