اداریہ… تازہ امریکی حکم نامہ

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن‘ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے مشترکہ طور پر ملاقات کے بعد دہلی چلے گئے۔ اسلام آباد آنے سے قبل ریکس ٹلرسن نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کٹھ پتلی صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد پاکستان کو دھمکی دینا ضروری سمجھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان اپنے ہاں دہشت گرد گروپوں کے بارے میں آنکھیں کھولے‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اسلام آباد اپنے ہاں موجود طالبان اور دیگر انتہا پسندوں کے خلاف ایکشن لے یا نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔‘‘ کابل سے اسلام آباد کے لیے روانگی سے قبل پریس بریفنگ کے دوران ٹلرسن کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کے لیے امریکی پالیسی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا پاکستان نے وہ ایکشن لیے جو امریکہ ضروری سمجھتا ہے یا نہیں۔‘‘ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد صدر کی کابینہ میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے ریکس ٹلرسن کا یہ پہلا دورۂ پاکستان ہے۔ اس دورے سے قبل امریکہ کے نئے مگر جارحانہ انداز رکھنے والے صدر ٹرمپ نئی افغانستان پالیسی کا اعلان کرچکے ہیں۔ جس کے تحت انہوں نے افغانستان میں تعینات فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے۔ ایک طرف امریکہ کی سیاسی قیادت یعنی وزیر خارجہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو نئی ہدایات دینے کے لیے مشترکہ طور پر ملاقات کے لیے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کی عسکری قیادت واشنگٹن میں امریکی عسکری قیادت یعنی پنٹاگون سے مذاکرات کرچکی ہے۔ ان سرگرمیوں کی اہمیت ٹرمپ کی جانب سے نئی افغانستان پالیسی کے اعلان کے بعد بڑھ گئی ہے۔ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستان کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان کے لیے خطرات میں اضافہ کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف مذموم امریکی عزائم کا علم اور شعور ہونے کے باوجود پاکستان کے حکمراں طبقات نے مزاحمت کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ریکس ٹلرسن کے دورۂ پاکستان کو رائے عامہ نے اس کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں دی کہ امریکہ ایک بار پھر ’’ڈومور‘‘ کررہا ہے ‘اب تو ’’ڈومور‘‘ کی اصطلاح بھی امریکہ پاکستان تعلقات کے بیان کے لیے کفایت نہیں کرتی۔ نئی افغانستان پالیسی اور پاکستان کے حکمرانوں کے نام نیا ’’حکم نامہ‘‘ تھمانے سے قبل امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ڈرون حملے بھی کیے ہیں۔ اب تو نوبت یہ آگئی ہے کہ ماضی کے برعکس ڈرون حملوں کی مذمت بھی نہیں کی جاتی۔ امریکہ کی جانب سے اس قسم کے اشارے بھی سامنے آئے تھے جیسے کہ امریکی فوج پاکستان کو ساتھ لے کر خود پاکستان کی حدود میں بھی کارروائی کرے گی‘لیکن ان اشاروں کے جواب میں پاکستان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ہمیں خفیہ انٹیلی جنس کی معلومات فراہم کی جائیں‘ ہم خود کارروائی کریں گے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمراں صرف اسی بات کی مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ بات جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ہوئی تھی جب امریکی فوج نے پاکستان کی حدود میں بمباری کی تھی تو جنرل (ر) پرویز مشرف نے تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بمباری امریکی فوج نے نہیں بلکہ خود پاکستان نے کی یہاں تک کہ امریکہ نے پاکستان میں ڈرون حملوں کی کثرت کردی‘ اس زمانے میں امریکہ میں ڈرون حملوں کے خلاف فضا بنی ہوئی تھی اور سی آئی اے سے ڈرون حملوں کے اختیارات واپس لے لیے گئے تھے‘ اس کے باوجود صرف پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی صدر کی منظوری سے ڈرون حملے جاری رکھے گئے۔ اور ہمارے حکمراں جن کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ ملک و ملت کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی کریں۔ اپنے شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کو یقینی بنائیں‘ اس کے بجائے امریکہ جو مسلمانوں اور اسلام کا دشمن ہے اس کے ساتھ مل کر اپنے ہی شہریوں کے خلاف کارروائی کرتے رہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے تو اپنی کتاب میں یہاں تک دعویٰ کیا کہ انہوں نے امریکہ سے ڈالر لے کر پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تمام حدیں پامال کردیں لیکن امریکی خوشنودی تو حاصل نہیں ہوسکی البتہ اس ظلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی پروا کسی نے نہیں کی۔ ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ جسے امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کہا جاتا ہے‘ میں امریکی شکست نوشتۂ دیوار ہے‘ امریکہ آج بھی دنیا کی بلکہ تاریخ کی سب سے بڑی جنگی اور ٹیکنالوجیکل طاقت ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ زمین کے ساتھ آسمان بھی اس کے قبضے میںہے‘ زمین پر رینگنے والا ایک کیڑا بھی اس کی نظروں سے اوجھل نہیں۔ جبکہ افغانستان آج بھی دنیا کا سب سے پسماندہ ملک ہے۔ لیکن افغانستان کے فقیروں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے خلاف مزاحمت کی وہ تاریخ رقم کی ہے‘ جو اس عہد میں اللہ کی نشانی بن گئی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی فرعونی اور نمرودی طاقت کی بے بسی ان کے حکمرانوں کی زبان سے عیاں ہے۔ لیکن افسوسناک المیہ یہ ہے کہ ان حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود پاکستان کی اشرافیہ اور حکمراں سبق لینے کے لیے تیار نہیں۔ بحران اور کشیدگی کا اصل سبب یہ ہے کہ جس جنگ کو امریکہ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ قرار دیتا ہے وہ اصل میں فروغ دہشت گردی کی جنگ ہے۔ اس حقیقت کو سمجھ لیں تو ہمیں راستہ مل جائے گا‘ لیکن اس کے لیے ‘افغانوں کی طرح ’ ایمان کا ثبوت دینا ہوگا‘ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کو اصل قوت وطاقت سمجھا جائے اور آیت الکرسی کی تلاوت کرنے والے اللہ کے علاوہ کسی کو طاقت نہ سمجھیں۔ فرعون و نمرود کی فوجوں کا انجام ماضی کی تاریخ نہیں بلکہ

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

(علامہ اقبال)