انتخابات سے قبل ‘ سیاسی منظرنامہ

موسم بھی بدل رہا ہے اور سیاست کا مزاج بھی۔ کچھ پھول مسلے جارہے ہیں اور کچھ نئی کلیاں پھول بن رہی ہیں۔ ملک کا سیاسی نظام ایک ایسی نہج پر چل نکلا ہے کہ جمہوریت اور اسلام کے نام پر ووٹ لے کر مغرب نواز سیاسی قوتیں اقتدار میں آرہی ہیں، دینی جماعتوں کا ووٹ بینک وقت کے ساتھ ساتھ سکڑ رہا ہے، یہ ووٹ بینک کسی حد تک غیر مؤثر بھی ہوتا چلا جارہا ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ میں موجود تینوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف جمہوریت اور اسلام پسندی کا تاثر برقرار رکھتے ہوئے مغرب نوازی اور لبرل ازم کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے عملی طور پر کسی بھی حد کو پار کرنے کو تیار بیٹھی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا یہ طرزِ فکر اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی قابلِ اعتراض نہیں ہے۔ اس کی نظر میں تابعداری اور وفاداری اصل معیار ہے۔ یہی معیار ذہن میں رکھ کر سیاسی صورتِ حال کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔
ملک کی سیاسی صورتِ حال کو خطے کے مسائل سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ہمارے اندرونی حالات افغانستان اور بھارت کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے غیر معمولی دبائو کا شکار ہیں۔ امریکہ، بھارت اور افغانستان کی ٹرائیکا اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے پاکستان کو دبائو میں رکھنا چاہتی ہے۔ نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تنائو کی بڑی وجہ بھی یہی ٹرائیکا ہے۔ واشنگٹن، کابل اور دہلی تینوں سمجھتے ہیں کہ نوازشریف اس خطے میں ان کی پالیسی کے بہترین وکیل ہیں، اسی لیے امریکہ اور برطانیہ مسلسل کوشش میں ہیں کہ نوازشریف کو ریلیف مل جائے۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں ایسی کوئی صورتِ حال بن جائے، اگر ایسا ہوا تو یہ فیصلہ بڑی شرائط طے کرنے کے بعد ہوگا۔ نوازشریف کے دورۂ سعودی عرب اور امریکی وزیر خارجہ کے دورۂ اسلام آبادکے بعد صورتِ حال تبدیل ہوسکتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد کیا منظر بنے گا اس کے لیے تھوڑا سا انتظار درکار ہے۔ اسی پس منظر کو سامنے رکھ کر حالات کا تجزیہ ہوسکتا ہے، اس حوالے سے فی الحال اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم اس ہفتے سیاسی لحاظ سے نہایت اہم پیش رفت ہوئی ہے، لہٰذا مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت پاناما فیصلے کے بعد مسلسل دبائو میں ہے۔ اس دبائو سے نکلنے کے لیے پہلے وہ دفاعی اور جارحانہ مزاج ساتھ ساتھ لے کر چل رہی تھی، اب اسے فیصلہ کن صورتِ حال کا سامنا ہے، جہاں اب اسے فیصلہ کرنا ہے کہ دفاعی طرزِ سیاست اختیار کرنا ہے یا جارحانہ طرزِعمل جاری رکھنا ہے۔ دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے دو بڑے ستون چودھری نثار علی خان اور شہبازشریف بھی اس حوالے سے امتحان سے گزر رہے ہیں۔ دو سال سے یہ دونوں اس کوشش میں تھے کہ نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تعلقاتِ کار بہتر ہوجائیں۔ دونوں اس بات کی بھی یقین دہانی کرا رہے تھے کہ اگر انہیں وقت اور موقع دیا جائے تو صورتِ حال میں بہتری لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن نوازشریف نے دونوں کے مشورے نظرانداز کیے، بلکہ ان کا یہ مؤقف رہا کہ ’’آخری حد تک جاکر اور ساری باتیں مان کر بھی اگر مفاہمت تسلیم نہیں کی جارہی تو جھک کر کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔ اسلام آباد میں دھرنوں سے لے کر پاناما کیس تک نوازشریف کا یہی مؤقف رہا۔ پاناما کیس کے بعد ان کے رویے میں سختی آگئی۔ دوسری جانب ان کا گرم تعاقب بھی جاری ہے۔ پارلیمنٹ سے نااہل شخص کے کسی بھی سیاسی جماعت کا عہدیدار بننے پر پابندی کے قانون کے بعد تو دبائو اس حد تک بڑھادیا گیا اور صاف صاف کہہ دیا گیا کہ مسلم لیگ(ن) اگر کوئی فیصلہ نہیں کرتی تو وفاقی حکومت اسلام آباد اور پنجاب حکومت لاہور تک محدود کردی جائے گی۔ طاہرالقادری کا لاہور میں دھرنا اور تحریک انصاف کا لوگوں کو ایک بار پھر سڑکوں پر لانے کا اعلان… اس کا پس منظر بھی یہی تھا۔ اس دھمکی کے بعد شہبازشریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کی ملاقات ہوئی ہے جس میں طے کیا گیا کہ جارحانہ سیاست نہیں کی جائے گی اور زبان بھی بند رکھی جائے گی۔ اس ملاقات کے بعد شہبازشریف نے پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر سے ملاقات کی جس میں معاملات حل کرنے میں مدد دینے کی درخواست کی گئی۔ نوازشریف کے لندن سے سعودی عرب جانے کا پس منظر بھی یہی ہے۔ اس وقت امریکہ، برطانیہ اور ترکی کسی حد تک اس کوشش میں ہیں کہ معاملات طے پاجائیں اور اس کے نتیجے میں مقدمات بھی ختم ہوجائیں، اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر حالات بھی معمول پر آجائیں۔ ان کوششوں کے نتائج بھی آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آجائیں گے۔ شہبازشریف اور چودھری نثار علی خان اس کوشش میں ہیں کہ کچھ عرصے کے لیے نوازشریف کو سیاست سے الگ رہنے پر راضی کرلیا جائے۔ لیکن اصل فیصلہ نوازشریف کو ہی کرنا ہے۔ یہ دونوں خواہش کے باوجود بغاوت نہیں کرسکتے۔
جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے اُسے سندھ میں مزید محدود کرنے کے لیے جال پھینکا جاچکا ہے اور سندھ میں مسلم لیگ کھڑی کی جارہی ہے۔ میر ظفر اللہ جمالی، غوث علی شاہ، چودھری شجاعت حسین، حامد ناصر چٹھہ جیسے رہنماء پیر پگارا کے ہم رکاب ہوں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے لیے سندھ میں مسلم لیگ کے رہنماء پیر پگارا، اور جہاں جہاں گنجائش ہوگی وہاں تحریک انصاف کے لیے جگہ بنائی جارہی ہے۔ نوازشریف کے لیے حالات سازگار نہ رہے تو آصف علی زرداری کے لیے سیاست میں رہنا مشکل بن جائے گا۔ پیپلزپارٹی میں بلاول کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں، لیکن مسلم لیگ(ن) میں مریم نواز کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں البتہ اس قافلے سے عمران خان کے بجائے سرپرستی کے لیے اسد عمر کو نیا کھلاڑی چن لیا گیا ہے۔ گورنر سندھ محمد زبیر نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔
عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں الگ الگ مقدمات زیر سماعت ہیں۔ یہ مقدمات ان اداروں کے لیے ایک بڑا امتحان بننے جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے ریمارکس ہیں کہ عدالت اس بات کا جائزہ لے گی کہ پارلیمنٹرین کی حیثیت سے عمران خان نے جھوٹ بولا ہے یا نہیں، اور سپریم کورٹ پاناما کیس کے فیصلے سے بھی رہنمائی لے گی۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور کسی سیاسی جماعت سے بلیک میل نہیں ہوگا۔ فواد چودھری نے کوشش کی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات ہوجائے، لیکن چیف الیکشن کمشنر نے اُن سے تنہائی میں ملاقات سے انکار کردیا، اس انکار کے بعد تحریک انصاف بھڑک اٹھی اور کہا کہ ’’ابھی تو ہم نے چیف الیکشن کمشنر کی گاڑی کا ہی سوال اٹھایا ہے‘‘۔ اس کے ردعمل میں ترجمان الیکشن کمیشن کا بیان آیا کہ ’’کسی سیاسی جماعت سے بلیک میل نہیں ہوں گے‘‘۔ تحریک انصاف میں عمران خان کے مشیر انہیں یہاں تک لے آئے ہیں کہ جہاں وہ خود تو آئینی اداروں کے مقابل کھڑے ہیں اور شہبازشریف کو للکار رہے ہیں کہ حدیبیہ کیس میں این آر او نہیں لینے دیا جائے گا، مک مکا ہوا تو قوم کو سڑکوں پر لائوں گا۔ اس کی نوبت آئے گی یا نہیں، فی الحال اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مسلم لیگ(ن) اگرچہ پریشان ہے کہ نوازشریف، مریم نواز اورکیپٹن (ر) صفدر پر فردِ جرم عائد کردی گئی ہے، لیکن سپریم کورٹ میں تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے کی نظرثانی اپیل بھی دائر کررکھی ہے۔ اس کی استدعا تھی کہ فردِ جرم نہ لگائی جائے، لیکن عدالت نے کارروائی کے دوران سوچ بچار کے لیے پانچ بار غیر معمولی وقفے کیے اور پھر فردِ جرم عائد کردی۔ فردِ جرم لندن فلیٹس، العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنسز پر عائد کی گئی ہے، جس کے بعد نوازشریف نے بیان جاری کیا کہ شفاف ٹرائل میرا حق ہے لیکن ہمیں فیئر ٹرائل کے بنیادی حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس بیان کے بعد نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے تمام اثاثے منجمد کردیئے۔ تفصیلات کے مطابق نیب نے اسحاق ڈار کے اثاثے منجمد کرنے کی رپورٹ احتساب عدالت میں جمع کرا دی ہے کہ وزیر خزانہ کے تمام منقولہ اور غیرمنقولہ اثاثے منجمد کردیے۔ نیب ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ اور پارلیمنٹ ہائوس میں قائم بینک کے افسر عبدالرحمان گوندل کا بیان ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گواہ نے اسحاق ڈار کے بینک اکائونٹ کی تفصیلات بھی فراہم کردیں۔
فردِ جرم کے بعد ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے بیان جاری کیا کہ پاک فوج ہمارا ادارہ ہے اور پوری قوم سمیت ہم سب اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں، فوج ہماری حفاظت کی جنگ لڑتی ہے لیکن اداروں کے مابین باہمی احترام بھی ہونا چاہیے۔
ملک کی تیزی سے رنگ بدلتی ہوئی سیاست میں ایک کردار ایم کیو ایم پاکستان کا بھی ہے، اسے بھی حکم دے دیا گیا ہے کہ سیاسی عمل میں انتخابات سے قبل یہ بات ثابت کرنا ہوگی کہ وہ کھلے اور چھپے، اعلانیہ اور غیر اعلانیہ الطاف حسین سے الگ ہوچکی ہے، لیکن وہ ابھی تک یہ بات ثابت نہیں کرسکی، اسی لیے یہ فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ آخری بار مہلت دی جائے تاکہ وہ لندن سے الگ ہونے کا عملی ثبوت فراہم کرسکے۔ دوسری صورت میں اس کی بوری میں ہونے والا سوراخ بڑھتا چلا جائے گا۔