سائنس و ٹیکنالوجی

اینٹی بائیوٹکس سے دور رہنے کا مشورہ

برطانیہ کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس تجویز کرنے کے بجائے انھیں آرام کرنے کا مشورہ دیا جانا چاہیے۔ پبلک ہیلتھ انگلینڈ یا پی ایچ ای کا کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کا ہر پانچ میں سے ایک نسخہ غیر ضروری ہوتا ہے کیونکہ کئی بیماریاں خودبخود دور ہوجاتی ہیں۔ پی ایچ ای کا کہنا ہے کہ دواؤں کے زیادہ استعمال سے انفیکشنز کا علاج مشکل ہوجاتا ہے اور دوا کے خلاف مزاحمت کرنے والے ’سپر بگز‘ پیدا ہوجاتے ہیں۔ ادارے کے مطابق مریضوں کو بھی انفیکشنز بڑھنے سے روکنے کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ برطانیہ میں ہر سال 5000 افراد دوا کے خلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشنز کا شکار ہو کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ بلڈ اسٹریم ای کولی نامی خون کے انفیکشن کے شکار ہر 10 میں سے 4 افراد کا علاج عام اینٹی بائیوٹکس سے ممکن نہیں۔ 2050ء تک توقع ہے کہ دواؤں کے خلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشنز کی وجہ سے اس سے زیادہ افراد ہلاک ہوں گے جتنے فی الحال کینسر سے ہوتے ہیں۔ اینٹی بائیوٹکس کا استعمال نمونیا، گردن توڑ بخار اور دیگر شدید انفیکشنز کے علاج میں خاصا ضروری ہے۔ لیکن پی ایچ ای کا کہنا ہے کہ یہ ہر بیماری کے علاج کے لیے ضروری نہیں ہے۔ پی ایچ ای کے مطابق کھانسی اور حلق کی سوجن خود سے ٹھیک ہونے میں تین ہفتے لگتے ہیں، جبکہ اینٹی بائیوٹکس اس دورانیہ کو کم کرکے ایک یا دو دن پہ لا سکتی ہیں۔ ’’ہمیں عام طور پر اور عام علامات میں اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت نہیں ہوتی، ہم میں سے اکثر کو مختلف اوقات میں انفیکشنز ہوتے ہیں اور ہم اپنے مدافعتی نظام کی وجہ سے ٹھیک ہوجاتے ہیں‘‘۔’’حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ اُس وقت اینٹی بائیوٹکس استعمال کریں جب آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ آنے والے مہینوں میں آپ کو وہ انفیکشن ہوجائے جس میں اینٹی بائیوٹکس اثر نہیں کریں گی۔‘‘

گڈ مارننگ کہنے پر فلسطینی گرفتار

اسرائیل کے مقامی میڈیا کے مطابق پولیس نے گزشتہ ہفتے ایک فلسطینی شخص کو اُس وقت گرفتار کرلیا جب اس نے فیس بک پر عربی زبان میں ’گڈ مارننگ‘ لکھا، تاہم ترجمے کی غلطی کی وجہ سے عبرانی زبان میں اسے ’ان پر حملہ کرنا‘ پڑھا گیا۔ اسرائیلی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ تعمیراتی ورکر کو، اشتعال دلانے کے شبہ میں کچھ دیر کے لیے حراست میں رکھا گیا تاہم ترجمے کی غلطی معلوم ہونے پر اسے رہا کردیا گیا۔
فیس بک پر پوسٹ کی جانے والی تصویر میں تعمیراتی ورکر کو مغربی کنارے پر ایک بلڈوزر کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق مقامی عربی زبان میں کسی کا خیرمقدم کرنے اور کسی کو کوسنے کے لیے جو الفاظ ہیں ان میں صرف ایک ہی حرف کا فرق ہے۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ فلسطینی شخص کی گرفتاری سے پہلے عربی زبان بولنے والے کسی اہلکار سے مشورہ نہیں کیا گیا اور صرف فیس بک کے خودکار ترجمے پر ہی انحصار کیا گیا۔ فلسطینی شخص کی جانب سے فیس بک پر کی جانے والی پوسٹ کو اب ڈیلیٹ کردیا گیا ہے۔

مچھلی کھانے کے بعد دودھ نہیں پینا

کہا جاتا ہے کہ مچھلی کھانے کے بعد دودھ نہیں پینا چاہیے ورنہ چہرے پر سفید داغ پڑجاتے ہیں اور صحت خراب ہوتی ہے۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے؟ دراصل طبِ مشرق میں کسی بھی چیز کے تین ممکنہ خواص ہوتے ہیں: سرد، گرم اور معتدل۔ دودھ کی تاثیر سرد ہے جبکہ مچھلی کی تاثیر گرم۔ یہی وجہ ہے کہ حکمت اور آیورویدک طریقہ علاج، دونوں کے تحت سرد اور گرم تاثیر والی چیزیں ایک ساتھ کھانے کا ردِعمل ظاہر ہوتا ہے جو جلد پر سفید لیکن بدنما دھبوں کے علاوہ مختلف اقسام کی الرجی اور بخار تک کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ اسی لیے روایتی طور پر مچھلی کھانے سے پہلے یا بعد میں دودھ، دہی، پنیر وغیرہ کھانے سے منع کیا جاتا ہے۔ جہاں تک جدید سائنسی تحقیق کا تعلق ہے، اب تک ایسا کوئی مصدقہ سائنسی مطالعہ سامنے نہیں آیا جو یہ ثابت کرے کہ مچھلی کھانے سے پہلے یا بعد میں دودھ پینے سے جسم پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ بلکہ بہت سی ایسی غذائیں دستیاب ہیں جن میں بیک وقت مچھلی، دہی اور دودھ شامل ہوتے ہیں اور انہیں دل کے ساتھ ساتھ دماغ کے لیے بھی مفید پایا گیا۔ اس حقیقت کی روشنی میں مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینے سے صحت کے مسائل پیدا ہونے والا مفروضہ بے بنیاد لگتا ہے۔ البتہ اگر ہم غذائیت اور ہاضمے کے عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کریں تو معلوم ہوگا کہ مچھلی اور دودھ، دونوں ہی پروٹین سے بھرپور غذائیں ہیں جنہیں ایک ساتھ کھانے کے نتیجے میں ہمارے نظامِ ہاضمہ کو دوہری محنت کرنا پڑتی ہے۔ مطلب یہ کہ دونوں غذائوں کو ہضم کرنے کے لیے ہمارے معدے کو ایک ساتھ دو طرح کی رطوبتیں خارج کرنا پڑتی ہیں۔ نتیجے میں مچھلی اور دودھ کو ایک ساتھ ہضم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کا پہلا اثر تو ہمارے نظامِ ہاضمہ پر ہی پڑ سکتا ہے جبکہ بیماریوں سے بچائو کا قدرتی نظام (امیون سسٹم) منفی اثر کا دوسرا ہدف بن سکتا ہے۔ لیکن اب تک اس بات کی تائید کسی سائنسی تحقیق سے نہیں ہوسکی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خاص اقسام کی مچھلیاں کھانے کے بعد (یا پہلے) دودھ پینے سے جلد پر دھبے یا الرجی کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اس نکتے کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔