کراچی کے عوام ’’کے الیکٹرک‘‘ کا شکار

سُرخی سے تو ہمارا موضوع آپ دیکھ چکے ہوں گے کہ وہ اہلِ کراچی کی ایک بڑی اکثریت کے لیے بنے ہوئے دردِ سر یعنی ’کے الیکٹرک‘ کمپنی سے متعلق ہے۔ مگر کے الیکٹرک پر کوئی بات شروع کرنے سے قبل ماضی کی خبروں، واقعات، حقائق، دستاویزات اور کچھ انٹرویوز سے جمع کی گئی کچھ اہم معلومات آپ تک پہنچانا چاہیں گے۔ یہ معلومات آپ کو بغیر گن پوائنٹ، کئی برسوں سے جاری اس کھلی ڈکیتی کے اصل مجرموں کے بارے میں آگہی دیں گی۔ ساتھ ساتھ اِن کی لوٹ مار اور قتل عام پر مبنی حالیہ وارداتوں سے بھی آگہی ہوگی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ لوٹ مار تو سمجھ میں آتا ہے، یہ قتلِ عام کیا ہے؟ تو جناب یہ قتل اس طرح سے ہوئے ہیں کہ حالیہ دنوں (ماہ اگست2017ء) کراچی میں ہونے والی مون سون برسات میں جہاں شہر کراچی کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوا، وہاں کے الیکٹرک کا بچھایا ہوا نظام بھی تلپٹ ہوگیا۔ ایسے میں تاروںکے ٹوٹنے اور حکام کی لاپروائی سے سپلائی لائن کی تاروں میں موجود کرنٹ نکل کر پانی اور کھمبوں میں پھیل گیا جو مختلف اخباری رپورٹس کے مطابق 8 معصوم جانوں کو موت کی نیند سلا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلی بار ہوا ہو، ہر سال اسی طرح کئی جانیں چلی جاتی ہیں، مگر بے چارے عوام صبر کا گھونٹ پی کر گزارا کرلیتے ہیں۔ مگر اِس بار معاملہ یہ ہوا کہ ماڈل کالونی میں رہائش پذیر کے الیکٹرک کے ایک صارف نے کے الیکٹرک کی ہیلپ لائن پر قبل از وقت 22 اگست اور 23 اگست 2017ء کو شکایت درج کرا دی کہ گلی کے کونے پر موجود بجلی کے کھمبے میں کرنٹ پھیل چکا ہے، لہٰذا کھمبے میں کرنٹ کی سپلائی کا معاملہ حل کیا جائے۔ کے الیکٹرک حکام نے حسب معمول لاپروائی سے کام لیا اور شکایت پر کان نہیں دھرے۔ شکایت ریکارڈ ہونے کے کئی گھنٹے بعد شام 4 بجے گلی کا رہائشی 8 سالہ معصوم بچہ اذہان صدیقی گلی میں موجود دیگر بچوں کے ساتھ عیدالاضحی کی تیاریوں میں جانوروں کے ساتھ مگن تھا۔ اسی دوران مذکورہ کھمبے پر ہاتھ لگنے سے، اُس میں پھیلے کرنٹ کی وجہ سے اُس کی موقع پر موت واقع ہوگئی۔ بظاہر تو یہ حادثہ تھا لیکن ایک دن قبل درج کرائی گئی شکایت اور ممکنہ خطرے کا اندیشہ ریکارڈ کرا دینے کے باوجود معاملے کو حل نہ کرنا واضح طور پر ایک قتلِ عمد قرار دیا جا سکتا ہے۔ اصول یہ طے پایا کہ جب صارف کو بجلی دے کر منافع میں اوپر تک حصہ جاتا ہے تو صارف کی جان لینے پر بھی سب کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایک گھرانے نے ہمت پکڑی۔ صبر کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس طرح مزید معصوم زندگیوں کو نہ بچایا جائے، نہ ہی قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گو کہ وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں؟ اُنہوں نے مزید ایسے افراد سے رابطے کی کوشش کی جن کے پیارے اسی طرح کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے، گو کہ بہت زیادہ کامیابی نہیں ہوئی البتہ اُنہوں نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پولیس کہاں اس معاملے میں مدد کرتی! پولیس نے مستقل ٹالنا شروع کیا تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سیشن کورٹ سے اس قتل کی ایف آئی آر کاٹنے کا حکم حاصل کیا۔ اہم بات یہ تھی کہ یہ ایف آئی آر کسی لائن مین، یا منیجر کی سطح کے کسی معمولی شخص کے خلاف نہیں بلکہ کے الیکٹرک کے موجودہ چیف ایگزیکٹو آفیسر طیب ترین کو ملزم نامزد کرکے کٹوائی جارہی تھی۔ تابش گوہر نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر تھانے میں ٹال مٹول کرکے ایک دن ضائع کروایا اور اگلے روز سندھ ہائی کورٹ سے اپنے نام کو ایف آئی آر میں شامل کرنے پر حکم امتناعی لے لیا۔ مرحوم بچے کے گھر والوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے ایف آئی آر اور قانونی چارہ جوئی سمیت دیگر اقدامات سے باز رکھنے کے لیے کئی ہتھکنڈے بھی استعمال کیے گئے، مگر اس وقت مسئلہ کسی ایک ’’اذہان‘‘کا نہیں بلکہ آئندہ برسوں میں ہونے والے کئی اور ’’اذہان‘‘ کا تھا۔ کیس کی سماعت کا سلسلہ جاری ہے، مزید پیش رفت یہ ہوئی کہ اس کیس میں جماعت اسلامی کراچی اور ساتھ ہی دیگر متوفی حضرات کے اہلِ خانہ بھی شامل ہوگئے ہیں۔ میڈیا میں بے پناہ اثر رسوخ کے باوجود کے الیکٹرک اس کیس سے متعلق خبروں کو نہیں دبا سکی ہے۔ کیس کی خاص بات یہ ہے کہ اِس بار مدعی کے پاس اپنے کیس کے خاصے ٹھوس ثبوت اور شواہد موجود ہیں، جن کو غلط ثابت کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ امید ہے کہ عدالتِ عالیہ سندھ اس قتلِ عام پر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کارپوریٹ قاتلوں کو اُن کے انجام تک پہنچاکر ایک تاریخ رقم کرے گی۔
اب ذرا چلتے ہیں کے الیکٹرک کے پس منظر میں۔ 13 ستمبر 1913ء کو بجلی کی سپلائی کی خاطر قائم ہونے والا یہ ادارہ تقریباً نوّے سال تک سرکاری انتظام میں کراچی میں بجلی کی پیداوار اور سپلائی کرتا رہا تھا۔ مختلف سرد و گرم زمانے گزار کر،1995ء سے بدترین خسارے میں ڈوب جانے اور بے شمار کوششوں کے باوجود بدانتظامی، کرپشن، سیاسی عمل دخل کی وجہ سیحالات بہتر نہیں ہوئے تو حکومت نے اس ادارے سے جان چھڑاتے ہوئے 63 فیصد حصص کو بیچنے کا اعلان کیا، جبکہ مزید 10 فیصد حصص ملازمین کو بیچے جانے تھے۔ ویسے تو واپڈا ہی بجلی کی پیداوار اور تقسیم کا ادارہ ہے، لیکن کے ای ایس سی کو کراچی و اطراف میں بجلی کی سپلائی کے حوالے سے ایک الگ مقام حاصل رہا ہے۔ ایک سعودی کمپنی کنوزالوطن نے اس نیلامی میں 73 فیصد حصص کے لیے سب سے بڑی قیمت لگائی مگر وہ حیرت انگیز طور پر اس نیلامی سے اچانک پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے بعد حسن ایسوسی ایٹس جس نے دوسری بڑی بولی لگائی تھی اُسے مناسب قیمت لگانے کا موقع دیا گیا۔ حسن ایسوسی ایٹس خود ایک سرمایہ کار کمپنی تھی جس کے پیچھے ریاض (سعودی عرب) کی الجومعہ گروپ آف کمپنیزکا بڑا حصہ تھا جس میں بعد ازاں جرمنی سے سیمنس بطور ٹیکنیکل پارٹنر بھی کچھ عرصے کے لیے شامل ہوئی۔ یوں نومبر 2005ء میں 15.86 ارب روپے میں کے ای ایس سی کے 73فیصد حصص حسن ایسوسی ایٹس گروپ نے خرید کر ادارے کا انتظام سنبھال لیا۔ یہ خریداری بھی ایک آف شور کمپنی کے ای ایس پاور لمیٹڈ کے ظاہری نام پر کی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ نجکاری کے وقت کے ای ایس سی کے پاس دیگر اداروں سے 22 ارب روپے کی رقم قابلِ وصول تھی۔ مالیاتی مشیر کمپنی کی مدد سے حصص کی قیمت دس روپے سے کم کرکے ساڑھے تین روپے کی گئی، فروخت کے وقت ایک روپیہ بتیس پیسے رکھی گئی جبکہ اُس وقت مارکیٹ میں سات روپے فی شیئر پر اسٹاک ایکس چینج میں خرید و فروخت جاری تھی۔ کرپشن، سیاست اور بدانتظامی کا گند بہت زیادہ تھا، مزید یہ کہ سارے سودے میں گھپلا شامل تھا، خسارہ قابو میں نہیں آرہا تھا، نقصانات بڑھتے جارہے تھے۔ حسن ایسوسی ایٹس نے اپنے پارٹنر کو اس سے باہر نکالنے کے لیے دبئی میں موجود ایک اور سرمایہ کار کمپنی ابراج گروپ سے رابطہ کیا اور ایک پیشکش دے کر کے ای ایس پاور کے شیئرز دلواکر ایک خودساختہ طریقے سے کے ای ایس سی کا اقتدار منتقل کردیا۔ نوید اسماعیل جو اُس وقت کے ای ایس سی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تھے، مستعفی ہوئے اور اقتدار ابراج گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر تابش گوہر کے پاس بطور چیف ایگزیکٹو آفیسر منتقل ہوگیا۔ یوں 2009ء میں اس کی ایک طرح سے دوبارہ فروخت عمل میں لائی گئی اور ابراج گروپ سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ بدترین خسارے کا شکار اس کمپنی نے گزشتہ مالی سال 2016ء میں 32.7 ارب روپے کا منافع کمایا۔ اس سے پچھلے سال منافع28.3 ارب تھا، اور اُس سے پچھلے سال 2014ء میں 12.9ارب روپے منافع بتایا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سب کے بعد بھی کے الیکٹرک نے اگلے سات سال کے لیے نیا ٹیرف نیپرا کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے منظور کرا لیا ہے۔ اس ٹیرف کے مطابق 300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں 20 سے 100 فیصد فی یونٹ قیمت میں اضافہ ہوگا۔ نیپرا نے اس ٹیرف کی منظوری سے قبل کراچی کے مقامی ہوٹل میں عوامی عدالت بھی لگائی جس میں جماعت اسلامی نے مؤثر شرکت کی اور کراچی کا مقدمہ کامیابی سے لڑا، مگر نیپرا، کے الیکٹرک گٹھ جوڑ کامیاب رہا اور ٹیرف میں اضافہ کردیا گیا۔ بظاہر تو سننے میں بڑی اچھی خبر لگ رہی ہے کہ ایک کمپنی بدترین خسارے سے نکل کر محض دو تین سال میں ہی ایک بھاری منافع میں آگئی، مگر اس کے پیچھے لوٹ مارکی جو اندھیر نگری ہماری جیبوں سے وصول کرکے مچائی گئی ہے اُس پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے۔
یہ ابراج گروپ کیا ہے؟ جب ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ دبئی میں ہیڈ کوارٹر رکھنے والی ایک نجی سرمایہ کار کمپنی ہے۔ اس کا مالک عارف نقوی نام کا شخص ہے جو کہ بنیادی طور پرایک پاکستانی شہری اور کراچی ہی کا رہائشی ہے۔ 2002ء میں اس شخص نے اس کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اِس وقت ابراج گروپ دنیا بھر میں 17سے زائد دفاتر کے ساتھ 11 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی ہے۔ اس سب کے پیچھے موجود اصل دماغ عارف نقوی کے بارے میں اُن کی کمپنی پروفائل پر مبنی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ وہ لندن اسکول آف اکنامکس کے گریجویٹ ہیں۔ اس کا بنیادی کام ہی یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں قرضوں میں ڈوبی کمپنیوں کو خریدتے ہیں اور ازسرنو اُن کا انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرکے ان کو مہنگے داموں فروخت کردیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ جادو منتر انہوں نے اہلِ کراچی پر کیا ہے کہ کسی بھی طرح کمپنی میں سرمایہ لگانے والوں کو یہ نہ لگے کہ سرمایہ کسی خسارے میں چلا گیا ہے۔ ہر حال میں، ہر قیمت پر منافع کمانا ہے اور وہ بھی بھاری والا۔ یہ کام عارف نقوی اور اُن کی ٹیم نے کر دکھایا۔ آج سے ایک سال قبل اکتوبر2016ء کی ایک اہم خبر کی جانب آپ کی توجہ چاہوںگا۔خبر کے مطابق ابراج گروپ نے پاکستان کی تاریخ کا اُس وقت کا سب سے بڑا پرائیویٹ سیکٹر کاروباری معاہدہ کیا جس کی مالیت 1.77 ارب ڈالر تھی۔ اس معاہدے کے مطابق ابراج گروپ کو اپنی ایک (بیرونِ ملک)آف شور کمپنی ’کے ای ایس پاور لمیٹڈ‘ کے ماتحت کراچی میں چلنے والی کمپنی ’کے الیکٹرک‘ کے 66.4 فیصد شیئرز شنگھائی الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ کو فروخت کرنا تھے۔ شنگھائی الیکٹرک پاور چین کی اسٹیٹ پاور انوسٹمنٹ کارپوریشن کا ذیلی ادارہ ہے جو کہ بجلی کی پیداوارکے ساتھ توانائی سیکٹر میں کام کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ کراچی کی پبلک ایڈ کمیٹی کے رہنما عمران شاہد نے بتایا کہ ہمارے پاس روزانہ کئی شہری آتے ہیں، ایسی بے شمار شکایات سامنے آئی ہیں جن میں ایک یونٹ یعنی ایک گھنٹے میں ایک ہزار واٹ سے پہلے ہی استعمال ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے میٹر ریڈنگ تیز ہوجاتی ہے۔ گھر والے کہتے ہیں کہ ایسی کوئی ابنارمل اضافی بجلی خرچ نہیں ہورہی تب بھی یونٹ مستقل کیوں بڑھتے جا رہے ہیں؟ جب ایک گھنٹے کے لیے ایک ہزار واٹ کا ایک، یا پانچ سو واٹ کے دو بلب جلا کر چیک کیا گیا تو پتا چلا کہ گھنٹہ بھر کے بجائے پندرہ منٹ میں ہی یونٹ گر جاتا ہے۔
ایک سال گزرنے کے بعد آج اگر آپ ابراج گروپ، کے الیکٹرک اور شنگھائی الیکٹرک کی ویب سائٹ کا ہی جائزہ لیں تو اس نتیجے پر تو ضرور پہنچیں گے کہ یہ سودا بھی کے الیکٹرک کے دیگر فراڈ کی طرح ایک دھوکا ہے۔ ابراج گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور کے الیکٹرک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں آج کی تاریخ میں پائی جانے والی یکسانیت بہت کچھ ظاہر کررہی ہے۔ یہ دھوکا دہی ابراج گروپ بطور فرنٹ مین انجام دے رہا ہے۔ جہاں تک شنگھائی الیکٹرک کا معاملہ ہے تو وہ بھی ایک کاغذی یا ویب سائٹ پر مشتمل ایک آف شور کمپنی ہی ہے جیسے کہ کے ای ایس پاور ہے جس کے لیے بلوم برگ بھی مدد کرسکتا ہے۔ اپنے گناہوں کو الجومعہ گروپ کی طرح ابراج اور پھر شنگھائی کا عنوان دینے کی سازش کے پیچھے جہاں اربوں روپے کی چمک دمک موجود ہے وہاں اس سازش کا پردہ چاک کرنے اور حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔