’’حج کی اپنی مجاہدانہ شان ہے۔ اس جہاد کی اپنی وردی، ترانہ، اسلحہ اور پریڈ ہے۔ یہاں ہر سپاہی خود اپنا کمانڈر ہے۔ ایک ہی رینک پر مشتمل احرام ایسی خوبصورت وردی ہے جو ہر حاجی پر سج جاتی ہے۔ لبیک کے ترانے کے صوتی اثرات اس قدر ملکوتی ہیں کہ ان کی گونج سے کوہ و دمن وجد میں آجاتے ہیں۔ اس کا اسلحہ وہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں ہیں جن سے حاجی شیطان پر اللہ کا حکم نافذ کرتے ہیں۔ اس کی پریڈ ایسی پریڈِ مسلسل ہے جس میں ہر پڑائو پر ترتیب بدل جاتی ہے۔ اس پریڈ میں عجیب ہیبت ہے، غایت جس کی رب کی چاہت ہے۔ پریڈ عرفات پہنچتی ہے تو ملاحظہ کے لیے اللہ تعالیٰ خود آسمانِ دنیا پر تشریف لے آتے ہیں اور پوچھتے ہیں ’’میرے بندے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ کیا دنیا ایسی رہبانیت کی مثال پیش کر سکتی ہے جس میں سراپا ناز مجبورِ نیاز ہوجائیں تو فوراً نواز دیئے جاتے ہیں۔‘‘
حج کی انوکھی تعریف پر مشتمل سطورِ بالا میاں محمد آصف کے سفرنامہ حج ’’دید امید کا موسم‘‘ سے مستعار لی گئی ہیں، جنہیں کتاب کے ورقِ آخر پر شائع کیا گیا ہے۔
میاں محمد آصف ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس ہیں، پولیس میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے پولیس کے زبان زدِ عام عیوب اور کروفر سے بے نیاز سادہ، بامقصد اور خوفِ خدا کے زیر سایہ زندگی بسر کی، اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کوئی ان سے مل کر یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ سامنے کھڑا شخص کبھی پولیس جیسے محکمے کے اعلیٰ ترین مناصب میں سے ایک پر فائز رہ چکا ہے۔ وہ آج کل سرگودھا کی تعلیمی سرگرمیوں اور سیالکوٹ کی فکری مجلسوں میں حصہ دار ہیں۔ بابِ حرم سرگودھا کے موسس، ایوانِ اقبال لاہور اور سیرت اسٹڈی سینٹر سیالکوٹ کے رکن ہیں۔ ’’اقبال کو آنے دو‘‘ کے نام سے اقبالیات کے فروغ کے لیے تحریک شروع کر رکھی ہے۔ بزم اقبال سیالکوٹ کے صدر اور سوک سنس اسٹڈیز کے کنوینر ہیں۔ سفرنامہ امریکہ ’’اپنوں کے درمیان‘‘ کے مصنف کی دو مزید کتابیں ’’خیالِ ناتمام‘‘ (نثری نظمیں) اور ’’بانگِ راحیل‘‘ (فکر ریزے) زیر طبع ہیں۔ ان سے as.if54@hotmail.com اور 0301-8422862 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
حج کے سفرِ سعادت کے بے شمار سفرنامے اردو اور دیگر زبانوں میں لکھے جا چکے ہیں اور آئندہ بھی لکھے جاتے رہیں گے، مگر میاں محمد آصف نے پولیس کے محکمے میں رہتے ہوئے جس طرح تمام عمر اپنی انفرادیت قائم رکھی اسی طرح ان کا یہ سفرنامہ بھی اپنے اندر ایک انفرادیت اور جدت لیے ہوئے ہے، جسے پڑھتے ہوئے قاری کسی مرحلے پر اس لیے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا کہ پہلے سے بار بار مطالعہ شدہ موضوع پر ایک جیسی باتوں کا اعادہ کیا جا رہا ہے۔ کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے ’’پیش منظر‘‘ میں ’’حرفِ راز‘‘ کے عنوان سے کتاب کا تعارف اور اس کی تیاری کے مختلف مراحل مصنف نے اپنے الفاظ میں بیان کیے ہیں، اس حصے کی دوسری مختصر تحریر ’’تصدیق‘‘ کے عنوان سے مہتمم جامعہ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ، شیخ القرآن و الحدیث مولانا عبدالمالک صاحب کی ہے۔ اسی حصے میں مصنف کے تین شریکِ حج ساتھیوں مقبوضہ کشمیر کے ڈاکٹر اے۔ اے۔ بابا، ترکی کے مصطفی پاکھوی اور بنگلہ دیش کے عبدالمالک کے پیغام ان کی اپنی تحریروں کے عکس کی صورت میں شائع کردیئے گئے ہیں۔
دوسرے حصے ’’منظر‘‘ میں پانچ موسموں کا تذکرہ ہے، جس سے متعلق مصنف خود یوں رقم طراز ہیں: ’’دید امید کا موسم جسمانی اور روحانی سفر کی روداد ہے۔ ذہن کی آنکھ نے جو دیکھا قلم کی زبان نے اسے تحریر کردیا۔ اس سفرنامے میں پانچ موسم بیان ہوئے ہیں۔ کتاب کے پہلے حصے ’’خیال‘‘ میں حج کے بلاوے، تیاری، احکامات اور سرزمینِ مقدس آمد کا ذکر ہے۔ دوسرا حصہ ’’جلال‘‘ قیام مکہ کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ تیسرے حصے ’’جمال‘‘ میں مدینہ منورہ میں گزرے ایام کو سمیٹا گیا ہے۔ چوتھا حصہ ’’کمال‘‘ حج کے مقامات، مناسک اور حج کی ادائیگی کا ذکر لیے ہوئے ہے۔ جب کہ آخری حصے ’’استقلال‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ حج حاجی سے بقیہ زندگی کے حوالے سے کیا تقاضا کرتا ہے۔‘‘
ہر حصے کے آخر میں قرآنِ پاک، احادیثِ مبارکہ اور دیگر کتب کے حوالہ جات بھی درج کر دیئے گئے ہیں جن سے کتاب کی جامعیت اور افادیت میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے۔
تیسرے حصے میں چار صفحات میں پاکستان و دیگر ممالک کے شریکِ سفر احباب اور سعودی عرب میں میزبان حضرات کے نام درج کیے گئے ہیں، جب کہ آخری سولہ صفحات حج اور عمرہ کے اردو زبان میں اب تک لکھے گئے سفرناموں کی ایک جامع فہرست پر مشتمل ہیں… جو سالِ اشاعت کے اعتبار سے مرتب کی گئی ہے۔ اس فہرست کے مطابق اردو میں پہلا سفرنامۂ حج تقریباً ڈیڑھ صدی قبل 1870ء میں مطبع محب کشور ہند میرٹھ سے شائع ہوا۔ ’’ماہ مغرب… المعروف بہ کعبہ نما‘‘ کے نام سے 184 صفحات پر مشتمل یہ سفرنامہ محمد منصب علی خاں کی تصنیف ہے۔ مجموعی طور پر اس فہرست میں 251 سفرناموں کا تذکرہ ہے۔ اس فہرست سے کتاب کی قدرو قیمت میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے جس سے اس موضوع پر تحقیق اور مطالعے کے شائقین کے لیے بہت زیادہ سہولت بہم پہنچا دی گئی ہے۔
’’دید امید کا موسم‘‘ میں اعلیٰ گلیز کاغذ پر 32 اضافی صفحات پر مشتمل مقاماتِ مقدسہ و مناسکِ حج کی نادر تصاویر پر مبنی ایک البم بھی شامل ہے جس نے کتاب کی اہمیت کو دوچند کردیا ہے۔
کتاب نہایت عمدہ کاغذ، اعلیٰ معیار طباعت و اشاعت پر ذوق و شوق سے شائع کی گئی ہے۔ سرورق جتنا سادہ ہے، اتنا ہی دیدہ زیب اور پُرکشش بھی ہے۔ تاہم کتاب کی مستقل اہمیت اور ہمہ نوع افادیت کے پیش نظر کارڈ کے بجائے اگر گتے کی جلد بندی کرائی جاتی تو زیادہ موزوں ہوتا۔ بہرحال کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے نہایت مفید، جامع اور منفرد ہے۔ کتاب کے ہر باب میں متعدد افکار و واقعات ایسے ہیں کہ جن کا تذکرہ ان سطور میں ضروری محسوس ہوتا ہے مگر جگہ کی تنگ دامنی مانع ہے۔ ہر صاحبِ ذوق کو چاہیے کہ وہ ضرور اس کتاب کا مطالعہ کرے۔ ضرورت ہے کہ اسے ملک بھر کے تعلیمی اداروں، دینی جامعات اور عوامی لائبریریوں کی زینت بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔