انتخابی قانون کا ترمیمی بل سینیٹ میں قرارداد کی منظوری

سینیٹ نے نااہل شخص پر سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کی قانونی پابندی کے خلاف ترمیمی بل بھاری اکثریت سے منظور کرلیا ہے۔ ترمیم کے حق میں 49 ووٹ آئے جبکہ 18سینیٹرز نے ترمیم کی مخالفت کی۔ سینیٹ میں نجی کارروائی کے روز معمول کی کارروائی کو معطل کرتے ہوئے انتخابی قانون 2017 میں ترمیم کے بل کو منظور کیا گیا۔ انتخابی قانون کی شق 203 کے تحت پارلیمان کے لیے نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کی اجازت مل گئی تھی، جس کی وجہ سے نااہلی کے بعد سابق وزیراعظم محمد نوازشریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہوگئے تھے۔ اب قانونی پابندی کو بحال کروانے کے لیے بھاری اکثریت سے ترمیم منظور کرلی گئی ہے۔ جے یو آئی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے اس ترمیم کی مخالفت کی، جبکہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ق)، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے اس ترمیم کی حمایت میں ووٹ دیا۔ چیئرمین سینیٹ نے بل کی شق وار منظوری حاصل کی۔ متعلقہ شق کو 17 کے مقابلے میں 49 اراکین سینیٹ کی حمایت سے منظور کرلیا گیا۔ مخالفت میں 18 ووٹ آئے۔ خواندگی کے تیسرے مرحلے میں رائے شماری ہوئی تو ترمیم کے حق میں 49 اور مخالفت میں 18 ووٹ آئے۔ منظوری کے مرحلے پر حکمران و اتحادی جماعتوں کے پانچ ارکانِ سینیٹ ایوان سے غائب ہوئے۔ اسی طرح قائد حزبِ اختلاف چودھری اعتزاز احسن بھی ایوان میں نہیں تھے۔ اب یہ بل منظوری کے لیے قومی اسمبلی کو بھیجا جائے گا جہاں مسلم لیگ (ن) کے پاس اکثریت ہے۔ اپوزیشن اب اس ترمیم کو محض سیاسی دبائو کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ سینیٹ میں جب حزبِ اختلاف کی جانب سے تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے تحریک پیش کی تو وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے مخالفت کی، لیکن رائے شماری ہوئی تو ترمیم ایوان میں پیش کردی گئی۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ہر جگہ ہم سے اسی شق کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے، ہم یہ مسئلہ نمٹانے کے لیے بل لے آئے۔ اس کے جواب میں وزیر قانون وانصاف زاہد حامد نے کہا کہ پرویزمشرف کے دور میں 2000ء میں سیاسی جماعتوں سے متعلق آرڈر میں جزوی طور پر اس شق کو شامل کیا گیا اور 2002ء میں مکمل طور پر سیاسی جماعتوں کے متعلق یہ شق سرکاری حکم نامے میں شامل کرلی گئی، پیپلزپارٹی جو کرنے جارہی ہے وہ آئین کے خلاف ہے، 17 نومبر 2014ء کو تمام حکومتی و اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمان کے لیے نااہل شخص پر سیاسی جماعت کا سربراہ بننے پر پابندی ختم کرنے پر اتفاقِ رائے کیا، آج یہ اپنے اتفاقِ رائے کے خلاف جارہے ہیں، اور جب یہ اتفاقِ رائے ہوا تھا اُس وقت پاناما کا نام ونشان نہیں تھا۔ قائدِ ایوان راجا ظفرالحق نے کہا کہ سینیٹ کے طریقہ کار اور روایات سے نہ ہٹیں، ایوان کے تقدس کو پامال نہ کریں، ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ روایت غلط ہے کہ جب جس کی ایوان میں اکثریت ظاہر ہورہی ہو، وہ بل لے آئے۔ یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ عوامی قیادت سے غیر جمہوری قوتیں خائف ہیں، اس طرح ان کا راستہ نہیں روکا جا سکتا، قیادت کے انتخاب کا حق عوام کو حاصل ہے، عوام کو قیادت سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جب کسی امپائر کا سہارا نہ رہا تو عدالتوں کے فیصلوں کے ذریعے قیادت کو عوام سے دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ بل قومی اسمبلی میں جائے گا، ہمیں معلوم ہے کہ وہاں کیا ہونا ہے، پھر یہ قوتیں کدھر جائیں گی! بھٹو ازم کے خلاف پیپلزپارٹی بل لے آئی۔ آج یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ پیپلزپارٹی آمرانہ دور کی شق کا ساتھ دے رہی ہے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ اگر انہیں ڈائریکٹ حوالدار بننے کا شوق ہے تو خدارا پارلیمنٹ کے کندھے کو استعمال نہ کریں، اس طرح پرائمری اسکول کے بچے بھی اپنی کاپیاں نہیں پھاڑتے جس طرح یہ قانون کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں۔
بہرحال ایوان میں اس بحث کے بعد ترمیم منظور کرلی گئی۔ یوں نوازشریف کے سر پر ایک اور تلوار لٹکادی گئی ہے۔