دھنک

دام ِتہذیب

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار!
یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار!
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار!
ترکانِ ’’جفا پیشہ‘‘ کے پنجے سے نکل کر
بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار!
-1اقبال کو اہلِ یورپ کی اس خصوصیت میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہر مظلوم ملت کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔
-2 مسیحیت کے مذہبی پیشوا کی یہ کرامت ہے کہ اس نے بجلی کے چراغ جلا کر خیالات میں روشنی کردی۔
-3 مگر میرا دل شام اور فلسطین کی حالتِ زار پر کڑھ رہا ہے۔ عجیب گتھی پیش آگئی ہے جو تدبیر سے کھل نہیں سکتی۔
-4 ان ملکوں کے غریب باشندے ترکوں کے پنجے سے تو آزاد ہوگئے، جنہیں اہلِ یورپ ظالم کہا کرتے تھے، لیکن اب وہ یورپی تہذیب کے پھندے میں گرفتار ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ جب شام، فلسطین اور دوسرے عرب ممالک ترکی سلطنت میں شامل تھے تو اہلِ یورپ بار بار کہہ رہے تھے کہ ترک ان پر ظلم کررہے ہیں۔ آخر پہلی جنگِ یورپ میں یہ ملک آزاد ہوگئے، لیکن شام پر فرانس نے اور فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ جمالیا اور وہ ظلم و ستم شروع کیے کہ الامان والحفیظ ۔ ہزاروں عرب موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ایسا کوئی نظارہ ترکی کی حکومت کے ماتحت چار سو سال میں نہ دیکھا گیا تھا۔ اقبال طنز کے طور پر کہتے ہیں کہ یورپ اپنے آپ کو ہمیشہ مظلوموں کا طرف دار کہتا ہے اور ترکوں کو ظالم بتاتا رہا، لیکن اب شام و فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ مان لیجیے کہ ترک ظالم تھے۔ ان سے تو آزادی حاصل ہوگئی ہے۔ اب شامیوں اور فلسطینیوں پر جو ظلم ہورہے ہیں، کیا یہ یورپی تہذیب کے کرشمے نہیں؟

اضطراب

واصف علی واصف
اضطراب اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان کئی راستوں میں سے کسی ایک راہ کا انتخاب نہیں کرسکتا۔ قوتِ فیصلہ کی کمزوری انسان کو تذبذب میں ڈال دیتی ہے اور انجامِ کار وہ مضطرب رہنے لگتا ہے، اور پھر انسان کا اضطراب اس سے سوچنے کی صلاحیت بھی چھین لیتا ہے۔
انسان علم حاصل کرتا ہے عمل کے لیے، لیکن جوں جوں علم پھیلتا ہے عمل کے مواقع سمٹنے شروع ہوجاتے ہیں۔ آج کے انسان کا سب سے بڑا عمل حصولِ علم ہے، اور یہ عمل اس کو فرائض کی بجا آوری کے عمل سے بہت دور کردیتا ہے۔ نتیجہ اضطراب ہے۔ سڑک کے کنارے کمرے میں بیٹھ کر زندگی کا مفہوم سمجھنے والا انسان اُس زندگی کو بھی نہیں سمجھ سکتا، جو سڑک پر سے گزر رہی ہے۔ علم اور عمل کے فرق سے اضطراب پیدا ہوتا ہے۔
انسان کی کوشش جب متوقع نتیجہ حاصل نہیں کرتی تو وہ مضطرب ہوجاتا ہے۔ پھولوں کے خواب دیکھنے والا اپنے دامن میں خار دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے۔ خواب کی اونچی اڑانیں ہستی کو پستی سے نکال نہیں سکتیں۔ انسان کی آرزو جب حسرت بن جائے اور اس کا اصل لاحاصل ہو کے رہ جائے تو اس کا مضطرب ہونا بجا ہے۔ اپنے جب اجنبی بن کر پاس سے گزر جائیں تو انسان کیا کرے! وہ مضطرب ہوگا، بے قرار ہوگا، بے چین ہوگا۔
اگر اضطراب برداشت سے بڑھ جائے تو طرح طرح کی میڈیکل پریشانیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اضطراب کو مایوسی نہ بننے دیا جائے، تو انسان بدلے ہوئے حالات سے گھبراتا نہیں۔ کچھ لوگ اضطراب میں چراغِ آرزو بجھا دیتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے خود کو ایک کرب میں مبتلا کرلیتے ہیں۔ کچھ لوگ اضطراب کو تحریک بناتے ہوئے نئی راہیں دریافت کرلیتے ہیں اور اس طرح پرانے ڈھانچوں پر نئی تعمیر استوار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دراصل اضطراب کا مسکن ’’ہونے اور نہ ہونے‘‘ کے درمیان ہے۔ جانے والے زمانے کی یاد میں آنے والے زمانے کا انتظار بھی تو شامل ہوتا ہے۔ اضطراب اس امر کا اعلان ہے کہ ایک دور ختم ہوگیا اور دوسرا دور جنم لینے والا ہے۔ مضطرب انسان منتشر نہیں ہوتا۔ مضطرب آدمی وجۂ اضطراب سے بہرحال باخبر ہے، جبکہ منتشر انسان وجۂ انتشار سے بے خبر ہے۔
اضطراب ایک قوت ہے۔ تشخص کا ایک مقام ہے۔ پہچان کا ایک زاویہ ہے۔ شخصیت کا ایک پہلو ہے۔ مضطرب قومیں اپنے لیے نئے سورج تراش لینے میں اکثر کامیاب ہوتی ہیں۔
اضطراب ہی مجاز سے حقیقت کا راستہ دکھاتا ہے۔ انقباض سے نکل کر انبساط میں داخل ہونے کا اوّلین سگنل اضطراب ہے۔ عہدِ رفتہ کے مرثیے اور عہدِ فردا کے قصیدے کے درمیان اضطراب گنگناتا ہے۔
اضطراب میں رہنے والے بڑے تخلیق کار ہوتے ہیں۔ اضطراب شب بیداری کا پیغام ہے اور کامیابی کا زینہ ہے۔ اضطراب سوز ہے اور یہی سوز جوہرِ تخلیق ہے۔
آج کی زندگی میں ایک گھٹن ہے۔ ایک حبس ہے۔ آج کی زندگی خودغرضی کی زندگی ہے۔ کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں۔ کسی کو کسی سے ہمدردی تو خیر دور کی بات ہے، دلچسپی بھی نہیں۔ ظاہر کی رونقیں باطن کی وحشتوں سے خوفزدہ ہیں۔ ہر طرف انسان کی بھیڑ ہے اور اس بے پناہ ہجوم میں کوئی انسان نظر نہیں آتا۔ بداعتمادی کے اس عہد میں ہر شخص مضطرب ہے، سرگرداں ہے، پریشان ہے، بے قرار ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک وبا پھیل چکی ہے… بے چینی کی وبا، بے بسی کی وبا، بے حسی کی وبا، بے کسی کی وبا، بے یقینی کی وبا، بے مروتی کی وبا، بے حیائی اور بے وفائی کی وبا۔ ہر حساس آدمی کو معاشرتی انحطاط مضطرب کررہا ہے۔
(واصف علی واصف کی کتاب ’’واصفیات‘‘ سے انتخاب)