نام کتاب
:
مقالات عبدالستار صدیقی (جلد اوّل)
مرتب
:
مسلم صدیقی
صفحات
:
316 قیمت 400 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلس ترقی ادب لاہور
فون نمبر
:
042-99200856
042-99200857
ای میل
:
majlista2014@gmail.com
’’مجلس ترقی ادب سے کچھ عرصہ پہلے مقالاتِ عبدالستار صدیقی جلد دوم کی اشاعت ہوئی تھی جس کا تعارف ہم نے فرائیڈے اسپیشل میں کرایا تھا۔ اب جلد اول بھی مجلس نے طبع کرادی ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب فرماتے ہیں:
’’اردو کے ممتاز اور نامور ماہرِ لسانیات عبدالستار صدیقی (1885۔1972ء) اپنے کثیراللسانی پس منظر اور وسعتِ نگاہ کے باعث اردو تحقیق اور تاریخی و تقابلی لسانیات کے میدان میں انگشت شمار حضرات میں محسوب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کم لکھا مگر جتنا لکھا اُس پر قدرِ اوّل کی ترکیب کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے تاریخ کو تحقیق سے مربوط کیا۔ ان کا تحقیقی اسلوب جذبات اور جذباتیت سے عاری خالصتہً علمی اور تعقلاتی تھا۔ عربی، فارسی، پہلوی، ہندی، سنسکرت ، جرمن اور انگریزی زبان و ادب پر ان کی نظر عمیق تھی۔ انہوں نے عبرانی، سریانی اور ترکی سے بھی کسی قدر واقفیت بہم پہنچائی۔ وہ لفظوں کی عہد بہ عہد موجودگی اور ان کے اوضاع و تغیرات، فرہنگوں کی صحت و سقم، ہر دور کے لفظی و لسانی نظائر اور وضع اصطلاحات کے باب میں گہری نظر کے حامل تھے۔
تاریخی و تقابلی لسانیات سے صدیقی صاحب کی اطمینان بخش بلکہ حیران کن آگاہی کے شواہد ان کے مقالات اور متعدد دیگر تحریروں میں قدم بہ قدم نظر آتے ہیں ۔ دخیل الفاظ کے موضوع سے انہیں خصوصی دلچسپی تھی۔ انہوں نے اس موضوع پر تحقیق کے ضمن میں کم و بیش سات برس یورپ میں گزارے تھے اور ’’کلاسیکی عربی میں فارسی کے مستعار (دخیل) الفاظ‘‘ کے زیر عنوان جرمن زبان میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا تھا۔
کم و بیش دو برس پہلے مقالاتِ عبدالستار صدیقی کے غیر مدون مقالات کی دوسری جلد مجلس ترقی ادب کے زیر اہتمام شائع ہوکر اربابِ نظر سے خراجِ توصیف وصول کرچکی ہے۔ 1983ء میں ان کے مقالات کی پہلی جلد ان کے صاحبزادے مسلم صدیقی نے (صدیقی صاحب کی نظرثانی کے بعد) شائع کردی تھی۔ اس جلد میں صدیقی صاحب کی 1910ء سے 1961ء تک کی تحریروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ جلد زیادہ تر لسانی مباحث پر مشتمل ہے مگر اس میں ایسے ایسے چشم کشا موضوعات کو زیر بحث لایاگیا ہے کہ ان کی داد دیے بغیر چارہ نہیں۔ ’’ہندستان بغیر وائو کے‘‘،’’لفظ سُغد کی تحقیق‘‘،’’بغداد کی وجہ تسمیہ‘‘،’’ذالِ معجمہ فارسی میں‘‘، ’’بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق‘‘، ’’معرب لفظوں میں حرفِ قاف کی حیثیت‘‘ اور ’’معائبِ سخن کلامِ حافظ کے آئینے میں‘‘ وغیرہ میں انہوں نے خوب دادِ تحقیق دی ہے۔ یہ مقالات جہاں فکر و نظر کے لیے نئے دریچے وا کرتے ہیں وہیں مزید تفتیش، تحقیق اور تفحص پر بھی مائل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چند ایک نتائجِ تحقیق سے اختلاف کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے جس کے بعض شواہد مقالاتِ عبدالستار صدیقی جلد دوم میں شامل میرے تفصیلی مقدمے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ زیرنظر مقالات میں ایک جگہ انہوں نے لفظ ’’چیدن‘‘ کے معادل ’’چنیدن‘‘ کو لغو قرار دیا ہے۔ میرے نزدیک ’’چیدن‘‘ کا مترادف ’’چنیدن‘‘ بھی درست ہے۔ دراصل پہلوی میں یہ لفظ چِنیدن اور چِنیتن (چ بالکسرہ) کے طور پر موجود رہا ہے۔
’’مقالاتِ عبدالستار صدیقی‘‘ کی جلد دوم شائع کرنے کے بعد یہ خیال دامن گیر رہا کہ قارئین ِاردو ادب کو عبدالستار صدیقی کے مقالات کی پہلی جلد کے حاصلات و افادات سے کیوں محروم رکھا جائے۔ اسی احساس کے تحت اترپردیش اکادمی کے شکریے کے ساتھ یہ پہلی جلد مقالاتِ عبدالستار صدیقی (جلد اوّل) کے نام سے پاکستان میں پہلی بار شائع کی جارہی ہے۔
امید ہے قارئین کرام اب ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کے مقالات سے کلیۃً نہ سہی بہت حد تک استفادہ کرسکیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ مرحوم کے چند مقالات اب بھی موجود ہیں جو تدوین کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ایسے مقالات کا حصول آسان نہیں۔ کوشش جاری ہے۔ ہمدست ہونے پر ان پر مشتمل تیسری جلد بھی اشاعت کی روشنی دیکھ لے گی۔ ان شاء اللہ۔‘‘
مرتب کتاب مسلم صدیقی ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کے صاحبزادے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
’’ایسی وادی میں قدم رکھتے جی ڈرتا ہے جس کی اونچ نیچ سے میں یکسر ناواقف ہوں، مگر والد مرحوم کے جو اہم مقالے برعظیم کے مؤقر جریدوں میں بکھرے پڑے ہیں ان کی تدوین اور اشاعت ایک فریضہ ہے، اخلاقی اعتبار سے اور ادبی نقطۂ نظر سے بھی، اور اب کہ مرحوم اس دنیا میں نہیں رہے، یہ خدمت چاروناچار مجھی کو انجام دینی ہوگی۔
ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ہندوستان کے اُن چند گوشہ نشین اہلِ علم میں سے تھے جو ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر خاموشی سے اپنے کام میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ ساری عمر شہرت پسندی اور خودنمائی سے کوسوں دور اَوروں کی رہنمائی ہی میں مسرور رہے۔ اسی وجہ سے ان کی کوئی مستقل تصنیف کتابی شکل میں موجود نہیں، چنانچہ مولانا سلیمان ندوی مرحوم نے فرمایا کہ وہ ’’علم میں خیام کی طرح بخیل ہیں اور قلم کو بہت کم حرکت دیتے ہیں‘‘۔ اس کے باوجود اُن کے گراں بہا مقالوں کو دو تین جلدوں میں شائع کرنا ممکن ہے۔
مدتوں سے خیال تھا کہ مرحوم کے منتشر مقالوں کو جو 1905ء (’’صحیح اور غلط اردو‘‘ اردوے معلیٰ، علی گڑھ، اکتوبر 1905ء) سے لے کر 1961 عیسوی تک چھپتے رہے، یکجا کرکے شائع کرادوں، چنانچہ مقالے اکٹھا بھی کرلیے اوران کی فہرست بناکر میں نے صدیقی صاحب کو دکھادی جسے انہوں نے پسند کیا اور بعض ایسے مقالوں کی نشاندہی کی جن کا مجھے علم نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کچھ مفید مشورے بھی دیے۔ اس طرح کم و بیش ایک مکمل خاکہ ان کی تحریروں کا میرے قبضے میں آگیا، لیکن بیشتر مقالوں میں اس قدر ترمیم و اضافہ اور حک و اصلاح ہوئی تھی کہ ان کی صورت ہی کچھ اور ہوگئی، اس لیے ان کی تہذیب و تدوین کا کام آہستہ آہستہ ہوا، کیونکہ مختلف نسخوں سے مقابلہ کرکے صحیح متن قائم کرنے میں خاصا وقت لگتا رہا۔ یہاں تک کہ 1972ء میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا انتقال ہوگیا۔
1980ء میں میری مراسلت رشید حسن خاں صاحب سے ہوئی اور انہوں نے فرمایا کہ یہ مقالے اب نہ شائع ہوئے تو کبھی نہ چھپ سکیں گے، چنانچہ کتابت شروع ہوگئی اورموصوف سے صلاح مشورہ جاری رہا۔ نتیجہ یہ کہ پیش نظر جلد جس کے بیشتر مقالے لسانیاتی تنقید اور تحقیق کے حامل ہیں، آج پڑھنے والوں کے سامنے ہے اور دوسری جلد کا ڈول بھی ڈالا جاچکا ہے جس کے دو حصے ہوں گے۔ پہلے میں غالبیات اور دوسرے میں عام مضامین۔
ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں ہوئی جہاں انہوں نے فارسی زبان اور خطّاطی کے نکات اپنے ماموں منشی عالم علی شوخی (’’بوستانِ اودھ‘‘ از کنور درگا پرشاد (1892ء، ص 360) اور ’’مشاہیر کاکوری‘‘ (1927ء، ص 232) میں عالم علی شوخی کا ذکر ملتا ہے) سے سیکھے۔ جب علی گڑھ پہنچے تو مولوی خلیل احمد اور پروفیسر جوزف ہورووتس کی شاگردی سے فیض حاصل کیا۔
طالب علمی کے زمانے سے ہی پروفیسر صدیقی صاحب کو تحقیقِ الفاظ، صَرف نحو، صحتِ املا اور علم لسانیات کے اصول سے گہری دلچسپی پیدا ہوگئی تھی، چنانچہ اس جلد میں سب سے پرانا مضمون ’’اُردو صَرف۔ نحو کی ضرورت‘‘ 1910ء کا ہے جس کو خود مصنف ’’نادانی کے دور کا لکھا ہوا مضمون‘‘ بتاتے ہیں۔ 1912ء میں وہ حکومتِ ہند کے وظیفے پر عربی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد 1919 عیسوی میں وطن واپس آئے۔ یورپ کے اس طولِ قیام نے ان کو مختلف قدیم زبانوں جیسے عبرانی، سُریانی، لاطینی، یونانی، سنسکرت اور پہلوی وغیرہ کی وسیع معلومات حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا اور ’’تقابلی لسانیات‘‘ کے اصول سے کماحقہٗ روشناس کرایا۔ وہاں پروفیسر نوئلدیکے، اندریاس اور لتمان جیسے مشہور اساتذۂ فن کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا، جس نے ان کے ذوقِ تحقیق پر صیقل کا کام کیا۔
پروفیسر صدیقی کو اردو زبان سے ہمیشہ بڑا شغف رہا اور وہ سہل اور سادہ زبان لکھنے کے حق میں تھے۔ اپنی تحریروں میں عربی فارسی کے بوجھل الفاظ کے بجائے سیدھے سادے اردو، ہندی لفظوں کو ترجیح دیتے تھے۔ صَرف نحو اور املا کے قواعد مرتب کرنے اور جزیوں سے کلیے قائم کرنے میں مہارت حاصل تھی اور الفاظ کی اصل کا کھوج لگا کر غلط نظریوں اور مفروضوں کی اصلاح کرتے رہتے تھے۔ یہ بھی التزام تھا کہ ہر تحریر حتیٰ کہ نجی خطوں میں بھی اعراب پابندی سے لگایا جائے۔
عبدالستار صدیقی لغت پَرداز بھی تھے، تنقید نگار بھی، مگر وہ اوّل سے آخر تک ایک معلم تھے اور بڑے سوچ بچار کے بعد رائے قائم کرتے تھے۔ اس لیے ان کا ہر مشورہ غور اور عمل کرنے کے لائق ہوتا تھا۔‘‘
مصنف کتاب جناب ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کے مختصر سوانح بھی ہم یہاں درج کرتے ہیں:
نام
:
عبدالستار صدیقی
پیدائش
:
سندیلہ۔ ضلع ہردوئی۔ 26 دسمبر 1885 م، 29 ربیع الاوّل 1303 ھ
والد
:
مولوی عبدالغفار (متوفی 1918ء) ریاست حیدرآباد میں بہ حیثیت سررشتہ دار مال تعینات تھے۔ عبدالستار صدیقی نے ابتدائی تعلیم مدرسۂ فوقانیہ گلبرگہ، سٹی ہائی اسکول حیدرآباد اور چادر گھاٹ اسکول میں حاصل کی۔
1907 ء
:
میٹری کلیشن کے بعد علی گڑھ چلے آئے۔ وہاں سے پڑھ کر 1907 ء میں بی۔ اے کیا اور ایم۔اے کے پہلے سال میں داخل ہوگئے۔ پھر صوبہ متوسط میں ملازمت کرلی۔
1909-10ء
:
گورنمنٹ ہائی اسکول کامٹی میں فرسٹ اسسٹنٹ ماسٹر رہے۔
1910-11 ء
پٹوردھن گورنمنٹ ہائی اسکول ناگ پور میں فرسٹ اسسٹنٹ ماسٹر رہے۔
1912 ء
:
ملازمت سے استعفا دے کر علی گڑھ واپس آگئے تھے اور 1912 ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اُسی سال سرکارِ ہند نے جرمنی میں عربی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفہ دیا۔ ستمبر 1912ء میں لندن پہنچے اور اکتوبر میں اشتراس بورگ یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔
1912-13 ء
:
پروفیسر لتمان سے عربی اور سُریانی، پروفیسر نوئلدیکے سے فارسی اور پروفیسر تھمب سے قدیم فارسی پڑھی۔
1913-19 ء
:
گوئے ٹنگن یونیورسٹی میں پروفیسر لتمان سے عربی، سُریانی اور ترکی پڑھی۔ پروفیسر رالف سے عبرانی اور سُریانی، پروفیسر اندریاس سے اَوِستا، پہلوی اور جدید فارسی، پروفیسر مورس باخ سے انگریز صوتیات، پروفیسر اولڈن برگ سے سنسکرت صرف نحو اور ڈاکٹر ہاگین سے فنونِ لطیفہ کی تاریخ کا درس لیا۔
1916 ء
:
لاطینی زبان کا امتحان پاس کیا۔
1917ء
:
پی ایچ۔ ڈی کے امتحان میں ’’اعلیٰ اعزاز‘‘ کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ مقالے کا عنوان تھا: ’’قدیم عربی میں دخیل فارسی الفاظ‘‘۔
1919 ء
:
مقالہ شائع ہونے پر پی ایچ۔ ڈی کی باضابطہ سند عطا ہوئی۔
1920 ء
:
احادیث میں مستعمل الفاظ کا انڈیکس بنانے میں یورپی مستشرقین کے ساتھ شریک رہے۔ فروری 1920ء سے ستمبر تک ایم اے او کالج علی گڑھ میں عربی کے پروفیسر رہے۔
1920-24ء
:
عثمانیہ یونیورسٹی کالج حیدرآباد کے پرنسپل رہے۔
1924-28ء
:
ڈھاکا یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کی صدارت کی۔1925ء اور 1927 ء کے دوران انسائیکلو پیڈیا آف اسلام (لائڈن) کے لیے چند مضمون لکھے۔1926 ء میں اورینٹل کانفرنس الٰہ آباد کے عربی فارسی کے صدر ہوئے۔ 1927ء میں بمبئی یونیورسٹی کی دعوت پر ’’ولسن فلولاجکل‘‘ خطبے دیے۔
1928-46 ء
:
الٰہ آباد یونیورسٹی میں عربی فارسی شعبے کے پروفیسر اور صدر رہے اور ریٹائر ہونے پر ای میری ٹس پروفیسر مقرر ہوئے۔ لنگوئسٹک سوسائٹی آف انڈیا کے اساسی ممبر اور اورینٹل کانفرنس اور انجمن ترقی اردو کے لائف ممبر تھے۔
1961 ء
:
صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اعزاز اور خلعت سے نوازا۔
1972ء
:
28جولائی 1972 ء (م16جمادی الثانی1392ھ) کو الٰہ آباد میں وفات ہوئی۔
مجلس ترقی ادب اور ڈاکٹر تحسین فراقی شکریے کے مستحق ہیں جو اس قسم کی علمی کتب شائع کررہے ہیں۔ یہ تمام کتب محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومت ِپنجاب کے تعاون سے شائع ہوتی ہیں، اس علم پروری پر محکمہ اطلاعات اور ثقافت حکومتِ پنجاب بھی توصیف و تحسین کا حقدار ہے۔ مسلمان حکومتوں نے ہمیشہ علم اور علماء کی سرپرستی کی ہے۔ اس زندہ روایت کی پیروی کرنے پر حکومتِ پنجاب بھی شکریے کی مستحق ہے۔
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔