سن2018ء کے انتخابات پر شکوک و شبہات کے گہرے سائے
ملک میں ایک جانب سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے تو دوسری جانب بے یقینی اس سے بھی زیادہ۔ عمران خان اندرونِ سندھ سیاسی نقب لگانے کی کوشش میں ہیں، تو خالی گھر دیکھ کر آصف زرداری اور بلاول بھٹو خیبر پختون خوا میں جا بیٹھے ہیں۔ پیر آف پگاڑا سندھ کی قوم پرست جماعتوں اور پیپلزپارٹی مخالف لوگوں کو اکٹھا کررہے ہیں، تو خان اسفند یار ولی لال ٹوپی لگا کر اپنے آبائی صوبے میں جلسے کرتے پھر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جگہ جگہ عمران خان کو للکار رہے ہیں، تو شہبازشریف پنجاب میں اپنی کامیابیوں اور خدمات کے خود ہی ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ میر ظفر اللہ خان جمالی بھی سیاسی انگڑائی لے رہے ہیں اور شیخ رشید بھی اپنی اکلوتی نشست کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ بلوچستان کے سردار ہوا کا رخ دیکھ اور ٹاپ رہے ہیں، جبکہ سراج الحق کبھی لاہور، کبھی کراچی اور کبھی سوات میں یوتھ کنونشن، کارکنوں کے اجتماعات اور خواتین کے پروگرام کررہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب بے یقینی، خاص طور پر 2018ء کے انتخابات کے بارے میں بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کی اس رائے کے باوجود کہ ملک کی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم پر نکل کھڑی ہوئی ہیں، بے یقینی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ شیخ رشید اور فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ پیرپگاڑا کو 2018ء میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ جناب سراج الحق کا مطالبہ ہے کہ ’’پہلے احتساب اور پھر انتخاب‘‘۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاناما اسکینڈل کے 434 کرداروں کو انجام تک پہنچانے کے بعد انتخابات کرا دیئے جائیں۔ عمران خان پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے اور آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ سے بہترین تعلق قائم کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود نیب کی اپیل سے گھائل نظر آتے ہیں۔ ایسے میں اگر عمران خان یا آصف زرداری نااہل ہوجاتے ہیں تو انتخابات 2018ء میں نہیں ہوسکیں گے۔ ابھی تک الیکشن کمیشن نے اپنی تیاریوں کا بھی آغاز نہیں کیا اور شفاف ووٹنگ کے لیے جدید مشینری اور اس کے استعمال کے لیے عملے کی تربیت کا مرحلہ بھی درپیش ہے، اس لیے 2018ء کے انتخابات پر شکوک و شبہات کے گہرے سائے ہیں مگر سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں اترچکی ہیں۔
اس ماحول میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ انتخابات ہر سیاسی جماعت کو اپنے زورِ بازو پر لڑنا پڑیں گے، یا ماضی کی طرح انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی؟ سیٹ ایڈجسٹمنٹ تو ہر صوبے میں مقامی ضرورتوں کے مطابق ہوتی رہے گی، اصل سوال اتحادی سیاست کا ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ تحریک انصاف تنہا میدان میں اترنا چاہتی ہے، اُس کے سامنے 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی کی کامیابی ہے جو کسی اتحاد کے بغیر کامیاب ہوئی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کو اپنی مقبولیت کا زعم ہے اور وفاق اور چار صوبائی درجے کی اکائیوں میں حکومتوں کے باعث وہ بھی کسی سے اتحاد کی اصولی طور پر حامی نہیں ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے پاس چونکہ تقریباً ہر حلقے میں امیدوار موجود ہیں اس لیے اتحاد ان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے، البتہ مسلم لیگ (ن) اپنے موجودہ اتحادیوں جمعیت العلمائے اسلام (ف)، فنکشنل مسلم لیگ کے علاوہ پروفیسر ساجد میر اور محمود خان اچکزئی کو اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کرے گی۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ شاید کوئی پارٹی اتحاد کے لیے تیار نہ ہو، البتہ مسلم لیگ (ق) اپنے امیدواروں کے لیے ایڈجسٹمنٹ کرسکتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان سندھ کی شہری آبادیوںتک محدود ہے، نہ اُسے وہاں کسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ یہی حال ایم کیو ایم لندن اور پاک سرزمین پارٹی کا ہے۔ اس طرح 2018ء کا انتخابی زائچہ ایسا بنتا ہے جس میں ملکی سطح کا کوئی انتخابی اتحاد نظر نہیں آرہا۔ لیکن چونکہ دینی جماعتوں کا ایک ووٹ بینک ملک بھر میں موجود ہے جو بعض جگہوں پر انتہائی مؤثر اور بعض حلقوں میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس لیے ایک طرف سیاسی جماعتوں کی نظریں دینی جماعتوں کے ووٹ پر ہیں، تو دوسری جانب دینی جماعتیں بھی ایک بار پھر کسی دینی اتحاد پر غور ضرور کررہی ہیں۔ لیکن ان کے باہمی اختلافات اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ جبکہ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ ایسا اتحاد نہ بن سکے جو اُن کے لیے خطرہ ہو۔ اور اتحاد نہ بننے کی صورت میں ان کا ووٹ بینک ازخود کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ بنے گا اور آہستہ آہستہ اس پارٹی ہی میں ضم ہوجائے گا۔
یہ خطرہ دینی جماعتیں بھی محسوس کررہی ہیں۔ چنانچہ ایک طرف مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ(ن) سے زیادہ حصے کے طلب گار اور خواہش مند ہیں تو دوسری طرف اسی طرح کا مطالبہ ساجد میر کی مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کا بھی ہے۔ اس صورتِ حال میں کبھی ملّی یکجہتی کونسل کی بحالی اور فعالیت کے لیے کوششیں ہورہی ہیں اور کبھی ایم ایم اے کی بحالی کے لیے۔ زیادہ سنجیدہ اور نتیجہ خیز کوششیں ایم ایم اے کی بحالی کے لیے ہورہی ہیں جس کے لیے پہلے مولانا سمیع الحق نے آواز اٹھائی، پھر مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کی سابقہ جماعتوں کو کھانے پر بلایا، لیکن سب سے اہم ڈویلپمنٹ لیاقت بلوچ ،فضل الرحمن ملاقات ہے۔ اخباری اطلاعات اور اندرونِ خانہ معلومات کے مطابق جناب لیاقت بلوچ نے امیر جماعت سینیٹر سراج الحق کے مشورے سے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی اور ایم ایم اے کی بحالی کے امکانات اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد پر تفصیل سے گفتگو کی۔ اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے اس سے یہ اندازہ لگایا کہ جماعت اسلامی خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے ساتھ موجودہ سیٹ اَپ سے زیادہ مطمئن نہیں ہے۔ ایک طرف حکومت میں اس کا کردار افواہوں کی حد تک غیر مؤثر ہے۔ دوسرے وہ اپنے بعض اہم لوگوں کے پارٹی چھوڑنے سے پریشان بھی ہے اور اس میں تحریک انصاف کے کردار کو بھی محسوس کرتی ہے۔ آئندہ انتخابات میں صوبے میں ایک بڑی قوت ہونے کے باوجود اسے تحریک انصاف سے کوئی زیادہ توقعات نہیں ہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ اگر دینی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے کی طرز پر بن پائے تو اسے مستقبل میں بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اطلاعات کے مطابق انہوں نے ایم ایم اے کی بحالی کے لیے جماعت اسلامی خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت سے باہر آجائے۔ ایسی صورت میں مولانا کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور بعض دوسری جماعتوں اور افراد کے ساتھ مل کر جمعیت العلمائے اسلام جماعت اسلامی کے تعاون سے صوبے میں حکومت بناسکتی ہے، اور انتخابات سے پہلے بننے والی یہ حکومت انتخابات میں دینی جماعتوں کے اتحاد کے لیے ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہوسکتی ہے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ جماعت اسلامی کے تعاون سے وہ تحریک انصاف کی حکومت کو الٹا سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں لیاقت بلوچ نے استفسار کیا کہ اگر جماعت اسلامی صوبے میں تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ دے تو کیا جے یو آئی مرکز میں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ چھوڑ دے گی؟ اس پر مولانا فضل الرحمن تیار نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ سارا کھیل مسلم لیگ (ن) کے تعاون ہی سے کھیلا جانا ہے، اس لیے اُسے چھوڑا نہیں جاسکتا۔ ایسے میں بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر تو اگلے انتخابات میں بھی جے یو آئی مسلم لیگ (ن) کی اتحادی رہے گی، وہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف دینی جماعتوں کا اتحاد کیوں بنائے گی؟ پھر تو اس سارے بکھیڑے میں پرویز خٹک کی حکومت ختم ہوگی اور نیب مقدمات میں گھٹنوں گھٹنوں دھنسی ہوئی مسلم لیگ (ن) کو ایک بڑاریلیف مل جائے گا۔