جامعہ قائداعظم اسلام آباد، ملک کی ایک اہم ترین جامعہ ہے۔ یہ کسی ویران جگہ پر قائم نہیں بلکہ ایوانِ صدر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ دوسری جانب عظیم صوفی بزرگ بری امامؒ کا مزار ہے، اور یہ وزیر کیڈ طارق فضل چودھری کے انتخابی حلقے کی حدود میں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صدرِ پاکستان ممنون حسین اس کے چانسلر ہیں۔ اس کے باوجود یہاں منشیات عام ہے، ہنگامہ آرائی معمول بنی ہوئی ہے، سیکورٹی نام کی کوئی چیز یہاں دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ اہم ترین اور عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارہ اب سے نہیں بلکہ برسوں سے بیرونی عناصر کی مداخلت اور اسے اپنے جرائم کی پناہ گاہ بنانے کی وجہ سے بے شمار مسائل کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں وقفے وقفے سے یہاں ہنگامے، احتجاج اور ہڑتال ہوتی رہتی ہے اور تعلیمی سرگرمیاں کچھ عرصے کے لیے معطل ہوجاتی ہیں۔ حکومت، اور یونیورسٹی کے معاملات کے نگران کسی بھی سرکاری ادارے نے کبھی جامعہ قائداعظم کے مسائل کے حل کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ شہر کے سیاسی حلقوں میں تعلیم دوست اور امن پسند سیاسی رہنما کی حیثیت سے سابق رکن قومی اسمبلی میاں اسلم نے یہ آواز اٹھائی کہ جامعہ قائداعظم کے طلبہ اور اساتذہ کو تعلیمی سرگرمیوں کے لیے پُرامن ماحول میسر کیا جائے۔ مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے کسی رہنما نے آگے بڑھ کر یونیورسٹی کے خراب ہوتے ہوئے ماحول کی درستی کے لیے کوشش کی اور نہ آواز اٹھائی، البتہ بہت سی سیاسی شخصیات ہیں جو یونیورسٹی کی زمین پر قابض ہیں اور رہائشیں تعمیر کررکھی ہیں۔ اس تعلیمی ادارے میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ یہ سیاسی قبضہ مافیا بھی ہے جو بیرونی غیر طلبہ عناصر کی سرپرستی کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد طالب علم نہ ہونے کے باوجود ہاسٹلز پر قابض ہیں اور یونیورسٹی کو مورچہ بناکر اپنے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے یہ ہاسٹل اور فیکلٹیز احتجاج کے لیے نرسری کا کام دیتے ہیں۔ حال ہی میں طلبہ کے احتجاج کے باعث یونیورسٹی تین ہفتے بند رہی۔ لیکن یہ مسئلہ آج پیدا نہیں ہوا بلکہ پرانا ہے، اور گزشتہ چھے ماہ کے دوران ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں، لیکن اِس بار یونیورسٹی کی بندش تین ہفتوں تک محیط رہی۔ اگرچہ قائداعظم یونیورسٹی میں 20 روز بعد پولیس کی نگرانی میں تدریسی عمل بحال ہوگیا ہے، ہڑتالی طلبہ رہا کیے جاچکے ہیں لیکن ان کے خلاف کارِ سرکار میں مداخلت، بلوہ، توڑپھوڑ اور زبردستی کلاسیں بند کرانے پر مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے مرکزی راستے اور اندر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی جاچکی ہے۔ صورتِ حال معمول پر آنے تک پولیس یونیورسٹی میں ہی موجود رہے گی، اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ کارڈ کے بغیر کسی کو بھی یونیورسٹی کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اِس وقت تو امن قائم ہوگیا ہے مگر یہ عارضی عمل ہے۔ پائیدار امن کے لیے مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنا ہوگا۔ جن عناصر نے یونیورسٹی کو لسانیت اور علاقائیت کے فروغ کے لیے اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے انہیں نکیل ڈالنا ہوگی، ورنہ چنگاری سلگتی رہے گی اور ذرا بھی ہوا ملی تو احتجاج کی آگ پھر بھڑک اٹھے گی۔ یہاں غیر طلبہ کی مداخلت اور سیاسی مفادات کی نرسری اگانے کی کوششوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کوشش سیاست دانوں، اساتذہ یا غیر طبلہ کی جانب سے مسلسل ہوتی رہی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل پیدا ہونے کی بنیادی وجہ اگر تلاش کی جائے تو وہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں ایسے طلبہ بھی رہائش پذیر ہیں جو طلبہ کو احتجاج پر اکساتے ہیں۔ ہنگامے والے روز بھی انہی کا زیادہ کردار رہا۔ انہیں متعدد سیاسی شخصیات کی سرپرستی میسر ہے۔ احتجاج بھی اسی سیاسی حمایت اور سرپرستی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ، موسیٰ اعظم خیل اور رکن قومی اسمبلی شہاب الدین کے نام اس حوالے سے بہت نمایاں طور پر لیے جارہے ہیں۔ ان پارلیمنٹرین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ احتجاجی اور ہڑتالی غیر طلبہ عناصر سے رابطے میں رہے ہیں۔ بیرونی مداخلت کے باعث ہی اِس بار احتجاج نے طوالت پکڑی۔ یہ صورتِ حال اب بھی موجود ہے۔ حالیہ احتجاج کے بعد جو مذاکرات ہوئے اور اس کے نتیجے میں یونیورسٹی دوبارہ کھولی گئی تو یہی غیر طلبہ عناصر پھر سامنے آئے، اور بے دخل کیے جانے والے طلبہ کی بحالی کے نام پر تعلیمی ادارے کا ماحول برباد کیا، اساتذہ کو ڈرایا دھمکایا اور انہیں کلاسوں سے باہر نکال دیا، جس سے پھر کشیدگی بڑھی۔ بیرونی اور غیر متعلقہ عناصر، جو اس جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود یونیورسٹی رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہاسٹلز میں رہائش پذیر ہیں، ایسے فارغ التحصیل طلبہ کی اکثریت سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ملازمت کرتی ہے۔ متعدد غیر طالب علم تو بینک میں کام کرتے ہیں لیکن یونیورسٹی کے ہاسٹلز نہیں چھوڑے، اور یہی غیر طالب علم عناصر مسئلہ بنے ہوئے ہیں، اور انہوں نے بلوچی، پشتون، سرائیکی غرض اپنے اپنے علاقوں کی مناسبت سے گروپ بنائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا انہیں لسانی گروپ، علاقائی گروپ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہی گروپ طلبہ کی نمائندگی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، یہی گروپ طلبہ کو بھی یرغمال بنائے بیٹھے ہیں اور کینسر کی طرح تعلیمی سرگرمیوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔ لسانی یا علاقائی بنیادوں پر اگر کچھ طالب علم متحد ہوجاتے ہیں تو حرج کی بات نہیں، لیکن غیر طالب علموں کی کمانڈ میں رہنا اور ان کے ذریعے انتظامیہ، اساتذہ اور اکیڈمک اسٹاف کو بھی یرغمال بنائے رکھنا بنیادی طور پر خرابی کی جڑ ہے۔
اساتذہ کا ایک خاص طبقہ بھی خرابیوں کے حوالے سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جامعہ میں اساتذہ بھی لسانی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہیں اور یہی اساتذہ طلبہ اور ہاسٹلز میں مقیم غیر طالب علم عناصر کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہیں اور کسی حد تک احتجاجی طلبہ کے لیے مرکز بنے ہوئے ہیں۔ بدترین حد تک پیدا ہوتی ہوئی اس خرابی میں یونیورسٹی کے گارڈز کا شامل ہوجانا بھی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ گارڈز بھی اب لسانی بنیادوں پر طلبہ گروپوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔
تعلیمی ریکارڈ اور بنیادی سہولتوں کے اعتبار سے جامعہ قائداعظم ملک بھر کی جامعات میں سب سے زیادہ سہولتوں سے مزین ہے، اس کی ریاض الدین میموریل لائبریری میں اس وقت دو لاکھ تیس ہزار کتب ہیں، اور جدید ترین لائبریریوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ لائبریری میں 276 جرنلز بھی دستیاب ہیں اور طلبہ کی باقاعدہ کیٹگریز بنی ہوئی ہیں جو اپنی اپنی کیٹگری کے اعتبار سے پورے سمسٹر سے لے کر ایک ماہ تک کتاب مطالعے کے لیے ایشو کرا سکتے ہیں۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ یہاں سی ڈیز بھی دستیاب ہیں۔ غرض تعلیمی سرگرمیوں کے لیے ایسے بہترین مواقع ہیں کہ جو کسی اور جگہ دستیاب نہیں ہیں، لیکن یونیورسٹی میں غیر طالب علموں کی وجہ سے احتجاج کی سیاست نے ایسا رواج پایا ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں کے مقابلے میں توڑپھوڑ، مار دھاڑ کا عمل مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے جس کے باعث اساتذہ اور وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف، رجسٹرار شفیق الرحمن سب پریشان ہیں اور بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ اس جامعہ سے فارغ ہونے والے اہم طلبہ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر، اشرف محمود وتھرا، سابق چیئرمین نیب قمر زمان چودھری،گلوکار ابرارالحق، سفارت کار نائلہ چوہان، سفارت کار ایس ایم انعام اللہ، ایم پی اے میاں اسلم اقبال، لال مسجد کے خطیب کے صاحب زادے غازی عبدالرشید شہید، گلوکارہ، اداکارہ حریم فاروق، سہیل زبیری، قیصر مشتاق (جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے وائس چانسلر)، وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب، کینیڈا پارلیمنٹ کی پاکستانی نژاد رکن سلمیٰ زاہد، پروفیسر فرزانہ اسلم اور اطہر ہاشمی (مدیرِ جسارت) جیسے اپنے اپنے شعبے میں نمایاں کام کرنے والے افراد کے نام ملتے ہیں، لیکن نہ جانے کیوں بعض عناصر اس تعلیمی ادارے کی بیخ کنی پر تلے ہوئے ہیں۔ جامعہ کو اس حال تک پہنچانے میں اُن لوگوں کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے جو تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین سرگرمیوں کے مخالف رہے ہیں۔ طلبہ یونینز ہوتیں تو یہاں لسانی گروہ پیدا نہ ہوتے اور نہ احتجاج کے فتنے جنم لیتے۔ طلبہ یونین نہ ہونے سے یہاں ہر کوئی اپنا لسانی مورچہ بنائے بیٹھا ہے جس کی آڑ میں یونیورسٹی میں منشیات کا استعمال بھی عام ہے، مخلوط محفلیں سجائی جاتی ہیں، جس کے ہاتھ میں لسانیت کا جھنڈا ہے وہی سب سے بڑا لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ طلبہ کی اس قدر تقسیم کی وجہ سے ہر وقت لڑائی جھگڑے کا خدشہ رہتا ہے۔
یونیورسٹی اس وقت جس مسئلے میں الجھی ہوئی ہے اس کی ابتدا تین چار ماہ قبل ہوئی تھی۔ معاملہ لسانی کلچر کا ہی ہے۔ اب صورت حال یہ بنی ہوئی ہے کہ جامعہ میں لسانی بنیادوں پر ہی سیاسی عناصر کے علاوہ متعدد اساتذہ بھی ملوث ہورہے ہیں، ان میں پروفیسر ہود بھائی کا نام لیا جارہا ہے۔ اگر واقعی حقائق یہی ہیں تو جامعہ میں بیرونی مداخلت، سرپرستی اور ہلہ شیری روکے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ طلبہ اور اساتذہ لسانیت کا شکار ہوکر تقسیم کے عمل سے باہر رہیں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے ورنہ وقفے وقفے سے دھواں اٹھتا رہے گا اور پائیدار حل تلاش کیے بغیر یہاں امن قائم ہونا اور تعلیمی سرگرمیاں جاری رہنا ایک خواب بن جائے گا۔ حالیہ احتجاج ختم کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ کے علاوہ ہائر ایجوکیشن کے سربراہ ڈاکٹر محمد مختار بھی متحرک رہے، لیکن مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جن طلبہ کو جامعہ سے بے دخل کیا گیا ہے انہیں بحال کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، لیکن انتظامی طور پر وائس چانسلر کے پاس انہیں بحال کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔ یہ کام ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹی سینڈیکیٹ ہی کرسکتا ہے۔ ان طلبہ کو بحال نہ کرنے کا متعدد اساتذہ نے بھی مطالبہ کردیا ہے، ان کا مؤقف ہے کہ یہ طلبہ بحال ہوئے تو اساتذہ ہڑتال کردیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جامعہ کا ماحول درست رکھنے کے لیے غیر عناصر کو نکال باہر کیا جائے اور جن طلبہ کو بے دخل کیا گیا ہے دل بڑا کرکے ٹھوس ضمانت کے ساتھ ایک بار انہیں واپس لے لیا جائے، اور ان کی واپسی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔ بصورتِ دیگر معاملہ پھر خراب ہوجائے گا۔ تین ہفتے کی بندش کے بعد جب جامعہ دوبارہ کھولی گئی تو پھر وہی ہوا کہ مطالبہ کیا گیا کہ طلبہ بحال کیے جائیں۔ جس کے جواب میں قائداعظم یونیورسٹی میں تدریسی عمل روکنے اور احتجاج کرنے والے سو سے زائد طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ جامعہ دوبارہ کھولنے سے قبل طلبہ اور انتظامیہ میں مذاکرات ہوئے تھے جس میں 13 مطالبات پیش ہوئے۔ یہ مطالبات تسلیم کرتے ہوئے انتظامیہ نے فیس میں کمی کرنے سمیت 12 مطالبات مان لیے لیکن طلبہ کی بحالی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ اختیارات ختم یا محدود ہوجانے کے باعث اب یہ کام وائس چانسلر کے بس میں بھی نہیں رہا، تاہم ان پر طلبہ کو بحال کرنے کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے۔