بلوچستان میں مسلح جدوجہد کی تاریخ طویل عرصے پر محیط ہے۔ اس کا آغاز 1958ء کے بعد ہوا جب خان قلات کو گرفتار کیا گیا اور پہلی دفعہ بلوچوں نے پہاڑوں کا رخ کیا۔ اُس وقت یہ مسلح جدوجہد نظریاتی نہیں تھی، یہ خان قلات میر احمد یار خان کی گرفتاری کی وجہ سے شروع ہوئی اور اس میں بیرونی مداخلت نہ تھی بلکہ یہ اندرونی قبائلی معاملہ تھا۔ اس کی قیادت نواب نوروز خان کررہے تھے، اُن کا تعلق زہری قبیلے سے تھا، ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ جبکہ مری علاقے میں شیر محمد مری عرف جنرل شیروف قیادت کررہے تھے۔ قلات ڈویژن میں اس کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ حکومت کی طرف سے ان لوگوں کو مذاکرات کی دعوت دی گئی، اور اس میں پیش پیش سردار دودا خان زرکزئی تھے۔ سردار دودا خان بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے والد تھے۔ نواب نوروز خان نے اس بات کی ضمانت طلب کی کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ اس کے جواب میں درمیان میں قرآن رکھ کر معاہدہ کیا گیا۔ یوں نواب نوروز خان مع اپنے ساتھیوں کے پہاڑوں سے اتر آئے اور ہتھیار حکومت کے حوالے کردیے۔ بدقسمتی سے حکومت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور انتظامیہ نے انہیں ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا۔ ان میں نواب کے بیٹے اور دیگر ساتھی شامل تھے۔ یہ کُل 6 افراد تھے۔ ان پر حیدرآباد جیل میں مقدمات قائم کیے گئے اور فوجی عدالت نے انہیں سزائے موت کا حکم دیا۔ نواب نوروز خان ضعیف تھے اس لیے انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ان 6 افراد کو جیل میں تختۂ دار پر کھینچ دیا گیا اور لاشیں بولان میل کے ذریعے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پہنچائی گئیں۔ خوف کی وجہ سے اسٹیشن پر عوام کا کوئی ہجوم نہ تھا، صرف نواب خیر بخش مری لاشیں لینے کے لیے اکیلے موجود تھے۔ بعد میں نواب نوروز خان جیل ہی میں وفات پاگئے۔ اس بدعہدی پر سردار دودا خان کو بہت افسوس ہوا، انہوں نے اس پر سخت احتجاج کیا، مگر حکومت خاموش ہی رہی۔ قوم پرست رہنما اس مسئلے پر سردار دودا خان کو ہمیشہ مطعون کرتے رہے۔
اس کے بعد بھٹو کے دور میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی۔ بلوچستان کے گورنر خان قلات میر احمد یار خان تھے۔ جھالاوان کے علاقے میں مسلح جدوجہد ہورہی تھی اور سردار عطا اللہ مینگل کا بڑا بیٹا منیر مینگل اس میں شامل تھا۔ یہ مسلح گروہ فوج کے نرغے میں آگیا۔ سردار دودا خان نے خان سے کہا کہ آپ مجھے موقع دیں کہ ان لوگوں سے بات کروں اور یہ ہتھیار ڈال دیں تاکہ نوجوان منیرمینگل اور دیگر گوریلا لیڈر بھی ہتھیار ڈال دیں۔ انہوں نے خان سے ضمانت لی جو دے دی گئی۔ اس طرح نوجوان منیر مینگل مع اپنے ساتھیوں کے سرنڈر ہوگئے۔ عید محمد اس گروہ کی کمان کررہا تھا۔ ان سب نے گورنر ہائوس میں خان قلات میر احمد یار خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ منیر مینگل کی عمر اُس وقت 20 یا 22 سال تھی۔ میں نے سرکٹ ہائوس میں اس سے ملاقات کی تھی۔ سردار عطا اللہ مینگل نے اپنی زندگی میں اس کے سر پر پگڑی باندھ دی تھی۔ بعد میں وہ فوت ہوگیا۔ اس کی جگہ اب مینگل قبیلے کا سردار ہے۔ سردار عطا اللہ مینگل اس کے سرپرست ہیں۔ بلوچوں میں بڑا بیٹا سردار یا نواب ہوتا ہے، اس کے بعد اس کا بیٹا اس منصب پر فائز ہوتا ہے۔ اس طرح بگٹی قبیلے کا نواب اب علی بگٹی ہے۔ یہ سلیم بگٹی (مرحوم) کا بیٹا ہے۔ اسی طرح مری قبیلے کا نواب خیر بخش خان کا بڑا بیٹا جنگیز مری ہے۔
یہ پس منظر اس لیے بیان کیا ہے تاکہ اس اہم مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہو اور مذاکرات کی پیشکش کا تجزیہ کیا جاسکے۔ 20 اگست 2017ء کو مکران ڈویژن کے ضلع مشکے میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بریگیڈیئر نوفل محمود نے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر کومسلح جدوجہد ترک کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی۔ اس تقریب میں قبائلی عمائدین بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں۔ جنگ آخری حربہ ہے اور میں مذاکرات کو اہمیت دیتا ہوں، آپ سب ہمارے بھائی ہیں جو بہکاوے میں آکر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کا خون بہا رہے ہیں، آپ واپس آجائیں، ہم آپ کو گلے لگائیں گے‘‘، اور جو آپ نے دشمنوں کے کہنے پر کیا ہے ہم اسے بھول جائیں گے۔ ڈاکٹر اللہ نذر ہم سے بات کریں اور اگر ہماری بات چیت کامیاب ہوجاتی ہے تو ہم مل کر کام کریں گے، اور اگر بات چیت ناکام ہوتی ہے تو فوجی روایات کے مطابق ہم آپ کو بحفاظت واپس جانے دیں گے، یہ آپ سے میرا بحیثیت فوجی، وعدہ ہے۔ اس اجتماع میں قبائلی عمائدین نے توقع ظاہر کی کہ ڈاکٹر اللہ نذر بریگیڈیئر نوفل محمود کی پیشکش کو سنجیدگی سے لیں گے اور مذاکرات کی میز پر آجائیں گے تاکہ علاقے میں امن و امان قائم ہوجائے۔
یقینا یہ پیشکش فراخدلی سے کی گئی ہے اور اس کو فوج کی ہائی کمان کی تائید یقینا حاصل ہوگی۔ لیکن اصل مسئلہ ضامن کا ہے، کون درمیان میں بیٹھے گا اور اس پیشکش کو غلط استعمال نہیں کرے گا۔ بریگیڈیئر صاحب کی پیشکش یقینا ایک مثبت پیغام ہے، مگر اس حوالے سے تاریخ کی گواہی یکسر مختلف ہے۔ جب تک درمیان میں کوئی مضبوط شخصیت موجود نہ ہو ایسی پیشکش پر پیش رفت مشکل نظر آتی ہے۔ قوم پرست پارٹیوں اور قبائلی شخصیات کی تائید ہو تو بات چیت آگے بڑھ سکتی ہے۔ لیکن رضاکارانہ واپس لوٹنے والوں کے ساتھ جو کچھ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کیا اُس کے بعد کون بلوچستان میں پہاڑوں سے یا غیر ممالک سے واپس لوٹ سکتا ہے! اب تو صوبائی وزیر داخلہ نے گزین مری کے لیے JIT قائم کردی ہے۔ اس میں اس مسئلے پر تحقیق ہوگی کہ گزین مری کا کالعدم مسلح تنظیموں سے کیا تعلق ہے؟ اس تحقیقاتی ٹیم کی قیادت ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ کریں گے۔ اس میں کرائم برانچ، اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی، آئی ایس آئی، ایم آئی کے نمائندوں کے علاوہ متعلقہ مقدمے کے تفتیشی افسر بھی شامل ہوں گے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں بات چیت اور مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ موجودہ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے دورِ حکومت میں کسی اور رخ پر چلا گیا ہے۔ سب سے اہم سوال اس وقت یہ اٹھ گیا ہے کہ حکومتِ بلوچستان مسلح جدوجہد کو ختم کرنا چاہتی ہے یا اس کو طول دینا چاہتی ہے؟ پاکستان جس طرح مشکلات کا شکار ہوگیا ہے، بین الاقوامی قوتیں پاکستان کو مزید الجھانا چاہتی ہیں اور انتشار کی کیفیت برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ اس سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات کا عمل ہے۔ بلوچستان میں جتنے گرم محاذ ہیں وہ اب خاموش ہوجائیں تو بہتر ہوگا۔