کراچی میں تعلیمی مسائل

نوید خان
تعلیم اور صحت زندگی کی دو بنیادی ضروریات میں شامل ہیں، بنیادی ضروریات و سہولیات لوگوں کو ملتی رہیں تو ملک و قوم کی بنیاد بھی مظبوط ہوتی ہے۔کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، جس کی آبادی ایک کروڑ سے بھی زائد ہے، تعلیمی ادارے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں، ان میں سرکاری اداروں سے کہیں زیادہ ( private )نجی ہیں،۔لیکن مجموئی طور تعلیمی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ تعلیم کی اہمیت و ضرورت مرد و عورت دونوں کیلئے یکساں ہے، یہ سب کا حق ہے، کوئی قوم تعلیم کے بغیر ترقی کرلے ایسا ممکن نہیں۔ پاکستان میں تعلیمی معیار بلند کرنا اشد ضروری ہے، تاکہ ہر طالب علم اعلی تعلیم حاصل کرے۔ تعلیم کا معیار کم ہونا اور تعلیمی اخراجات زیادہ ہونا ایک قومی مسئلہ ہے۔ حکومت کی طرف سے اس بارے میں پالیسی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔
گزشتہ جمعہ کراچی میں تعلیمی مسائل کے موضوع پر رحمت ایجوکیشن سینٹر نیو کراچی میں الخدمت اور جسارت میڈیا گروپ کے تعاون سے ایک فورم منعقد کیا گیا۔ اس میں تعلیمی ماہرین، اساتزہ، والدین اور طلبہ نے شرکت کی۔ اس فورم میں تعلیمی مسائل پر باہمی تبادلہ خیال (discuss) کیا گیااور تجاویز پیش کی گئیں۔ اس کی تفصیل یہاں درج ہے۔
اسکولوں کالجوں کا جائزہ لیا جائے تو تقریبا 95 فیصد اداروں کا معیار تعلیم بہت کم ہے۔ اسکول کے 10سال اور کالج کے 2سال یعنی 12 سال کی مدت کافی ہوتی ہے، اتنے عرصہ میں طلبا کو بہت تعلیم و ہنر سکھایا جاسکتا ہے، لیکن اتنے عرصہ میں بھی طلبا کی قابلیت کم سطح پر اور غیر اطمینان بخش ہوتی ہے، یہ صورتحال تمام سرکاری و نجی اسکول کالجز سے فارغ التحصیل طلبا کی مجموئی طور پرہے۔اس لئے ان اداروں کو اپنے طریقہ تدریس میں بہت تبدیلی improvement کی ضرورت ہے۔ ذیادہ تر نجی اسکول کالجوں میں مخلوط طریقہ تعلیم Co-education ہے، پورے ملک میں مخلوط طریقہ تعلیم کوختم ہونا چاہئے، سیکنڈری اسکول سطح سے ڈگری لیول تک۔ کیونکہ پاکستان میں مخلوط طریقہ تعلیم سے تدریسی عمل میں بہت رکاوٹ پیدا ہوئی ہے،جو لوگ شعبہ تدریس سے منسلک ہیں انھیں بخوبی علم ہے کہ مخلوط تعلیم سے کیا نقصانات ہوتے ہیں۔ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا بڑی تعداد میں ہونا اگرچہ فائدہ مند ہے، لیکن ان میں زیادہ تر اداروں کی فیس بہت زیادہ ہے، اور متوسط طبقہ کے والدین کیلئے ان کی فیس ادا کرنا دشوار ہوتا ہے لیکن اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر والدین اپنی دوسری ضروریات روک کر ان کی فیس ادا کرتے ہیں۔نجی اسکولز میں اکثر نے ایسے اساتزہ رکھے ہیں جن کو پڑھانے کا تجربہ نہیں ہوتا، اور وہ ٹھیک طرح سے طلبا کو ان کا سلیبس سمجھا نہیں پاتے۔ایسے اساتزہ کو کم سیلری پر رکھا جاتا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کی اپنی جگہ اہمیت و افادیت ہے، ان کی بڑی تعداد کی وجہ سے لاکھوں طلبا بھاری فیس اور قیمتی وقت صرف کرنے کے بعد کچھ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ نجی ادارے بغیر فیس نہیں چل سکتے، سرکاری اداروں میں تعلیم مفت ہے یا بہت کم ہے تو غیر سرکاری اداروں میں پڑھنے والے کم فیس کیسے پڑھیں۔میٹرک اور انٹر کلاسز کے سالانہ امتحانات کا نتیجہ ہر سال کئی ماہ کے بعد بتایا جاتا ہے، یہ نتیجہ میٹرک اور انٹربورڈ کی طرف سے اگر جلد بتادیا جائے تو بہتر ہوگا کہ فیل شدہ طلبا و طالبات مناسب وقت پر تیاری کرکے دوبارہ سے امتحان پاس کرسکیں۔طلبا روزانہ4 سے5 گھنٹے اسکول کالج میں گزارنے کے باوجود پورے سال کا سلیبس مکمل نہیں کرپاتے اس باعث وہ ٹیوشن سینٹر جوائن کرتے ہیں، یا ہوم ٹیوشن پڑھتے ہیں۔ اس وقت پورے کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں ٹیوشن سینٹرز ہیں۔ ان ٹیوشن سینٹرز میں بھی مخلوط طریقہ تعلیم ہے، یہ مکمل کاروباری طرز پر ہیں، یہا ں بھی تعلیم غیر معیاری ہے، ان کا مقصد طلبا کو صرف امتحان کی تیاری کرانا ہوتا ہے۔
لیکن بہرحال طلبا یہاں سے بھی کچھ تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔سب طلبا کاگردگی میں برابر نہیں ہوتے ۔اساتزہ کو چاہیے کہ فیل شدہ طلبا پر محض تنقید کرنے اور ان کے والدین کو شرمندہ کرنے کے بجائے ان کے والدین سے ڈسکس کرکے وجوہات معلوم کریں۔ کیونکہ والدین کسی مجبوری کے باعث بچوں کو توجہ نہ دے سکیں یا بچوں کو گھر پر مناسب ماحول اور سہولیات میسر نہ ہوں تو وہ پڑھائی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ بہت بہتر ہوگا کہ اسکولز میں تعلیم اور نفسیات کے ماہرین تمام طلبا کا تعلیمی اور نفسیاتی تجزیہ کریں اور انھیں ضروری گائڈ لائن فراہم کریں۔ تاکہ وہ اپنی پڑھائی کا معیار بڑھاسکیں یا اسے کم از کم برقرار رکھ سکھیں۔ عام اساتزہ یہ تجزیہ اور گائڈ لائن نہیں دے سکتے، یہ کام ماہرین کرسکتے ہیں۔ والدین اور اساتزہ کے درمیان باہمی تبادلہ خیال(discussion) ہونا چاہئے۔سرکاری و نجی اداروں کے اساتزہ کے تربیتی سیشن ہونا چاہئے تاکہ وہ طلبہ کو محنت اور بہتر(professional) طریقے سے پڑھاسکیں۔